یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔ شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ مسٹربھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ مسٹربھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔ شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔ تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔ رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی اَن سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔ دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی، آنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ، تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ، اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔ پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا، اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے، معاملہ واقعی ’’سیریس‘‘ ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔ دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے ’’مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے‘‘ انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔ پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا …. مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔ اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا …… پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔ ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔ پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے ۔مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔ گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔ یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی …… اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر۔ (ختم شد)
ذوالفقارعلی بھٹو تختہ ٔ دار پر!
