حریم ِنبوتؐ کی شان میں گستاخی، اخلاق وانسانیت سے عاری شیاطین کا وطیرہ رہا ہے،ا فضل الرسلؐاور خیر الخلائق کو کسی گستاخ کی گستاخی اور کسی شیطان کی شیطنت کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی ہے،البتہ گستاخِ رسولؐاپنا چہرہ بے نقاب کر کیخود اپنے آپ کو ذلت و رسوائی اور ہلاکت کی آگ میں دھکیل دیتا ہے،آغازِ نبوت سے ہی بعض بدنصیبوں نے آپؐ کی شان میں گستاخیاں کیں، آپؐکو ساحر، مجنون، کذاب اور ایسے نازیبا کلمات کے ذریعہ پکارا جن کو ہم اپنی زبان پر لانے سے قاصر ہیں، لیکن ایسے تمام گستاخ قصۂ پارینہ اور نشانِ عبرت بن گئے اور کوئی ان کا نام لیوانہیں،فرانسیسی صدر جیسے چند بدطینت اور شیطانی آلۂ کا روںکے سواکوئی ان کا پیروکار نہ بن سکا۔
لیکن قابلِ غور بات یہ ہے کہ ایسے نازک اور حساس مسئلہ میں ہمارا کردار کیاہے؟! موجودہ صورتحال میں جبکہ کفر کی تمام طاقتیں متحد ہیں، زبوں حال امت محمدیہؐ ابتلاء وآزمائش کے مراحل سے گزر رہی ہے، دعوائے محبت کا ثبوت طلب کیا جا رہا ہے، ہر چہار جانب سے اسلام اور اسلامی شعائر پر حملے کئے جارہے ہیں، گھٹیا اور کمینے قسم کے انسان نما شیاطین ناموسِ رسالت کو تار تار کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، اگرچہ ناموسِ رسالت پر مرمٹنے اور سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے امت کے اکثر افراد تیار ہیں اور چند باغیرت قائدین بھی اہلِ باطل کو للکار رہے ہیں اور پوری امت کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کر رہے ہیں،سلام ہو ایسے نفوسِ قدسیہ پر!لیکن یہ حقیقت بھی عیاں وبیاں ہے کہ اکثر مسلم وعرب قائدین اپنا ضمیر بیچ چکے ہیں، نہ ان کوناموسِ رسالت کا کوئی پاس ہے ، نہ ان کو بیت المقدس اور مسجد اقصی میں ہونے والی پامالیاں نظر آتی ہیں اور نہ ہی دنیا بھر کے مظلوموں کی چیخ و پکار اور آہ وبکا ان کو بیدار کر رہی ہے، اسلام پر ہونے والے ہر حملے کے مقابلہ میں وہ اپنے مفادات کو پہرہ دے رہے ہیں۔
ایسی ناگفتہ بہ صورتحال میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اے اللہ! ہم اپنی بدحالی، کمزوری و لاچاری، کم تدبیری اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی کم مائیگی کی تجھ ہی سے فریاد کرتے ہیں، ہم اپنی بداعمالیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے تیرے سامنے شرمسار ہیں، ہمارے گناہ سرحدِ آسمان تک پہنچ چکے ہیں، تیرے دین کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، تیرے برگزیدہ اور محبوب بندوں کی توہین کی جا رہی ہے، خاتم النبیینؐ اور سیدالمرسلین ؐکے خاکے بنا کر اور ان پر زبانِ طعن دراز کر کے ان کی توہین کی جا رہی ہے ، ان کی جناب میں گستاخیاں کی جارہی ہیں، حق بولنے والوں کی زبان وقلم پر قدغن لگائی جارہی ہے،حق پسندوں اور عدل و انصاف کا نظام بر پا کرنے والوں کو اذیتیں دی جا رہی ہیں،ان کو قیدوبند کی صعوبتوں سے گزارا جا رہا ہے ، ان میں سے بعض کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے،گستاخیاں، الزام تراشیاں اور تیرے مقابلہ میں تطاول وتکبر حدود سے تجاوز کر چکا ہے، ہم ان گستاخوں، باغیوں اور تیرے دشمنوں کے سامنے بے بس ہیں، ہم ان سے بے زار ہیں اور ان سے اپنی برأت کا اعلان کرتے ہیں، اے کمزوروں کے رب! تو ہی اب ان سے نمٹ لے اور تو ہی ان کے لئے ہماری طرف سے کافی ہوجا۔
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اے اللہ کے رسول! آپ کے بعد ہماری حالت بدل چکی ہے، ہم اوجِِ کمال سے گر کرپستیوں میں پہنچ چکے ہیں،ذاتی مفادات کے لئے جینا ہمارا مقصود بن گیا ہے، اسلام ہماری زندگیوں میں صرف دعوے کی حد تک رہ گیا ہے،’انا‘ کی بھوک اور تعصبات کی آگ نے ہمیں منتشر کر دیا ہے جس کی وجہ سے اعدائے اسلام ہم پر مسلط ہوگئے ہیں اور ہم ان کے لئے لقمۂ تر بن چکے ہیں، وہ اسلام پر الزامات لگارہے ہیں حالانکہ پوری دنیا میں مسلم امہ کا بہتا خون ان کے جھوٹ کو طشت از بام کر رہا ہے۔
اے اللہ کے رسولؐ! ہماری حالت ِزار دیکھ کر آپ پریشان ہو جائیں گے، بروزِ قیامت ہمارے متعلق گواہی دیتے ہوئے آپ آبدیدہ ہو جائیں گے،حوضِ کوثر پر آپ کا سامناہونے پرہماراسر جھک جائے گا،یہ امت اب وہ متحد اور خیر ِ امت نہیں ہے ، یہ ٹولیوں اور ٹکڑیوں میں بٹ چکی ہے، یہاں اسلامی اصول و قوانین کے بجائے اب سیکولرازم،نیشنلزم اور نہ جانے کن کن ازموں کا راگ الاپا جا رہا ہے اور یہ ا مت انہی ازموں اور خودساختہ نظاموں پر نازاں وشاداں ہے،اسلام کا نام لینے والے اپنے ایمان وضمیر کو غیروں کے ہاں گِروی رکھ چکے ہیں، اور بہت سے اسلام کے نام لیوا تو اپنے مفادات کی کرسی بچانے کے لئے اسلام کا سہارا لیتے ہیں، مسجدیں ویران ہیں،نوجوان آوارہ ہیں، ایوانوں میں غیراللہ کی پوجا کی جارہی ہے، تعلیم گاہوں میں علم کے نام پر ایمان سوز واخلاق سوز زہر آلود تہذیب سکھائی جا رہی ہے ،شیطان کو خوش کرنے والے نت نئے طریقے ایجاد کئے جا رہے ہیں،عریانیت و بے پردگی کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے، پورا معاشی نظام’جبت و طاغوت‘ کے پجاریوں کے زیرِ اثر سود اور حرام خوری پر مبنی ہے، اسلامی نظام کی بات کرنے والوں کو تہہ تیغ اور پابندِ سلاسل کر کے نظامِ عدل کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا جا رہا ہے، اللہ کے نیک اور مقرب بندوں کو بد نام کرنے کے لئے نئے نئے الفاظ اور نت نئی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں، دجالی میڈیا دجالی نظام کو قائم کرنے اور نافذ کروانے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے، اب اقدار بدل چکی ہیں، آپ کی پیشن گوئیاں چڑھتے سورج کی طرح مکمل ہورہی ہیں۔
اے اللہ کے رسولؐ! ہم ایسی صورت حال میں بے بس اور کمزور ہیں، آپ کا مقام تو بہت بلند ہے، آپ کا کوئی بال بیکا نہیں کر سکتا ہے، البتہ ہمارا کڑا امتحان لیا جا رہا ہے۔
آپؐنبوت و رسالت کے سرتاج ہیں، آپؐ کی ذات کا دفاع تو خود مالکِ کون وسماء نے اپنے ذمہ لیا ہے، استہزاء کرنے والوں کے مقابلہ میں فرمایا ہے:’’تمہاری طرف سے ہم اْن مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لئے کافی ہیں‘‘۔ (سورۃ الحجر:95)’’اے نبی !کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے؟‘‘۔(سورۃ الزمر:36)
اہلِ کفر کی مساعیٔ ناخوشگوار کے مقابلہ میں اپنے محبوب کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اے پیغمبر! جو لوگ آج کفر کی راہ میں بڑی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمہیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے‘‘۔ (سورۃ آل عمران: 176)
اہلِ باطل کی ایذاء رسانیوں کے جواب میں فرمایا:’’اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے‘‘۔(سورۃ المائدۃ:67)’’اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دْکھ دیتے ہیں ان کے لئے دردناک سزا ہے‘‘۔ (سورۃ التوبہ: 61)
آپؐ پر اپنی زبان دراز کرنے والوں کو یہ وعید سنائی:’’ٹوٹ گئے ابولہب کے ہاتھ اور نامراد ہوگیا وہ‘‘۔ (سورۃ اللہب: 1)
آپؐکی عیب جوئی کرنے والوں کے لئے یہ تاریخی پیشن گوئی فرمائی:’’بے شک (آپ سے بغض وعداوت رکھنے والا اور عیب جوئی کرنے والا) دشمن ہی جڑ کٹا (منقطع ہونے والا) ہے‘‘۔(سورۃ الکوثر: 3)
آپؐ سے عداوت ودشمنی رکھنے والوں کو آگاہ کر دیا:’’جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہواور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، حالانکہ اس پر راہِ راست واضح ہوچکی ہو، تو اس کو ہم اسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے‘‘۔( سورۃالنساء:115)
روگردانی اختیار کرنے والوں کو متنبہ کر دیا کہ : ’’ان کے مقابل میں تمہارے لئے اللہ کافی ہوگا‘‘۔ (سورۃ البقرہ: 137)
یہاں تک کہ آپؐ کی آواز کے مقابلہ میں اونچی آواز کرنے والوں کو وارننگ دی کہ :’’کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب اکارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو‘‘۔ (سورۃ الحجرات: 2)
آپؐ کی جناب میں بے ادبی کرنے والوں کے بارے میں واضح کیا کہ :’’ان میں سے اکثر بے عقل ہیں‘‘۔(الحجرات: 4)آج بھی رب کی طرف سے آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ:’’(اے نبیؐ) نہ آپ کے رب نے آپ کو (بے یار ومددگار) چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ ناراض ہوا ہے‘‘۔ (سورۃ الضحی: 3)
جس نبی کی یہ شان ہو ،اللہ تو ضرور بالضرور اس ذات گرامی کی جناب میں گستاخیاں کرنے والوں سے انتقام لے گا، ایسے گستاخوں کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے جو اپنے عبرتناک انجام کو پہنچ گئے، یقینا اللہ ایسے لوگوں سے نمٹ لے گا۔ لیکن یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت ومدد کا وقت ہے ، یہ امتحان اور جانچ کی گھڑی ہے، اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھنے کا وقت ہے، اللہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اس کی اور اس کے رسول کی مدد کرتا ہے۔’’یہ اس لئے کیا گیا تاکہ اللہ کو معلوم ہوجائے کہ کون اس کو دیکھے بغیر اْس کی اور اْس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے‘‘۔ (الحدید: 25)
فرمان رسولؐہے: ’’جس نے اپنے بھائی کی اس کی عدم موجودگی میں مدد کی اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی مدد کرے گا‘‘۔(سنن بیہقی)
یہ وعدہ عام مسلمانوں کے بارے میں ہے،ذرا تصور کریں کہ آنحضورؐکی نصرت ومدد کے بارے میں کیا کیا وعدے ہوں گے ؟! توکیا ہم آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے؟! کیا یہی ایمان واسلام اور محبتِ رسول کا تقاضا ہے؟!
ہمارے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، اے سراپا رشد وہدایت ، اے خیر البشر ، ہماری جانیں آپؐ پر نچھاور! آپ ہمارے محسن ہیں، ہمیں آپ کی ضرورت ہے، ہم آپ کے لائے ہوئے دین متین کے محتاج ہیں،آپ نے شہادتِ حق اورتبلیغِ دین کا فریضہ ادا کر دیا ہے، آپ نے ہمارے لئے دْکھ سہے، اذیتیں برداشت کیں، طعنے سنے، گالیاں سنیں،خویش واقارب کی دشمنی مول لی، اپنا گھر بار چھوڑا، پتھر کھائے، زخم سہے، مقاطعہ اور نظر بندی کی صعوبتیں برداشت کیں، ہر لالچ کو ٹھکرایا، اہلِ باطل نے آپ کو خریدنا چاہا مگر ان کی سب کوششیں رائیگاں گئیں،ان کے گمان غلط ٹھہرے، آپ نے ان کو تھکا دیا، وہ بے بس ہوگئے، آپ کی پوری زندگی جہدِ مسلسل اور عملِ پیہم سے عبارت رہی یہاں تک کہ حق غالب ہوگیا اور باطل پرست ناکام ونامراد ہوگئے۔آج پھر سے وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے، وہی مناظر سامنے آرہے ہیں، ان شاء اللہ حق پھر سے غالب ہوکر رہے گا اور اہلِ حق سربلند وسرفراز ہوکر رہیں گے لیکن ہم نادم وشرمسار اور معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہم آپ کی ذات کا دفاع نہیں کر پا رہے ہیں! البتہ ہمیں یقین کامل ہے کہ خاکے بنانے والے خاک میں مل جائیں گے۔
رابطہ۔اسسٹنٹ پروفیسر، گورنمنٹ ڈگری کالج ڈوڈہ