سید مصطفی احمد
اس مضمون کو قلمبند کرنے کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے مگر جو وجہ اس مضمون میں بنیادی محرک بنی وہ ایک اداریہ ہے جو کچھ روزقبل اسی اخبار کی زینت بنا تھا۔ اس میں ایڈیٹر نے بڑے خوبصورت انداز میں ذہنی امراض کے بارے میں وضاحت کی تھی۔ بیماریاں دو طرح کی ہیں۔ ایک عیاں مگر دوسری جو آنکھوں سے اوجھل ہے۔ زکام، بخار، نزلہ، کھانسی وغیرہ ایسے امراض ہیں جن کی شناخت اور علاج کرنا سہل ہے۔ ان بیماریوں میں تھوڑا سا احتیاط بھی کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ اس کے برعکس کچھ بیماریاں ایسی ہیں جو نظروں سے اوجھل مگر تباہ کن ہیں۔ یہ بیماریاں ذہنی امراض کے زمرے میں آتی ہیں۔ پہلے زمرے میں آنے والی بیماریاں کو یہاں عام سی چیزوں کی طرح لیا جاتا ہیں۔ کوئی خاص قسم کا ردعمل دیکھا نہیں جاتا ہے۔
اس کے برعکس بعدالذکر امراض کے بارے میں بات بھی کرنا، اللہ معاف کرے گناہ اور حقارت سمجھاجاتا ہے۔اگر کوئی اس مرض میں مبتلا ہے، اس کو ایک الگ ہی زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ کبھی حالات یہاں تک پہنچتے ہیں کہ اس کو ایک انسان بھی نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جتنا دور رہا جائے اتنا ہی ٹھیک سمجھاجاتا ہے۔ مگر یہ چھوٹی قسم کی سوچ ہے۔ مرض، مرض ہے۔ ان میں بھید بھاؤ کرنا انسانیت کے منافی ہے۔ ہاں، یہ صحیح ہے کہ کچھ بیماریاں الگ اقسام کے رویے اور علاج چاہتی ہیں۔ ان کو عام امراض کی طرح دیکھنا مریض کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کچھ برسوںسے دنیا میں ذہنی امراض کی لہروں نے زور سے اٹھنا شروع کیا ہے۔ آج سے کچھ دہائیاں پہلے ان بیماریوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ مگر دنیا اور مقامی سطح پر آنے والے مختلف طوفانوں نے لوگوں کی باہری دنیا کے علاوہ اندرونی معاملات کو بھی تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ اس سیلاب کی زد میں ہر کوئی آیا ہے۔ بچوں سے لیکر لڑ کے اورجوان سے لیکر بوڑھے بھی اس کا شکار ہوئے ہیں۔جوانوں پر اس کا سب سے زیادہ اثر ہوا ہے۔ وہ زندگی کے جس دور سے گزر رہے ہیں، وہاں پر چیزوں کا زیادہ اتار چڑھاؤ تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ یہی صورتحال آج کے جوانوں کی ہے۔ اس کے پیچھے بہت سارے وجوہات کا عمل دخل ہے۔ کچھ کا ذکر آنے والی سطور میں کیا جارہا ہے۔
پہلا ہے بے روزگاری۔ جو جوان کمانے سے قاصر ہیں، وہ سیدھے ذہنی امراض کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ آج کی اس مہنگی دنیا میں جینا مشکل ہوگیا ہے۔ جن کی آمدنی لاکھوں میں ہے، وہ بھی دُکھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے برعکس جو نوجوان گھر میں بے کار بیٹھے ہیں، ان کی زندگیوں میں کیسے کیسے طوفان اٹھ رہے ہونگے، ان کے بارے میں سوچنا ہی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایک تو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا اور دوسری طرف اپنی فیملی کی ذمہ داریاں ایک نوجوان کو دبادیتی ہیں۔ سماج کی امیدوں پر کھرا اترنا بھی جوانوں کو اندر سے ہی دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پڑھائی پر صرف کیا ہوا پیسہ اور وقت بھی ایک دیوہیکل جن کی طرح آنکھوں سے دور ہونے کا نام نہیں لیتا ہے۔ بے روزگاری کے طعنے بھی اندر کی دنیا میں سیلاب لاتے ہیں اور بچا ہوا کوئی سامان بھی تباہی کا منظر پیش کرتا ہے۔
دوسرا ہے عالمی صورتحال۔ اس وقت پوری دنیا مختلف جنگوں کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ سیاسی جنگیں ہو ںیا پھر اقتصادی، مذہبی اختلافات نے بھی لوگوں، خاص کرنوجوانوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ تباہی سیاسی اور اقتصادی رسہ کشیوں نے کی ہے۔ اپنی کرسی بچانے کی خاطر لوگوں کو موت کی نیند سلانا اور آپس میں لڑانا حکمرانوں کو خوب آتا ہے۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے نوجوان ہی میدان میں کودتے ہیں اور مختلف دشواریوں کا سامنا کرتے ہیں۔ بیشتر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور باقی زخمی یا تو پھر سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دئے جاتے ہیں۔ اس سے جوانوں کی زندگیوں میں نہ تھمنے والی مصیبتوں کا دور شروع ہوجاتاہے۔
اقتصادی بحران کا بھی زیادہ شکارنو جوان ہی ہوتے ہیں۔ طاقت سے لبریز یہ نوجوان جب اپنی آنکھوں کے سامنے غرباء کو غریب سے غریب تر مگر امیروں کو امیر سے امیر تر دیکھتے ہیں، تو غصے اور پریشانی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہی صورتحال ان کو آگے پھر ذہنی امراض کی دنیا میں دھکیل دیتی ہے۔ کچھ مخصوص ہاتھوں میں دولت کا جمع ہونا ، ان کو بے قرار اور ذہنی عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اقتصادی جنگیں جو کچھ ممالک کا شیوہ بن گئی ہیں، نوجوانوں کو ہی زیادہ تنگ کرتی ہیں۔ چیزوں کی قیمت کا آسمان چھونا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ روزگاروں کا خاتمہ ہونانو جوانوں کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔
تیسرا ہے کرپشن۔ اس نے ہمارے سماج کو ہی کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے کام تک یہاں لگ بھگ ہر کوئی اس گندگی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان پڑھ نوکریاں کررہے ہیں مگر پڑھے لکھے جوان گھر میں پڑے ہوئے ہیں۔ ایک شخص جو خط پڑھنے اور لکھنے سے معذور ہو،وہ کیسے تیس سے چالیس ہزار کی تنخواہ لیتا ہے۔ وہ اپنی آرام دہ زندگی بسر کر رہا ہے۔ اس کے برعکس ایک دانشورنو جوان خود کو بھی پالنے سے قاصر ہے۔ اس صورتحال میں مغموم ہونا فطری بات ہے اور یہی آگے چل کر ذہنی امراض کے دروازوں کو کھولنے میں نمایاں رول ادا کرتا ہے۔
چوتھا ہے فرسودہ رسمیں۔ یہاں فرسودہ رسموں کو گلے سے لگایا جاتا ہے مگر دانائی کی باتوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا جاتا ہے۔ فضول اور بیجا رسموں پر یہاں اتنے وسائل ضائع ہوتے ہیں کہ شمار کرنا بھی ناممکن ہے۔ نوجوان اعلیٰ خیالات کے مالک ہوتے ہیں مگر جب ان کاکوئی خریدار نہیں ملتا ہے تو وہ اس سماج سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ کبھی کبھار اس سماج سے دور بھاگنا چاہتے ہیں مگر کچھ زنجیروں سے بندھے ہوئے ان کے پیر اگلا قدم اٹھانے سے قاصر ہوتے ہیں۔
پانچواں ہے گھریلو جھگڑے۔ اگر گھر کے افراد آج کے نوجوانوں کو سمجھتے تو ممکن تھا کہ حالات یہاں تک نہیں پہنچے ہوتے مگرگھر کے افراد ہی ایک جوان کو بے روزگاری کا طعنہ دیتے ہیں اور اس کا موازنہ کسی اور جوان کے ساتھ کرتے ہیں جو روزگار کمانے کی پوزیشن میں ہے۔ اس طرح یہ نوجوان سب کچھ کرنے کے باوجود کچھ بھی نہیں کرپاتا ہے اور دھیرے دھیرے راتوں کی نیند اور دن کے سکون سے محروم ہونے کے بعد ذہنی امراض کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا چلاجاتاہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔
یہ تو بات ہوئی وجوہات کی۔ اب کچھ نظر ذہنی امراض کے اثرات پر ڈالتے ہیں۔ پہلا ہے نشیلی ادویات کا استعمال۔ ڈرگس نے لگ بھگ ہر جوان کو اپنی مضبوط گرفت میں پکڑ لیا ہے۔ ہر روز ڈرگس سپلائی کرنے کے جرم میں کسی نہ کسی جوان یا نوجوان کو پکڑا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نوجوان لڑکیاں بھی اس میں ملوث پائی جاتی ہیں۔ دی انڈین ایکسپریس نے بھی اگست کے دو تین شماروں میں کشمیر میں منشیات کے بارے میں کچھ حقائق چھاپے تھے جنہیںپڑھ کر انسان لرز اٹھتا ہے۔
دوسرا ہے خودکشیاں۔ ہر روز کشمیر میں خودکشی کا واقع پیش آتا ہے۔ زیادہ تر جوان لڑکے اور لڑکیاں یہ کام انجام دیتے ہیں۔ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خوابوں کا گلا کٹتے دیکھ کر وہ بے چین ہوجاتے ہیں اور برداشت کی قوت سے اپنے آپ کو محروم سمجھ کر وہ اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ اصل میں دباؤ کی وجہ سے جوان اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیتے ہیں۔
تیسرا ہے گھریلو جھگڑے۔ آج جس گھر میں جوان بیٹا یا بیٹی بے روزگار ہے، اس گھر میں لڑائی جھگڑوں کا ہونا طے ہے۔ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ جیسے میں نے پہلے ہی عرض کیا ہے جو لڑکا یا لڑکی رشوت دے کر سرکاری ملازم بن گئے ہیں، وہ پڑھے لکھے جوانوں کے لئے سردرد ہے۔ ماں باپ ان بے روزگار جوانوں کو صبح سے لے کر شام تک طعنے دے دے کر ان کا جینا حرام کر دیتے ہیں۔ اس صورتحال میں جوان کا اونچے لہجے میں بات کرنا جھگڑوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ماں باپ کے سامنے سے اونچی آواز میں بات کرے تو بے شرم اور اگر چپ رہے تو اندر کا ضمیر مار دیتا ہے۔ اس تضاد کے بیچ ایک نو جوان ہر روز پستا ہے۔
اب اگر بچاؤ کی بات کر یں تو اس ضمن میں سب کو اپنا اپنا رول نبھانا ہوگا۔ حکومت سے لے کر مذہبی اداروں تک، ہر کسی کو ذہنی امراض میں مبتلا لوگوں کی فکر کرنا ہوگی۔ انسانیت کا اصلی لبادہ اوڑھ کر ان نفسیاتی مریضوں کے زخموں پر مرہم پٹی کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کونسلنگ اداروں کی ضرورت حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ تجربہ کار کونسلرز کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں جذباتی پختگی پر خاصی توجہ دینا سب سے اولین ہوگیا ہے۔ مزید برآں روزگار کے مواقع تلاش کرنا حکومت اور نجی اداروں کی ذمہ داری بن گئی ہے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ جوانوں کی زندگیاں ضائع نہ ہوں تو ہر کسی کو روزگار کے موقع تلاش کرنا ہونگے۔ اس کے علاوہ مذہبی رہنماؤں کو بھی حقیقی دین کی روشنی میں جوانوں کو مثبت سوچنے اور جینے کی ترغیب دینی چاہئے۔ گھریلو جھگڑوں سے کیسے نپٹا جائے، اس ضمن میں بھی صحیح جانکاری حاصل کرنا سب کے لئے ضروری ہوگیا ہے۔ اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ کرنا بھی چھوڑنا وقت کی پکار ہے۔ الغرض اس طوفان سے لڑنے کے لئے اپنے اپنے جہازوں کو مضبوط سے مضبوط تر بنانا پڑے گا۔ سمت کے علاوہ تعداد نفری بھی ضروری ہے۔ تو آیئے اس ذہنی امراض کے سیلاب کو روکنے کی بھرپور کوششیں کریں۔
پتہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، سرینگر
فون نمبر۔9103916455
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)