کسی بھی معاشرے میںجس طرح بیماری پھیلنے کی جگہ گندگی ، فضائی ، آبی ، کیمیائی اور شور کی آلودگیوں کے ساتھ ساتھ ناقص اور مضر صحت غذائیں ہوتی ہیں، جو افراد اور آبادیوں کو نہ صرف بیمار کر دیتی ہیں بلکہ صحت کے ناقابل اصلاح حالات پیدا کرتے ہیں ۔ اُسی طرح جرائم انسانی معاشرے کا ایسے ناسور ہیں جو معاشرےکی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ انسان کی پرورش کے تین دائرے ہیں اور ایک انسان بچپن ، جوانی اور بوڑھاپے سے گذر کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے ۔ پہلا دائرہ ماں کی گود اور باپ و خاندان کا ہے جہاں انسان کی نشوونما ہوتی ہے، اگر یہ دائرہ دینی ، اخلاقی اور تہذیبی تربیت سے لا پرواہی برتے تو ایک بچہ بڑا ہو کر جرم کی دنیا آباد کرتا ہے ۔گویا یہ بات واضح ہےکہ اگر والدین اولاد کی پرورش میں کوتاہی کرتے ہیں تو اس کو بگڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا اور دور جدید کا یہ المیہ ہے کہ والدین اولاد کی تربیت میں غفلت کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ دوسرا دائرہ تعلیم گاہیں ہیں جہاں تعلیم کے اصل روح و معنی سے ماوریٰ تعلیم صرف اور صرف رزق کمانے کے لئے دی جاتی ہے اور وہ بھی ناقص طریقے سے ۔ تعلیم گاہوں میں امتحان لینے والے ادارے سے لے کر ممتہن تک طالب علموں کو نقل کرنے میں معاونت کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح سند حاصل کرنے والے لوگ معاشرےکے تمام اداروں میں نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بد عنوانی اور رشوت سے جرائم کو فروغ دیتے ہیں ۔تیسرا دائرہ معاشرہ ہے جو زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتا ہے ۔ جس میں عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ اورپولیس کے ساتھ ساتھ دیگر دفاعی ادارے ہیں ۔ اس کے علاوہ معاشرے کے قابل ذکر اور قابل احترام افراد ہیں جو معاشرے اور قوم کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔جن میں مذہبی و دینی پیشوا ، اساتذہ ، ڈاکٹر اور دانشور بھی شامل ہوتے ہیں۔اگر ہم ہر ایک کا بغور جائزہ لیںتو یہی دکھائی دیتا ہےکہ ہر کوئی ایمانداری سے ساتھ اپنا فریضہ انجام دینے میں ناکام رہتا ہے،یہاں تک کہ عدلیہ بھی عدل و انصاف فراہم کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ہر سطح کے جرائم کرنے والے مجرمین بے خوف جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ عدل و انصاف کی فراہمی میں بینچ اور بار کے ساتھ پولیس کا بنیادی کردار ہوتا ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک ایسا مثلث بن چکا ہے جو قانون اور انصاف کی بالادستی قائم کرنے کے بجائے مجرموں کو قانون توڑنے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہاہے۔ کیونکہ زر پرستی اور خود غرضی نے سب کو اندھا کردیا ہے ۔جس کے نتیجے میں معاشرے کےبا صلاحیت ،اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں مایوسی پھیلتی ہے اور وہ دل برداشتہ ہو کر جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی دفتر میں کوئی کام بغیر رشوت دیئے ممکن نہیں ، گویاانتظامیہ اور رشوت ہم نام بن چکے ہیں ۔ لہٰذا جائز کام سے زیادہ لوگ نا جائز کام رشوت کے ذریعے ہوتے رہتے ہیں ۔ بڑے بڑے ٹھیکے رشوت کے ذریعے حاصل کر کے غیر میعاری کام کئے جاتے ہیں ۔اگرچہ چیک اینڈ بیلنس کے ادارے قائم ہیں مگر اُن اداروں کے افسران بھی رشوت لے کر ہر غلط کام کی اجازت دے دیتے ہیں ۔ جس سے یہ بات تقویت پارہی ہےکہ جعلی دوائیں ، مضر صحت خوراک ، ناقص تعمیرات میں بھی انتظامی سر پرستی شامل ہوتی ہے۔بے شک پولیس عوام کی محافظ اور قانون کو نافذ کرنے کے لئے ہے ۔ مگر پولیس کا نام سنتے ہی ہر خاص و عام کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں ۔ اگر پولیس اپنی فرائض منصبی درست طریقے سے انجام دے تو کسی بھی جرم کا دور دور تک کوئی پتہ نہ ملتا ۔ پولیس مجرموں کو پکڑتی ہے اور مقدمات میں اس طرح کی کمزور شقیں ڈالتی ہے کہ چند دنوں کے بعد مجرم جیل سے باہر ہوتا ہے اور عدالتی کارروائی کی طوالت اور گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے مجرم آزاد ہو جاتے ہیں ۔جس سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ جیل میں مجرموں کی اصلاح ہونے کے بجائے جُرم کو پروان چڑھایا جاتا ہے ۔اب جبکہ موجودہ دور میں ہر بچے ، جوان اور بوڑھے مردو زن کے ہاتھوں میں سمارٹ فون موجود ہے تو اس آلے کے ذریعے کون ساایسا جرم نہیں جو پروان چڑھ رہا ہے ۔ مالیاتی غبن ہو یا آن لائن کاروبار کا گھپلا ہو یا جنسی بے راہ روی کا سیلاب ۔ اس جنسی بے راہ روی نے سماج میں درندہ اور حیوان کے درجات سے نیچے گرا دیا ہے۔