یہ ایک اہم مسئلہ ہے ، لوگ آئے دن پوچھتے ہیں کہ میرے فلاں رشتے دار نے مجھ پہ زیادتی کی ہے یا فلاں رشتہ دار کی طرف سے مجھے تکلیف پہنچ رہی ہے، وہ مجھ سے علیک سلیک بند کرچکے ہیں بلکہ رشتہ بھی توڑچکے ہیں ۔صورت ایسی ہے کہ رشتہ نبھانا مشکل ہو گیا ہے۔ ایک طرف سے بےحد زیادتی ہے، دوسری طرف سے خون کے رشتوں سے کھیلا جارہا ہے۔یہ ایسے مسائل ہیں جن سے اکثر لوگ جوجھ رہے ہیں ۔ دراصل یہی مسائل گھروں کی تباہی ، گھریلوتنازعات، خونی رشتوں میں دراڈ ، صلہ رحمی کےخاتمےاور فردوجماعت کی بربادی کا سبب بنے ہوئے ہیں ۔
میں اپنی ذاتی رائے یہی ہے کہ ایسے مسائل میں اکثر یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ منفی رویہ یا زیادتی ہوتی ہے جو عام طور سے مشاہدے میں آرہی ہے اور منطق بھی یہی کہتی ہے کہ اگر ایک طرف سے ظلم وزیادتی ہو تو معاملہ شدت نہیں پکڑے گااور تنازع کی صورت اختیارنہیں کرسکتا ہے۔ اس کی مثال میں یہ واقعہ پیش کرنا شائدسبق آموزہوگا، جو سب کو شاید یاد بھی ہو، ہم سب نے اس واقعہ کو کئی مرتبہ اپنےوالد یا والدہ سے سنا ہوگا۔
ساس وبہو کی نوک جھونک کسے معلوم نہیں ۔ایک ساس ہمیشہ اپنی بہوکو کڑوی کسیلی کہا کرتی ، بہو روز ساس کی گالی اور طعنے سنا کرتی۔ایک دن بہوایک مولوی صاحب کے پاس گئی اور کہا کہ ایسا کوئی تعویذ لکھ دیں، جس سے ساس مجھے گالی نہ دے ۔ مولوی صاحب نے ایک تعویذ لکھ دیا اور کہا کہ جب ساس گالی دینے لگ جائے، اُس وقت یہ تعویذ منہ میں ڈال لینا اور کَس کے منہ بند کرلینا ،خیال رہے منہ کھلنے نہ پائے ۔ بہو تعویذ لیکر گھر آگئی ۔ اب ہمیشہ کا معمول یہ تھا کہ ساس جب بھی گالی دینے لگ جاتیںتو بہو منہ میں تعویذ لیکر منہ کو کَس کے بند کرلیتی ۔ دن گزرتے گئےاور ساس کی گالیاں کم ہوتی گئیں ۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں کے بعد گالی نہ کے برابر تھی اور دھیرے دھیرے وہ گالی بھی ختم ہوگئی اور ساس وبہو میں اُلفت ومحبت پیدا ہوگئی ۔
کہیں اس واقعہ سے یہ نہ سمجھ لیں کہ تعویذ نے اپنا کوئی اثر دکھایایا تعویذ استعمال کرنا جائزہے ۔ نہیں ہرگز نہیں! یہاں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کوکوئی گالی دے اور آپ اپنا منہ بند رکھیں یعنی گالی کا جواب نہ دیں تو معاملہ آگے نہیں بڑھے گا بلکہ وہیں ختم ہوجائے گا۔
گالی گلوج کرنا ، ظلم کرنا، چھل کپٹ کرنا،کینہ، بغض وحسد رکھنا، غرور وتمکنت کرنا، کسی کو حقارت سے دیکھنا، امیری پر اِترانا، عہدہ ومنصب کا بڑکپن ظاہرکرنا، رشتہ داروں کو غریبی ، بیماری،یتیمی ، کم مائیگی اور بے سروسامانی کی وجہ سے حقیر سمجھنا، – یہ سب سماجی وبائیں ہیں جو قہربن کر ہمارے سماج وسوسائٹی کے صالح عناصر کا خاتمہ کردیتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اسلام ان تمام باتوں سے روکتا ہے، جن سے سماجی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مثالی معاشرہ کے لئے رکاوٹ بنتا ہے۔ ہمیں اگر پاکیزہ اسلامی معاشرہ چاہئے تو ہمیں مذکورہ وباؤں کو ختم کرنا ہوگا اور ان کی جگہ الفت ومحبت ، اخوت ومروت ، حسن ظن وحسن تعامل ، بلندکردارو پاکیزہ خیالات، صلہ رحمی وہمدردی ، اکرام واحترام ،نرمی وبردباری،احسان واخلاص ،انفاق وارمغان کو اپنانا،اوامرکی بجاآوری کرنااور منہیات کا سد باب کرنا ہوگا۔
سماج میںہمیشہ دوطرفہ زیادتیاں نہیں ہوتی ہیں۔ بہت سی یک طرفہ زیادتیاں بھی ہوتی ہیں۔ ساس وبہو کے مسائل ، بھائی وبہن کے مسائل ،والدین کے مسائل ،زوجین کے مسائل ، اولاد کے مسائل ، سسرالی مسائل ، گھریلومسائل ، رشتہ داروں کے مسائل ۔ ان مسائل میں بعض دفعہ ایک کی طرف سے دوسرے کے اوپر زیادہ ظلم ہوتا ہے ، بلاکسی سبب کے زیادتی کی جاتی ہے ، دوسری طرف سے مکمل سکوت ہے ، کوئی جوابی کاروائی نہیں، پھر بھی ایک طرف سے ستم بالائےستم ہوتے جارہے ہیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کوئی کتنا صبر کرے، صبر کی بھی ایک انتہا ہے۔ کیا ایسی صورت میں کسی رشتہ دار سے قطع تعلق کیا جاسکتا ہے ؟میرا جواب یہ ہے کہ صورت حال کچھ بھی ہو، اسلام نے اپنے رشتہ داروں سے کبھی بھی قطع تعلق کا حکم نہیں دیا ہے ۔ ہمارے رشتے دار ایک جسم کے مختلف اعضاء کی حیثیت سے ہیں ۔ اگر یہ الگ الگ ہوگئے تو جسم باقی نہیں بچے گا، ٹکرے ٹکرے ہوجائے گا۔
آئیے ایک نظر رشتے داری سے متعلق اسلامی احکام دیکھتے ہیں ۔اسلام نے ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیا ہےیعنی رشتہ داروں سے رشتہ قائم رکھنے کو کہا ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ترجمہ: ’’جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہئے‘‘ ۔(صحيح البخاري:6138)صلہ رحمی کی ترغیب کے ساتھ اجر کا وعدہ کیاگیا کیونکہ کبھی کبھار آدمی نفس کی پیروی میں آکر اپنے رشتہ داروں سے مقاطعہ کرلیتا ہے، ایسے لوگوں کو صبر اور ایذاء برداشت کرنے کا اجر نیکی کی طرف راغب کرے گا۔ اس سے متعلق بہت ساری احادیث ہیں چند ایک آپ کی خدمت میں پیش ہے ۔
۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ِ (ترجمہ): ’’اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اس پر ایمان لانا، پھرصلہ رحمی کرنا، پھر بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا‘‘۔(صحيح الجامع:166)۲۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:۔(ترجمہ): ’’جو شخص اپنے رزق میں وسعت اور عمر میں اضافہ پسند کرے وہ صلہ رحمی کرے‘‘ ۔( صحيح البخاري:2067)۳۔ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ترجمہ:’’ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا ، آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ آخر یہ کیا چاہتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو بہت اہم ضرورت ہے۔ ( سنو ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰة دو اور صلہ رحمی کرو۔‘‘(صحيح البخاري:1396)
دوسری طرف جو لوگ صلہ رحمی نہیں کرتے ، رشتہ داریاں توڑتے ہیں، انہیں ڈرایاگیا، سزائیں سنائی گئیں تاکہ دل میں خوف پیدا ہواور قطع تعلق سے رک جائے ۔
۱۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:ِ(ترجمہ) ’’اوراللہ کے نزدیک سب سے بُرا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔‘‘( صحيح الجامع:166)۲۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ(: ’’کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اس کا کرنے والا دنیا میں ہی اس کا زیادہ سزا وار ہو اور آخرت میں بھی یہ سزا اسے ملے گی سوائے ظلم اور رشتہ توڑنے کے‘‘۔(صحيح ابن ماجه:3413)۳۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ): ’’اولاد آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کو اللہ تعالیٰ کو پیش کئے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رشتہ توڑنے والے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا‘‘۔(صحيح الترغيب:2538)۴۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لا يدخلُ الجنةَ قاطعُ رحمٍ(ترجمہ): ’’جنت میں رشتہ توڑنے اور کاٹنے والا نہ جائے گا۔‘‘(صحيح مسلم:2556)
بشر ہونے کے ناطے انسان جذبات میں آسکتا ہے ، غصہ کے عالم میں کسی سے رشتہ توڑ سکتا ہے ۔ اگر ایسا کبھی ہوجائے تو ایک مومن کو دوسرے مومن سے خواہ رشتہ دار ہوں یا عام مسلمان ،تین دن سے زیادہ قطع کلام کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ قطع کلام اور قطع تعلق میں بہت فرق ہے ، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی سے تین دن تک قطع کلام کرسکتے ہیں مگر قطع تعلق کبھی نہیں کرسکتے ۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(ترجمہ): ’’کسی مسلمان کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے وہ دونوں ملیں تو یہ اس طرف منہ پھیر لے اور وہ (اس طرف) منہ پھیر لے اور ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔‘‘(صحيح مسلم:2560)
رشتہ توڑنا موجب جہنم ہے ،لہذا کوئی کسی سے رشتہ نہ توڑے ،یہی وجہ ہے کہ دولوگوں میں قطع تعلق ہو تود وسرے مسلمان ان دونوں بھائیوں کو آپس میں ملانے کی غرض سے جھوٹ بول سکتے ہیں ۔سیدہ ام کلثو بنت عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں : میں نے نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کی کہیں اجازت دی ہو مگر تین مواقع پر ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:(ترجمہ): ’’میں ایسے آدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہو اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہ ہو ، اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر جو اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائے ۔‘‘(صحيح أبي داود:4921)
آخری مرحلے میں یہ آتا ہے کہ آدمی دوسری طرف سے تکلیف جھیلتا ہے اور اس تکلیف پر صبر کرتا اور خاموشی اختیار کرتا ہے، دراصل ایک مومن سے یہی مطلوب ہے جو صبر کا دامن چھوڑدیتے ہیں اور قطع تعلق کا راستہ اپناتےہیں وہ غلط کرتے ہیں انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کرنا چاہئے ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں:ترجمہ: میرے رشتہ دار ہیں لیکن ان کے ساتھ صلہ رحمی کرتا ہوں وہ لوگ قطع رحمی سے کام لیتے ہیں، میں ان کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں، میں بردباری کا معاملہ کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ زیادتی کا معاملہ کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اگر تم ایسے ہی ہو جیسا کہا، تو گویا ان پر قوموں کا افسوس ہے، جب تک تم اپنی اسی حالت پر رہوگے اللہ تعالیٰ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی‘‘۔(صحيح مسلم:2558)
جہاں ایک ساتھ کئی افراد رہتے ہیں وہاں آوازپیدا ہونا فطری امر ہے ۔ کسی بات پر اختلاف ہوجائے گا، کسی بات سے رنجش ہوسکتی ہے ، کبھی یونہی غلط فہمی پیدا ہوسکتی ، کبھی کسی کے بہکاوے کے شکار ہوسکتے ہیں ۔ ہمارے لئے یہ مناسب ہے کہ جہاں زیادتی ہوجائے وہاں کسی ثالث کے ذریعہ معاملہ حل کرلیں ، جہاں غلط فہمی اور بہکاوے کا امکان ہو وہاں بغیر ثبوت کے کوئی بات تسلیم نہ کریں اور اپنے رشتہ دار کے متعلق حسن ظن ہی رکھیں ، اگر جھگڑالڑائی کی نوبت آجائے تو آپس میں صلح وصفائی کرلیں ، حقوق کا معاملہ ہوتو پنچایت کرکے حقوق طلب کریں مگر ہمیں کسی بھی صورت میں کسی بھائی سے قطع تعلق نہیں کرنا ہے ،خواہ ستم پر ستم کرے ۔ جو صبر کا دامن تھامے گا اور کسی رشتہ دار کی طرف سے ایذاء برداشت کرے گا اللہ اس کے ساتھ ہے اور اس وقت تک اس کے نامہ اعمال میں اجر لکھتا رہے گاجب تک زیادتی پر صبر کرتا رہے گا۔
(بارہمولہ ،رابطہ/6005293688)