رمضان اور قرآن

 رمضان اور قرآن کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل ہوا۔ اس طرح رمضان قرآن کی سالگرہ کا مہینہ ہے۔ قرآن کی اس سالگرہ کو منانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ قرآن کے در س و تدریس کا اہتمام کیا جائے۔ عام رویہ یہ ہے کہ لوگ اس ماہ ِمبارک میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دن کے اکثر اوقات تلاوت میں گزارتے ہیں۔ اس طرح بیشتر لوگ اس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے رمضان کے دوران اتنے قرآن ختم کیے مگر یہ رویہ قابل اصلاح ہے۔ اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تلاوت قرآن پر ہر ہر حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملتی ہیںاور اس طرح تلاوت کرنے والا ڈھیروں نیکیاں کما لیتا ہے ،مگر ایسا شخص یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ کی کتاب، کتابِ ہدایت ہے۔ اس کو سمجھ کر پڑھنا بھی ضروری ہے، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کیا حکم دیتا ہے اور کن چیزوں سے منع کرتا ہے۔ اُس کی رضا والے کام کو ن سے ہیں اور کن کاموں سے وہ ناراض ہوتا ہے۔ جب انسان سمجھ کر قرآن پڑھے گا تو قدم قدم پر اُسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہوگا۔ اُسے معلوم ہوتا جائے گا کہ کہاں کہاں اُس کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے اور کون سے کام ہیں جن کو صحیح طور پر انجام دے رہا ہے۔جس نے رمضان میں دس مرتبہ قرآن ختم کیا یقیناًاُس نے بہت نیکیا ں کمالیں،اوراجر وثواب کا مستحق ہوگیا، لیکن اگر اُس کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ شرک سے بچنا کتنا ضروری ہے اور وہ اتنی کثیر تعداد میں قرآن پڑھنے کے باوجود مشرکانہ عقائد اور شرکیہ کاموں سے بے خبر رہا تو اُسے صرف قرآن مجید کی تلاوت سے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے۔بس سمجھ لینا چاہیے کہ اُسے قرآن کی تلات کا ثواب توضرور ہوگا،مگر سمجھ کر نہ پڑھنے سے قرآن کا حق پورے طور سے ادا نہ ہوگا۔
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے۔یہ صرف علماء کے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے نہیں ہے،بلکہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺکے ذریعے اس کتاب کو لوگوں تک پہنچایا اور من وعن قائم رکھا، تاکہ سب لوگ اس کو سمجھ کر پڑھیں اور اللہ کے حکموں کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ اگر لوگ اپنی زندگیوں کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھال لیں تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے، ہر جگہ امن کا دوردورہ ہواور زندگیوں میں سکون آجائے، جرائم کا خاتمہ ہوجائے، بے پردگی، بے حیائی اور گناہ کے کام ختم ہو جائیں۔ ہر شخص اپنے فرائض سے آگاہ ہوجائے۔اُس کے دل میں اللہ کا خوف اور آخرت کے حساب کتاب کا منظر اُس کی آنکھوں کے سامنے مستحضر رہے۔ مگر یہ اسی صورت میں ہوگا جب انسان سمجھ کر قرآن مجید کا مطالعہ کرے گا۔ ظاہر ہے کہ سمجھ کر پڑھنے میں تو وقت زیادہ لگے گا۔اور جتنی دیر میں ایک آیت مطلب سمجھ کر اور غور کرکے پڑھی جائے گی اتنی دیر میں بغیر سمجھے کئی سورتیں پڑھی جاسکتی ہیں۔تو ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے رویے میں تبدیلی کرے اور رمضان المبارک میں خاص طور پر قرآن کی آیات  سمجھ کر پڑھنے کا پروگرام بنائے۔بغیر سمجھ کر قرآن مجید کی تلاوت بلاشبہ کار ثواب ہے لیکن قرآن سے ہدایت تو تبھی ملے گی جب اُسے سمجھ کر پڑھا جائے گا۔اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ قرآن مجید ضابطۂ حیات ہے اور اس کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنا مطلوب و مقصود ہے۔ جب قرآنی تعلیمات سے آگاہی ہی نہ ہوئی تو عمل کرنے کا داعیہ کیسے پیدا ہوگا؟رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ عالم کا درجہ عابد پر اس طرح ہے جیسا میرا درجہ تم میں سے کسی ادنیٰ پر۔کوئی ادنیٰ بلکہ اعلیٰ مسلمان رسول اللہ ﷺکے پاؤں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہے تو اب عالم کا مقام سمجھا جاسکتا ہے۔ عالم کون ہے؟عالم وہ ہے جسے قرآن کا علم حاصل ہے اور وہ خود بھی اس پر عمل پیرا ہے اور دوسرے بھی اس سے فیضیاب ہورہے ہیں، جب کہ عابد کی عبادت اس کی ذات کے لیے نفع بخش ہے، وہ بھی اس صورت میں جب عابد کی زندگی کے شب ور وز قرآنی تعلیم کے مطابق گزر رہے ہوں۔اگر عابد نمازیں پڑھ رہا ہے، درود و وظائف میں مشغول ہے، اُس کا بیشتر وقت اللہ کی یاد میں گزر رہا ہے، وہ قرآن کی کثرت سے تلاوت کررہا ہے اور قرآن مجید میں جھوٹ سے باز رہنے،وعدہ پورے کرنے، غیبت سے بچنے کے احکام پر مشتمل قرآن کے الفاظ پڑھ تو رہا ہے مگر نہ اُن آیات کا مطلب سمجھ رہا ہے اور نہ ہی اُن پر عمل کررہا ہے تو کیا وہ فائدے میں رہے گا؟گویا اُس کی زبا ن تو تلاوت کی حلاوت محسوس کررہی ہے، مگر عمل الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے۔
یہاں کہا جاسکتا ہے کہ قرآنی تعلیمات تو علماء کی تقریروں ،وعظ و نصیحت کی محفلوں اور جمعوں کے خطبوں کے دوران انسان کو معلوم ہوجاتی ہیںاور اس طرح کوئی شخص اسلامی ا حکام سے بے خبر نہیں رہتا مگر اس سارے علم کی حیثیت تو خبر کی سی ہے کیوں کہ ’’شنیدہ کے بود مانند دیدہ‘‘۔سنا ہوا دیکھے ہوئے کی طرح کیسے ہوسکتا ہے۔وہ ایک انسان کی بتائی ہوئی بات ہوگی۔مگر انسان جب اپنی آنکھوں سے اللہ کا حکم قرآن میں دیکھ لے گا تو وہ آسانی سے اس کے خلاف عمل کرنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ اسی طرح جب وہ اللہ کی نافرمانی کا ذکر قرآن میں دیکھے گا اور اس نافرمانی پر اللہ کے عذاب کی وعید اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا تو وہ کیوں کر ایسی نافرامانی کرنے پر کمر بستہ رہے گا۔
اپنی زندگی کو سیدھے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید کی تلاوت سمجھ کر کریں۔ رمضان شریف کے دوران اگر قرآن کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اُس کی چند سورتیں بھی غور و تدبر کے ساتھ پڑھ لیں، تو یہ تدبر قرآن کے حق کی ادائیگی کا ذریعہ ہوگا۔ کیوں کہ قرآن کا حق صرف یہی نہیں کہ اُس کی تلاوت کی جائے بل کہ تلاوت کے علاوہ اُس کا بڑا حق یہ ہے کہ اُسے غورو فکر کے ساتھ پڑھا جائے اور اُس کو اپنے اعمال کی بنیاد بنایا جائے،ورنہ اندیشہ ہے کہ اللہ کے رسول رحمۃللعالمین ہونے کے باوجود اللہ کے حضور یہ شکوہ کریں گے کہ’’اے میرے پروردگار!میری قوم کے یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس قرآن سے منہ موڑ رکھا تھا۔‘‘(الفرقان:۳۰)یعنی نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کی اور نہ اسے عملی زندگی میں اختیار کیا ۔
یہ قرآن پاک ہمارے لیے دستور حیات ہے، یہ ملتِ اسلامیہ کا آئین ہے۔ بدقسمتی سے آج مسلمان ممالک نے اس خدائی آئین کو ترک کرکے خود ساختہ اور اغیار کے آئین کو اپنایا ہے ۔ سیکولر ، لادین اور شریعت سے متصادم قوانین کو اپنے ممالک میں رواج دیا ہے جس کے نتیجہ میں ان ممالک میں طوائف الملوکی پھیلی ہے ، ہر طرف انتشار و افتراق ہے۔ کشت وخون کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔پورے عالم میں مسلمان ممالک کی حیثیت پرکاہ کے برابر نہیں ہے۔ دشمن مسلمان ممالک کو اپنے مفادات کے لیے انگلیوں پر نچا رہے ہیں ۔ کیوں کہ انہوں نے اپنا آئین یعنی قرآن کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ جس کی وجہ سے تاریخ میں ان کو تمکن اوروقار حاصل تھا۔علامہ اقبالؒ نے فارسی کے ان اشعار میں اس کی بہترین توضیح کی ہے:
توہمی دانی کہ آئینِ تو چیست؟
زیرِ گردوں سرِ تمکینِ تو چیست؟
آں کتابِ زندہ قرآنِ حکیم
حکمتِ اول یزال است و قدیم
نسخۂ اسرارِ تکوینِ حیات
بے ثبات از قوتش گیرد ثبات
حرفِ او را ریب نے، تبدیل نے 
آیہ اش شرمندۂ تاویلِ نے
بختہ تر سوادے خام از زورِ او
درفتد باسنگ جام از زورِ او
نوعِ انساں را پیام آخریں
حاملِ او رحمۃ للعالمین 
ترجمہ:’’ علامہ اقبالؒ مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہیں۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارا آئین اور ضابطہ حیات کیاہے؟ علامہ مرحوم خود ہی اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ تیرا آئین اور تیرے تمکن اور غلبہ کی بنیاد کتاب زندہ القرآن ہے۔ جو حکمتِ لازوال سے معمور اور جب سے آدم کا وجود دنیا میں آیا ہے اُس وقت سے یہی حکمت الٰہی اُس کی رہبری اور رہنمائی کی بنیاد رہی ہے۔ اسی کو حکمتِ قدیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی زندگی کی تکوین اور تعمیر کا واحد نسخہ ہے۔ جو قومیں دنیا میں کمزور اور بے بس ہوتی ہیں وہ اسی نسخۂ کیمیا سے ثبات اور دوام حاصل کرتی ہیں۔ قرآن حکیم کے حروف، الفاظ اور معانی میں کوئی شک وریب نہیں ہے اور نہ ہی ان میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے اور نہ ہی اس کتاب لازوال اور قدیم کی آیات میں کوئی ایسی تاویل قبول ہوسکتی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی تشریح اور تاویل کے خلاف اور برعکس ہو۔ اس کتاب زندہ کی بدولت خام اور کمزور جذبہ اور عزم، قوت اور پختگی حاصل کرتے ہیں۔ اس کے زور اور طاقت سے ایک پیالہ بھی پتھر سے ٹکرانے کی قوت حاصل کرتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کمزور قومیں دنیا میں بڑی بڑی استعماری قوتوں سے ٹکرلے کر حق و صداقت کا بول بالا کرتی ہیں جیسا کہ قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں نے کردکھایا ہے۔ اس کتاب پر عمل کرکے پابند اور گلام قومیں آزادی حاصل کرتی ہیں۔ اسی کتاب الٰہی کی تعلیمات کے اثر سے غلامی کی زنجیروں سے جکرے ہوئے لوگ بغاوت اورآزادی کی آوازیں اٹھاتی ہیں۔ یہ کتاب، پوری انسانی برادری کے لیے اللہ کی طرف سے آخری پیغامِ ہدایت اور رہنمائی ہے۔ اس کے لانے والے پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا ہے‘‘ (روحِ دین کا شناسا۔۔۔اقبالؒ)
آئیے، عہد کریں کہ ذوق و شوق سے تلاوت کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کو سمجھ کر پڑھیں گے اور اس سے ہدایت حاصل کریں گے اور اس کے دیے ہوئے نظام کو دنیا میں نافذ کرنے کی مقدور بھر کروشش کریں گے۔ 