رسالت ِ محمدیؐ اور شانِ ختمِ نبوتؐ فکرو فہم

مولانا عبدالرحمان 
عقیدۂ ختم نبوت درحقیقت اسلام کے بنیادی عقائد میں وہ عقیدہ ہے، جس پر ایمان کے بغیر دین و اسلام کا تصور بھی محال ہے۔ یہ دین کا بنیادی اور لازمی عقیدہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’محمدؐ! تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں، بلکہ اللہ کے پیغمبر اور انبیاء (کی نبوت) کی مہر (یعنی اسے ختم کر دینے والے ہیں) اور اللہ ہر شے سے (خوب) واقف ہے۔‘‘ (سورۃ الاحزاب) یہ وہ عقیدہ ہے، جس کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ امت مسلمہ کے کسی بھی مکتبہ فکر نے تمام تر اختلافات کے باوجود کبھی اس پرسمجھوتہ نہیں کیا، کیوںکہ عقیدۂ ختم نبوت اہلِ اسلام کی شہ رگِ حیات ہے۔ یہ وہ آفاقی نظریہ ہے، جو قرآن مجید و احادیث نبویؐ سے قطعی ثابت ہے۔
پوری امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے۔ اوپر درج شدہ سورۂ احزاب کی آیت کریمہ، دلالت کرتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے والد نہیں،یعنی آپؐ کے بعد کوئی کھڑا ہو کر یہ دعویٰ نہ کر سکے کہ چوںکہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ و السلام کا بیٹا یا پوتا ہوں، لہٰذا میں بھی نبوت میں کسی طرح شریک ہوں یا مجھے بھی نبوت میں شراکت کا کوئی حق حاصل ہے۔ اسی طرح خوب وضاحت سے بیان کردیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے پیغمبر اور تمام انبیاء کی نبوت پر مہر ہیں، یعنی اب آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں آنے والا۔ امام الانبیاء، سید المرسلین، ختمی مرتبت، محمد رسول اللہؐ پر بہ حیثیت آخری پیغمبر عقیدہ و ایمان ہر مسلمان کا طرۂ امتیاز ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قیامت تک اب کوئی دوسرا نبی نہیں آئے گا، ظلی، نہ بروزی اور نہ ہی کسی دوسرے معانی و مفہوم میں کہ جس پر نبی کا اطلاق ہوتا ہو۔ دورِ رسالت و صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک امت مسلمہ جہاں رب تعالیٰ کے واحد و یکتا ہونے پر ایمان کامل رکھتی ہے، بعینہ شافعِ محشر،ساقی کوثر محمدؐ کے خاتم النبیین ہونے پر بھی غیرمتزلزل ایقان رکھتی ہے۔آپؐ کے بعد کسی بھی معنیٰ میں دعویٰ نبوت کرنے والا کذاب ہے، اس کا یہ عمل محبوب رب العالمینؐ کی نبوت و رسالت کی چادرِ عصمت پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔
مسیلمہ کذاب نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تمام تر مشکل حالات کے باوجود سب سے پہلے اس بے ایمان کی سرکوبی کے لیے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سربراہی میں دستہ روانہ فرمایا اور اسے کیفر کردار تک پہنچایا۔ اسی طرح دیگر جھوٹے نبوت کے دعوے داروں کا انجام موت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ ’’ابی بن کعبؓ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری مثال دیگر انبیاء میں ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک اچھا کامل گھر بنایا، لیکن ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی تو لوگوں نے اس عمارت کو پسند کرلیا، لیکن خالی جگہ پر تعجب کیا، پس وہ خالی جگہ میں نے آکر پُر کر دی۔ میرے آنے کے بعد نبوت کا محل مکمل ہو گیا۔‘‘ معلوم ہوا کہ نبوت کی عمارت اب قیامت تک کے لیے کامل ہو چکی اور اس میں کسی قسم کی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے۔
برصغیر میں انگریز کی آمد نے جہاں مسلمانوں کے لیے سیاسی و اقتصادی تباہی و بربادی کا سامان کیا، وہیں اسلام کے پاکیزہ چہرے کو داغ دار کرنے کے لیے (معاذاللہ) کئی سازشیں تیار کی گئیںتاکہ ایک جانب وحدت امت پارہ پارہ ہو تو دوسری جانب اہلِ اسلام ان کے پیدا کردہ فتنوں کی سرکوبی میں مصروف ہو کر انگریز کے خلاف جدوجہد آزادی سے صرفِ نگاہ پر مجبور ہو جائیں۔
اندرونی خلفشار اہلِ اسلام کو اپنے مسائل میں اُلجھائے رکھے اور سامراج ہندوستان کی دولت سمیٹ کر اپنے ملک میں جمع کرتا رہے۔اس کے لئے انگریز سامراج نے جہاں دیگر ہتھکنڈے اختیار کیے،وہیں مرزا غلام احمد قادیانی کی صورت میں یہ فتنہ کھڑا کیا تاکہ اس کے وجود سے وحدت امت پارہ پارہ ہو جائے۔ انگریزی سامراج کے زیرِ سایہ یہ فتنہ پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی، تاہم علمائے اسلام نے اس کی عقدہ کشائی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ نے مرزا قادیانی سے دو سو سے زائد مناظرے کئےاور بحمداللہ تعالیٰ ہر معرکے میں کام یاب و کامران رہے، یہاں تک کہ خود مرزا نے زچ ہوکر مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کو مباہلے کا چیلنج دے ڈالا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ جھوٹے کو سچے کی زندگی میں موت دے، تاکہ حق ظاہر و غالب ہو اور باطل رسوا ہوجائے۔ چناںچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی آبرو کی لاج رکھی۔ مناظر اسلام مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کے بعدکئی برس زندہ رہے، یہاں تک کہ قیام پاکستان کے بعد مولانا پاکستان ہجرت کر کے سرگودھا تشریف لے آئے اور 1949ء میں ان کا انتقال ہوا۔