رات کا فسانہ

وہ ایک لمبے عرصہ سے اپنے اپنے غاروں میںسوئے پڑے تھے۔رات سیاہیوں میں لپٹی خاموش تھی۔نہ معلوم کونسا پہر تھاکہ اچانک دور کہیں سے نقاروں کی آوازآئی۔پھر نقارچیوں کی آوازگونجی۔۔۔
اے لوگو ۔۔اٹھوبیدار ہو جاو۔سحرکا استقبال کرو۔۔۔صبح قریب ہے۔
غاروں اور گپھاوُں میںخفتہ پڑے لوگوں نے جو یہ نقارے اور نقارچیوں کی آوازیں سنیں تو انہیںاپنے کانوںپر یقین نہیں آیا۔پہلے سوچا ۔۔۔یہ ایک خواب ہے انکے تھکے ماندے ذہنوں کا کوئی فریب ہے۔لیکن آوازیں جوں جوں قریب آگئیں۔۔۔انہیں یقین کرنا پڑا کہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔
وہ جلدی سے اپنی اپنی گپھائیںاور غار چھوڑکر باہر نکل آئے۔دوسرے اطراف سے بھی کافی لوگ نکل آئے تھے۔وہ سب بڑے جوش وخروش سے ایک میدان میں جمع ہونے لگے۔یہاں پر انہیں دور کچھ ہیولے اچھلتے کودتے نظر آئے جو یقینا نقارچی ہی تھے۔
آسمان تاریکیوں میں ڈوباہوا تھا۔کہ چاندنی گہرے بادلوں کی آغوش میں کہیں چھپی بیٹھی تھی۔  کچھ تارے دور بہت دورپلکیں جھپکارہے تھے۔۔پھر اچانک ہی ابرکی کالی دبیز چادر توڑکے چمکتی ہوئی چاندنی باہر نکل آئی ۔رات روشن ہوگئی۔دور دور تک کرنوں کا اُجالا پھیل گیا ۔چہرے منور ہوگئے اور نقارے ونقارچی صاف نظر  آنے لگے۔
لوگوں کے چہرے اچانک خوشی و مسرت سے دھمک اُٹھے۔بڑے والہانہ انداز میں نقارچیوں کی طرف دوڑے۔ایک دیوانہ جھوم جھوم کر ناچنے لگا۔۔۔۔۔یہ سب ممکن ہے خواب میرا سچ ہے جوگنیا۔۔۔ایک آزاد کرن میری تقدیر ہے صبح میری جان ہے ۔میری بنیاد میں چھپے شدید درد کا درمان ہے ۔وہ لہک لہک کر گانے لگا ۔۔۔
ہے آس میری۔۔۔اک دید تیری
اے خواب سحر۔۔۔اے جان سحر
اب درشن دے۔۔۔درشن دے۔۔۔اب درشن دے۔ بہت سی عورتیں بچے جوان بوڑھے ہنستے مسکراتے ہوئے اُسکے قریب آگئے ۔کچھ بچیوں نے ناچنا شروع کیا اور کچھ جوانوں نے اسکے ُسر میں سُر ملایا ۔۔۔۔۔درشن دے۔۔۔اب درشن دے۔
ٹھیک اسی پل تاریکی کے دیو نے چاندنی کو نگل لیا ۔رات پھر تاریک  اور بدصورت ہوگئی۔ایک سراسیمگی سی پھیل گئی ۔ دیوانہ چپکے سے کسی طرف چل پڑا اور لوگ بھی ادھر اُدھر منتشر ہو گئے۔پھرایک شور سا اٹھا ۔لوگ ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے نظر آگئے۔اندرونی جنگل کے مکین اونچے پہاڑوں کی جانب نکل پڑے اور پہاڑوں کے لوگ جوق در جوق میدانوں اور بستیوں میں اُتر آئے۔بیچ بیچ میں کچھ عجیب وحشت ناک آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔۔۔۔۔۔آدمیوں کے ساتھ ساتھ کچھ دوسرے جانور بھی بستیوں میں اتر آئے تھے۔
چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بٹے لوگ آپس میں باتیں کرتے ہوئے بار بارمشرق کی جانب سر اٹھا کے دیکھتے۔۔۔آمد صبح کے لئے سبھی بے قرارنظر آرہے تھے۔اتنے میں اچانک ہی ایک عورت کی دلدوزچیخ سنائی دی۔
اے لوگو۔۔۔بچاو  میرے بچے کو  بچاو ۔۔۔ـ
:نزدیک آئے لوگوں نے عورت کوسینہ کوبی کرتے ہوئے دیکھا ۔پوچھا
کیا ہوا تمہارے بچے کو۔۔۔کہاں ہے تمہارا بچہ۔۔۔۔؟
عورت دہاڑیں مارکر بولی
میرا بچہ ابھی یہاں تھا میرے پاس تھا ۔بھیڑیا اچانک نمودار ہوا اور میرے  بیٹے کو اٹھاکر دیوار پھلانگ کر چلا گیا ۔
حیران وپریشان سے لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔سوچ میں پڑگئے کہ بھیڑیا یہاں کیسے آگیا ۔بستی میں تو پہلے کسی نے بھیڑئے کو دیکھا نہ تھا ۔
 عورت اپنے بال نوچنے لگی۔قریب کھڑے لوگوں پر ایک خشم آلودنظر ڈال کر بولی ۔
دیکھتے کیا ہو ۔۔۔جلدی کرو۔۔۔۔میرے بچے کو ڈھونڈو۔۔۔خدارا ۔۔۔۔
چہروں پر خوف وتشویش کے بادل لئے لوگ ادھر اُدھر پھیل گئے اوربھیڑئے کو تلاش کرنے لگے۔اندھیرا گھنا اور گہرا تھا۔انہیں کچھ بھی نظر نہ آیا۔ بھیڑیا گھور اندھیرے کا فائدہ اٹھاکرکہیں دور چلا گیا تھا یا پھر نزدیک ہی کہیںکسی ٹیلے کے سائے میں چھپ کے بیٹھا تھا۔
رات ہانپتی کاپتی ہوئی گزر رہی تھی۔نقارے دور ونزدیک بج رہے تھے۔ادھر کچھ  ڈھول بھی اب بجنے لگے تھے ۔بیچ بیچ میں کسی کے غرّانے کی آواز بھی گونج اٹھتی۔۔۔۔۔اور بستی کے باشندوں کی ڈری سہمی چیخیں بھی رات کی تاریکی کا حصہ بنتی گئیں ۔  
ادھر ناظم اعلیٰ کے کارندے بستیوں میں گھوم گھوم کر اعلان کرتے کہ نقارچی شر پسند ہیں۔امن وامان کے دشمن ہیں ۔۔انہیں بہت جلد ڈھیر کیا جا ئے گا۔ پھراُس نے بے شمار آہن پوش بستی کے چاروں اطرف میںپھیلا دئے۔آہن پوشوں کی آنکھوں میںنفرت اور دہشت کے شعلے بھڑکے ہوئے تھے۔انہیں جس پر بھی شک گزرااُسے موت کی ابدی نیندسلادیا  ۔بہت سے نقارچیوں کوبے دردی سے ہلاک کیا ۔بے شمار جوانوں اور مردوںکونقارچیوں سے ہمدردی رکھنے کی بنا پرمختلف زندانوں میںقید کردیا ۔جہاں سے کہ پھر سینکڑوں افراد کا کوئی نشان تک نہ ملا ۔۔۔۔۔۔ہر نئے لمحے کے ساتھ نیا حادثہ ۔۔۔۔نئی کہانی رونما ہوتی۔۔۔کسی کی بیٹی غائب ہوجاتی۔تو کسی کا شوہر درخت پر لٹکادیا جاتا۔۔ ۔کسی جوان کو مار مار کر ادھ مرا کیا جاتا ۔۔۔۔۔۔  تازہ لاشیں۔۔۔۔گدھوں کی بھوک مٹانے کے لئے ویرانوں  میںچھوڑ دی جاتیں۔۔۔۔۔۔۔کھیت کھلیان نذرِ آتش کئے جاتے۔۔                                                                                 
نت نئی وارداتو ں نے بستی کے اطراف واکناف میںایک افراتفری سی مچا دی تھی ۔سارا ماحول مخدوش ہو چکا  تھا۔لوگ ایک دوسرے کی طرف سراسیمہ نظروں سے دیکھتے  ۔۔۔۔۔کچھ کہنا چاہتے تھے۔کہہ نہیںپاتے۔۔کسی گہری تشویش میں ڈوبے  رہتے ۔طویل رات کی منحوس  تاریکی سے وہ پہلے ہی پریشان و مغموم تھے۔ اب ان بلاوئں ـتازہ ہلاکتوں اور وارداتوں نے انہیں فکرو تَردُد کی اتھا ہ  تاریکیوں میں ڈبودیا تھا ۔جائے امان کہاں ہے۔۔۔نجات کی سبیل کیا ہے۔۔۔۔سمجھ نہیں پارہے تھے ۔
سوگ میں ڈوبی ہوئی رات خاموش تھی۔پتے بھی بے صدا تھے۔ہوا بھی جیسے سکتے میںآگئی تھی۔۔۔پھراچانک ایک چیخ  بلندہوئی۔۔۔بلکہ کئی چیخیں ایک ساتھ سنائی دیں۔لوگ آواز کی سمت دوڑے  ۔کچھ دور جاکر انہیں کچی سڑک کے کنارے کتوں کا ایک غول نظر آیا ،جو سامنے پڑی  لاشوں پرٹوٹ پڑا تھا۔ انہوں نے بڑی مشکل سے غراتے ہوئے کتوں کو بھگا دیا  ۔لاشیں دو تھیں ایک مرد اورایک جوان لڑکی کی ۔مرد کی لاش سر کٹی تھی اور لڑکی کے بازو غائب۔ دونوں لاشوں کو بری طرح سے بھنبوڑدیاگیا تھا  ۔مرد کی انتڑیاں مٹی کے ساتھ رَل گئی تھیں۔لڑکی کے جسم پر قلیل گوشت بچا تھا کولہوں کی ہڈیاںصاف نظر آرہی تھیں ۔
لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔اس خونی منظرنے بستی کے ایک طبقہ کو خاص طور پر ہلا کررکھ دیا۔وہ اب اپنے سائے سے بھی ڈر محسوس کرنے لگے تھے۔خوف کی کسی دیوار میںگرِگئے۔پل گزرنے کے ساتھ دیوار اونچی ہو گئی ۔وہم و وسواس کے سائے بڑھ گئے ۔پھرانہوں نے آپس میں صلح مشورے کئے۔۔۔آخرکار یہ بستی چھوڑدینے کا فیصلہ کرکے رختِ سفر باندھنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔کچھ ہمسایوں ہمدرد دوستوںنے انہیں روکنے کی بہت کوشِش کی۔۔۔سمجھایا کہ دیکھو۔رات کا عالم ہے جو ہوگا ۔۔۔ایک ساتھ ہوگا۔۔مل کے ہوگا ۔۔اپنا گھر اپنی بستی چھوڑکے نہ جاو۔۔۔۔بعد میں پچھتاوُوگے ۔۔۔۔۔۔جواب میں انہوں نے اپنی کہی۔اپنے حادثات وخدشات بیان کئے ۔
بہر حال کون کس کو روک لیتا۔۔۔۔
اورکیا رک جاتا۔۔۔۔جانے والا۔۔۔۔زخم زخم بستی کواپنے پیچھے چھوڑکے وہ اداس اداس نکل گئے ۔۔۔۔۔رات مزید گہری  ہو گئی ۔
اوراس کی وحشت اور دہشت ناکی ہر نئے لمحے کے ساتھ بڑھتی ہی جارہی تھی۔ساری بستی ایک بڑے ماتم خانہ میں تبدیل ہو چکی تھی۔۔۔۔اور رات تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ۔
اپنے کسی عزیڑ کو َمنوںمٹی کے نیچے سلاکر جب وہ سستاتے۔۔۔تو ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میںسوال کرتے۔۔۔
یہ طویل اور منحوس رات ۔۔۔آخر کب ختم ہوگی یہ رات ؟
جواب کسی کے پاس نہ تھا۔۔۔
سوالی سب تھے۔اپنی اپنی سوچوں میں ڈوبے سہمے ہوئے۔۔۔
یکبارگی وہ سب چونک پڑے۔ فضا میں نقاروں کی آواز گونجی۔پھر تھوڑی دیر بعد نقارچیوں کی آواز سُنائی دی۔۔۔۔۔لوگو ۔پست ہمت نہ ہونا۔۔۔یہ گھڑی امتحان کی ہے یقین محکم رکھنا۔۔۔فتح ہماری ہے ۔
بجھے چہروں پر ایک رنگ سا آگیا۔
دوسری طرف سے بھی نقارچی آگئے۔زور زور سے نقارے وڈھول بجا کر بولے۔۔۔۔بستی والو۔۔
یہ وقت بیداری کاہے ۔ ۔۔سونا نہیں۔۔۔۔چلو ہمارے ساتھ صبح کا استقبال کرنے۔۔۔سحر قریب ہے۔۔
شمال کی طرف سے ایک اور جماعت نقارچیوں کی آگئی۔اُنکے سروں پربڑی بڑی پگڑیاں تھیں۔۔۔
اونچے قد کے تھے۔بلندآواز میںبولے۔۔۔بزرگو اور جوانو۔۔یہ اہم اعلان سنو۔۔۔
تاریک رات کی طوالت نے لوگوں کے ذہن ماوُف سے کردئے تھے۔انکی سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ وہ کیا کریں۔کبھی نقارچیوں کی ایک جماعت کی طرف دوڑتے ۔۔۔کبھی دوسری جماعت کے ہم راہ ہولیتے۔۔۔اور کبھی۔تیسری جماعت کا ساتھ دیتے۔۔۔ایک عجیب قسم کی بے یقینی اور بے کلی  اُنکے چہروں پر صاف جھلک رہی تھی ۔
اِسی عالمِ ہاو ہو میں ایک اور مسئلہ کھڑا  ہوا۔نقارچیوں کی ایک  ٹولی کو دوسرے کا نقارہ  بجانا پسند نہ آیااور دوسرے نقارچیوں کو تیسرے کا نقارہ  و  ڈھول اچھا نہ لگا۔انہوں نے ایک دوسرے کے نقارے و ڈھول چھین لئے۔ گردنیں پکڑیں۔۔۔۔ایک دوسرے کو مارا پیٹا۔۔۔۔لہو لہان کردیا۔۔۔۔پھر ہو گئی شروع دوسری قسم کی خونریزیاں ۔۔۔یہ  لڑائی مختلف بستیوںمیں  دور دور تک پھیل گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار انسانی جانیں لقمۂ اجل ہوگئیں ۔سج گئے پھر نئے نئے مزار ۔۔۔۔۔مائیں سوگ میں ڈوب گئیں۔دلہنیں اُجڑ گئیں۔۔۔بہنیں مہندی کی پوٹ ہاتھ میں لئے انتظار کرتے تھک گئیں ۔ باپ  وقت سے پہلے ہی خمیدہ کمر ہوگئے اور بچے سوکھ کر کانٹا ۔۔ دل، جو سحر کی امید میں دھڑکتے تھے اور روشن تھے، اچانک بجھ سے گئے ۔ذہن اتھاہ تاریکیوں اور مایوسیوںمیں ڈوب گئے۔اب انہیں دور دور تک سوائے موت اور بد نصیبی کے کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا ۔           
انہوں نے کچھ دیر سوچا۔آہستہ سے قدم اٹھائے پھر واپس اپنے غاروں اور گپھاوئں کی طرف چلنا شروع کیا۔ ۔۔ ۔کچھ آنکھیں  امید و یقین کے ساتھ بار  بار آسمان کی طرف اٹھتی جا رہی تھیں۔لیکن آسمان پہلے سے زیادہ سیاہ اور مہیب تھا ۔رات کسی کالی ناگن کی طرح کنڈلی مارے خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔!  
 
���
مدینہ کالونی۔مَلہ باغ سرینگر،کشمیر