! رابطہ سڑکوں کی خستہ حالی،ترقی کی راہ میں رکاوٹ دور درازدیہی علاقوں میں لوگوں کی پسماندگی کیسے دور ہوگی؟

سید زاہد۔بدھل،راجوری

کسی بھی علاقے کی ترقی کے لیے رابطہ سڑکوں کا ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ سڑک ہی وہ اہم ذریعہ ہے جس سے انسان اپنا طویل سفر مختصر کر سکتا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جمو ںو کشمیر میں سڑکوں جیسی بہتر سہولیات دستیاب کروانے کے لیے سڑکوں کے تعمیری کاموں کا سلسلہ متواتر جاری ہے۔جہاں شہر آباد ہیں ،وہاں سڑکیں بھی بہتر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جموں وکشمیر کے مختلف اضلاع کے دوردراز اور دیہی علاقوں میں یا تو سڑکیں ہیں ہی نہیں اور جہاںسڑکیں تعمیر کی گئی ہیں،اُن میں سے زیادہ تر سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہوکر ناقابل ِ آمدورفت ہوکر رہ گئیں ہیں،جس کے نتیجے میںدوردراز علاقوں میں آباد لوگوں کی ایک خاصی تعداد درماندہ ہوکر پسماندگی کا شکار ہوچکی ہیں۔بعض علاقوں کی رابطہ سڑکیں ناکارہ بن جانے کے باعث لوگوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے دوگنا اور تِگنا سفر طے کرنا پڑتا ہے،جس سے نہ صرف مسافروں کےلئے مالی بوجھ بڑھ رہا ہے بلکہ کافی وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ راجوری ضلع کے دیہی علاقوں میں جہاں سڑکوں کی عدم دستیابی ہے ،وہیں رابطہ سڑکوں کی خستہ حالی کی وجہ سے بھی لوگ بھی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ جن میں سے ایک سڑک بدھل سے گھبر بتھان آٹھ کلومیٹر رابطہ سڑک بھی ہے۔جسے محکمہ پی ایم جی ایس وائی کے تحت تعمیر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ اس سڑک کا ابتدائی کام سال 2008 میں عمل میں لایا گیا تھا۔لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے محکمہ پی ایم جی ایس وائی کی جانب سے اس کے تعمیر کا کام سال 2018 میں بھی مکمل نہیں ہوا اور صرف تارکول بچھائی گئی۔حالانکہ کچھ ہی مہینوں میں سڑک سے تارکول بھی اکھڑنا شروع ہو گئی۔ تاہم آج تک محکمہ کی جانب سے اس سڑک کی دوبارہ مرمت نہ کی گئی۔اس تعلق سے گاؤں گھبر کے میں مقامی نوجوان محمد طفیل، جن کی عمر 24 سال ہے،کہتے ہیں کہ ’’ہمارے گاوں گھبر بتھان کی سڑک خستہ حالی کا شکار ہے۔ جو سڑک بدھل سے گھبر بتھان تک جاتی ہے لگ بھگ آٹھ کلو میٹر لمبی ہے۔ اس سڑک کو تعمیر کئے ہوے دس سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے۔لیکن جب سے یہ سڑک تعمیر کی گئی ہے تب سے لیکر آج تک اس پر مرمت کا کام نہیں کیا گیا ہے۔ نکاس ِ آب نہ ہونے کی وجہ سے بارش شروع ہوتے ہی یہ سڑک تالاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔سڑک پر جگہ جگہ بڑے بڑے گڈھوںمیں پانی جمع ہو جاتا ہے جو کہ ایک بڑی مصیبت کا سبب بنا ہوئے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں سابق نائب سرپنچ ارشد حسین میر کہتے ہیں کہ’’ہمارے گاؤں میں سڑک کی خستہ حالت کے باعث لگ بھگ چار گاؤں کی عامتہ الناس کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس کی غیر معیاری صورتحال کی وجہ سے بزرگ، طلباء اور مریض پریشان ہیں جبکہ حاملہ خواتین کو بھی ہسپتال پہونچانے میںزبردست پریشانیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ بدھل سے گھبر بتھان آٹھ کلو میٹر سڑک کی خستہ حالی کے باعث مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا ہے۔لیکن محکمہ اس کی مرمت کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہا ہے۔‘‘ اسی گاوں کے نوجوان محمد افطار کملاک کہتے ہیں کہ’’بارش کا پانی پہلے تقسیم ہوکر نالیوں کی طرف جاتا تھا لیکن جب سڑک نکالی گئی تو پیچھے نالی نہ ہونے کی وجہ سے سڑک نے نالی کی شکل اختیار کرلی۔جس کی وجہ سے بارش کا پورا پانی جمع ہوکر ہماری فصل میں داخل ہوجاتا ہے۔جس سے ہماری فصلیں پوری طرح سے تباہ و برباد ہو جاتی ہیں۔اس سڑک کی حالت کو دیکھتے ہوئے محمد ریاض لون نے کہاکہ ’’جب مزکورہ علاقہ میں سڑک کا کام شروع ہوا تھا تو ہم نے ایک امید باندھی تھی کہ اب ہمارے علاقہ کو پسماندگی سے نجات ملے گی۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوا بلکہ اب ہمیں پہلے سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سڑک کی خرابی کی وجہ سے ہمیں بہت پریشانی کا سامنہ کر نا پڑتاہے۔تھوڑی سی بارش میں ہی سڑک ناقابل آمدرفت بن جاتی ہے اوراس دوران گاڑی کا چلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ سڑک کی حالت انتہائی خستہ ہوچکی ہے۔ جس کی وجہ سے بارش کے دوران گاڑیوں کا چلنا دور کی بات ہے لیکن عوام الناس کے لئے پیدل چلنا بھی محال ہوجاتا ہے۔ معمولی بارش ہونے پر سڑک تالاب کی جیسی شکل اختیار کر لیتی ہے جبکہ پی ایم جی ایس وائی محکمہ سے سڑک کی خستہ حالی کے بارے میں متعدد بار رابطہ کیا گیا۔لیکن محکمہ کی جانب سے کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا ہے۔
اسی گاؤں کے ایک اور مقامی نوجوان محمد طاہر کہتے ہیں کہ اس سڑک کے کام کے لئے ٹھیکیدار بہتر میٹیریل کا استعمال نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے چند ایام گزرنے کے بعد ہی سڑکیں خستہ حالی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اس کی وجہ سے زمینی سطح پر عوام کو اس تعلق سے کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آئے روز سڑکوں کے ناقص نظام کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں اورعوام کی قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ انہوں نے انتظامہ اور محکمہ سے اپیل کی کہ اگرچہ سڑکیں بہت تیزی سے تعمیر کی جا رہی ہیں لیکن ان کی حالت کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ جس مقصد کے لئے دیہی علاقاجات میں سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں ۔اس سے ان علاقاجات کی عوام کو سہولیات میسر ہوسکے اور دیہی علاقاجات کی عوام کی مشکلات کا بھی ازالہ ہوسکے۔مقامی صارفین بتاتے ہیں کہ بدھل سے گھبر بتھان گاؤں تک سڑک تقریبا 8 کلومیٹر لمبی ہے۔ سڑک کو بنے دس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ لیکن جب سے یہ سڑک بنی ہے اس کے بعد سے کوئی مرمت نہیں کی گئی۔ نکاسی آب کا نظام بھی متاثر ہوا ہے جس کی وجہ سے بارش شروع ہوتے ہی سڑک تالاب میں تبدیل ہو جاتی ہے۔اس سلسلے میں گھبر پتھان کے مقامی لوگوں نے ضلع ترقیاتی کمشنر راجوری سے اپیل کی ہے کہ محکمہ پی ایم جی ایس وائی کو جلد از جلد سڑک کی مرمت کا کام شروع کرنے کی ہدایات جاری کریں تاکہ سڑک کی سہولیات بہتر طور پر دستیاب ہوسکیں۔
اس ضمن میں محکمہ پی ایم جی ایس وائی کے اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئرمحمدالطاف محکمہ کی جانب سے اپنا موقف رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اسی ہفتہ مزکورہ رابطہ سڑک کی مرمت کا کام عمل میں لایاجائے گا۔امید کی جانی چاہئے کہ محکمہ جلد ہی اس جانب توجہ دیگا تاکہ مقامی عوام کو اس کا فائدہ مل سکے۔بہرحال، ہمارے ملک میں سڑکیں سب سے اہم انفراسٹرکچر رہا ہے جس پر پچھلی چند دہائیوں میں سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ سال 2000 میں پردھان منتری گرام سڑک یوجنا (پی ایم جی ایس وائی) کے آغاز کے بعد سے ملک کے دیہی علاقوں کی سڑکوں کی حالت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ اس کا براہ راست اثر دیہی زندگی اور معیشت پر نظر آیا ہے۔ایسے میں بدھل سے گھبر بتھان تک کی خستہ حال سڑک صرف عوام کے لئے ہی پریشانی کا سبب نہیں ہے بلکہ اس سے معیشت کو بھی کسی نہ کسی صورت میں نقصان پہنچتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)