ذاکر فیضی کی افسانوی کائنات

ذاکر فیضی اب اردو ادب میں ایک جانا پہچانا نام ہے۔ وہ تقریباََ پچھلی دو دہائیوں سے افسانے لکھ رہے ہیں اور یہ افسانے ملک و بیرون ملک کے موقر رسالوں میں چھپ رہے ہیں۔ متعدد نقادوں و لکھاریوں نے ذاکر فیضی کے فن کی تعریف کی ہے اور انہیں نوجوان نسل کا ایک اہم افسانہ نگار قرار دیا ہے۔ 
حال ہی ذاکر فیضی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’نیا حمام ‘‘ کے عنوان سے چھپ چکا ہے ۔اس مجموعے میں پچیس افسانے شامل ہے۔ ان افسانوں کو پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ذاکر فیضی کے یہاں نہ صرف موضوعات کی جدت پائی جاتی ہے بلکہ وہ افسانے کے فن سے بھی اچھی طرح واقف ہیں لیکن ابھی ان کا سفر تکمیل کو نہیں پہنچا ہے اور ابھی ان کے فن میں پختگی آناباقی ہے۔لیکن بات یہ ہے کہ ذاکر فیضی برابر لکھ رہے ہیں اور نئے نئے تجربے کر رہے ہیں۔انہوں نے نئے اور اچھوتے موضوعات کو اپنے افسانوں میں برتا ہے ۔ آج کے انسان کی زندگی، جدید میڈیا کی فریب کاریاں اور سرمایہ داری نظام کے تحت پنپنے والی غربت جیسے سنگین مسائل کو اپنے افسانوں میں جگہ دی ہے۔
ذاکر فیضی نے ان افسانوں میں کچھ سلگتے ہوئے مسائل کو موضوع بنایا ہے ۔وہ سادہ بیانیہ اپناتے ہیں اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتے اور بیچ بیچ میں چونکاتے بھی ہیں۔ مجموعے کا پہلا افسانہ ’’ نیا حمام ‘‘ ہے جس کے نام سے یہ مجموعہ بھی معنون ہے ۔ اس افسانے میں ذاکر فیضی نے آج کی صحافت کے منافقانہ اور جاندبدارانہ رویہ کی عکاسی کی ہے۔ فیضی کے مطابق اس ’’نیا حما م‘‘ میں سب ننگے ہیں۔آج کا انسان پیسہ اور شہرت بٹورنے کی غرض سے کوئی بھی کام سرانجام دینے کو تیار ہے چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے: 
’’ تین سال کی اندھی، گونگی اور بہری بچی کو کیسے مار جانا ہے۔ اس کا فیصلہ آج کی آخری میٹنگ میں ہونا تھا، جس کے لیے میٹنگ ہال میں موجود تما م  لوگ نیوز چینل کے مالک و ایڈیٹر کے منتظر تھے۔‘‘
اس طرح افسانے کے ابتدائی جملوں سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر مسئلہ دراصل کسی ’’خبر‘‘ کو وجود میں لانے کا ہے۔آج کے دور میں میڈیا ’ٹی آر پی‘ TRP))  کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے ، یہاں تک کہ کوئی جرم بھی انجام دے سکتا ہے جیسا کہ افسانہ ’ نیا حما م‘‘ میں ذاکر فیضی نے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ایک لڑکی ہے۔ اس کا شوہر مر چکا ہے، اس کی ایک اندھی بچی ہے ۔ لڑکی اپنے پرانے عاشق سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ اور یہ لڑکی اور عاشق اس بچی سے چھٹکارہ پانے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اسے لوگوں کو گود دینا چاہتی ہے لیکن کوئی اسے لینا نہیں چاہتا اور سرکاری تنظیمیں اسے اپنے پاس رکھ لینے سے نکار کرتی ہیں کہ اس کی ماں زندہ ہے۔ بالآخر ایک اخباری رپورٹر کے مشورے طے پاتا ہے کہ اس کو مار دیا جائے۔اس طرح راستے کا کانٹا بھی ہٹ جائے گا اور چینل کی ٹی آر پی بھی اوپر جائے۔ سکرپٹ رائٹر سے سکرپٹ بھی تیار کر وائی جاتی ہے:
’’ بچی مرچکی ہے ۔۔۔۔سر ! ہم یہاں سے لائیوLive)) ٹیلی کاسٹ کریں گے اور سر بریکنگ نیوز میں بچی کا کلوز اپ لیا جائے گا۔ تب ہم فخر سے کہیں گے یہ نیوز صرف ہمارے پاس ہے کسی دوسرے چینل کے پاس’’نہیں۔‘‘
اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح آج کے صحافی دلال بن چکے ہیں۔ صحافت کی آڑ میں جرائم کس طرح انجام دئے جاتے ہیں اور نیوز چینلوں کا کام صرف پیسہ اور ٹی آر پی بٹورنا رہ گیا ہے۔ یہ اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اب انسان اور درندے میں کم فرق رہ گیا ہے بلکہ انسان نے درندگی کی سرحدیں بھی پار کی ہیں۔
’’جنگ جاری ہے‘‘ میں جدید دور کے انسان کے مکر ، فریب، لالچ اور ہوس پرستی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ کس طرح لوگوں کا استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں آپس میں لڑایا جارہا ہے۔یہاں تک کہ جب لوگ شیطان کو اس کام کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو شیطان واپس کہتا ہے کہ اب یہ کام میں انجام نہیں دیتا بلکہ اب اگر میں اس دنیا سے چلوں بھی جائوں تو یہ تمام گندے کام ہوتے رہیں گے کہ آب لوگ خود شیطان بنتے جارہے ہیں:
’’ لیکن آک جو کچھ وہ کررہے ہیں ۔ میرے بہکانے پر نہیں ہے۔میں، میں تو بس اب نام کے لیے رہ گیا ہوں۔ بد اعمالیوں سے وہ اس شکھر پر پہنچے ہیں۔ میں اب اس دنیا سے چلا بھی جائوں تو بھی اس دنیا سے شیطانیت ختم نہیں ہوسکتی۔‘‘
سرمایہ کی ہوس اور لالچ نے انسان کو ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے۔ انسانی رشتوں کی تقدیس ختم ہوچکی ہے۔ سچ، ایمانداری، ضمیر ، محبت ، انسان سے وابستہ یہ سب چیزیں اب لالچ اور مطلب پرستی کا شکار ہوچکی ہیں۔ انسان ایک مشین بن کر رہ گیا ہے۔اس کے اندر کے تمام احساسات و جذبات یا تو پوری طرح ختم ہوچکے ہیں یا ختم ہوتے جارہے ہیں۔ مادیت پرستی نے انسان کو حیوان بنادیا ہے۔ افسانہ ’’جنگ جاری ہے‘‘ اس مسئلے کو ابھارتا ہے اور قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ فیضی نے اس افسانے میں داستانوی یا تمثیلی اسلوب اپنانے کی کوشش ہے لیکن چونکہ افسانہ بہت جلد اختتام کو پہنچ جاتا ہے اس لیے اس میں داستانوی رنگ نہیں جو انتظار حسین کے افسانوں کاخا صہ ہے۔
’’گیتا اور قرآن ‘‘ افسانے میںپروفیسر صمدانی کے کردارنے جو کہانی سنائی ہے وہ آخر تک حقیقت پر مبنی ہے۔ اطہر مندر کے سامنے ہندووں کی مقدس کتاب گیتا  کے اردو ترجمہ کو پڑھنے لگتا ہے۔ اس دوران میں وہاں ایک ہندو لڑکے کی نظر اس پر پڑتی ہے۔اطہر کی پٹائی ہوتی ہے، فساد شروع ہوجاتے ہیں، جس میں ہندو مسلمان مارے جاتے ہیں۔ آخر میں پروفیسر صمدانی ایک شاگرد کے پوچھنے پر اسے بتاتے ہیں کہانی کا ابتدائی حصہ حقیقت پر مبنی ہے اورا ختتام انہوں نے خود گھڑ لیا ہے ۔ معلوم نہیں افسانہ  نگار نے کس نقطہ نظر کے تحت کہانی کو دوسرا موڑ دے دیا ہے اور ظاہر کرنا چاہا ہے کہ دراصل ادیب بھی سنسنی خیز ی پھیلانا چاہتے ہیں۔ افسانہ نگار کو پتہ ہونا چاہیے کہ ایسی کہانیاں اب ہزاروں میں ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ 
 ’’ میڈیا اور حکومت نے اطہر کو دہشت پسند قرار دیا۔اس کے اہل خانہ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہندو عوام نے اطہر کو ہندو مذہب کا دشمن قرار دیا اور اسلام کو دہشت گرد مذہب سمجھا۔‘‘
کیا یہ آج ہما رے سماج کی حقیقت نہیں۔ کیا مسلمانوں کو آئے دن ظلم و تشدد کا نشانہ نہیں بنایا جاتا۔کیا ہندوستان میں آج فساد نہیں ہورہے ہیں جس میں مسلمانوں کے گھروں، مسجدوں ، زیارتوں اور یہاں تک کہ قبرستانوں کو نشانہ بنایا جاتا۔تحقیقات سے پہلے ہی میڈیا مسلمانوں سے متعلق فیصلہ سناتا ہے اور یوں اقلیتوں سے وابستہ لوگ میڈیا ٹرائل کا شکار ہوکر کئی سال بلکہ کئی دہائیاں بنا کسی قصور کے جیلوں میں کاٹتے ہیں۔کیا دن دہاڑے انصاف کی دھجیاں نہیں اڑا ئی جارہی ہیں۔ 
’’بدری ‘‘ افسانے میں ایک غریب آدمی بدری کی زندگی کو موضوع بنایا ہے۔ اس کی معصومیت اور غربت کو بڑی فنکاری سے فیضی نے پیش کیا اور قاری متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔بدری کی بیوی دمو کا انتقال دوسری بچی کو جنم دینے کے دوران میں ہوا۔بدری کی ایک دن لاٹری نکل آتی ہے ۔ اور جب وہ لاٹری کا روپیہ وصول کرنے جاتا ہے تو راستے میں وہ مختلف دکانوں کے نزدیک رکتا ہے اور ان دکانوں کے مالکان سے کہتا ہے کہ واپسی پر وہ ضرور اُن کی دوکان سے خریداری کرے گا۔
’’بدری کودتا ہوا آگے بڑھا۔سُنار کی دوکان پر اس نے اپنی ٹانگوں کو بریک لگائے۔ کانوں کی خوبصورت بالیوں کو دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا ۔جب چھموا نہیں پہنے گی تو کتنی سُندر لگے گی۔ وہ دوکاندار سے مخاطب ہوا۔اے بھیا !یہ بالیاں کتنے کیں،’’ارے خریدے گا بھی یا ویسے ہی ؟ ان بالیوں کی قیمت پورے پانچ ہزار روپے ہے۔معلوم ہے تجھے ؟ دوکاندار نے فضول کا گراہک سمجھ کر کہا۔‘‘
بدری اس طرح کپڑے اور سیمنٹ دوکان پر بھی جاتا ہے ۔ اس سے بدری کی معصومیت صاف واضح ہوجاتی ہے کہ اُسے زندگی میں پہلی بار اتنا روپیہ دیکھنا ہوتا ہے۔ وہ اس خوشی میں کیا کررہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے، اُسے خود پتہ نہیں۔ اس کے ذہن میں طرح طرح کے سوال آجاتے ہیں کبھی وہ اپنی بچیوں کی شادی کی سوچتا ہے اور کبھی اچھا سا نیا گھر بنانے کی۔ بدر ی اپنا پیسہ وصول کرتا ہے  اور اس سے پہلے کہ وہ گھر آکر  چنیا اور منیا کو انعام کے رقم ملنے کی خوش خبری دے اور وہ سب ایک ساتھ جشن منائے اس کا گھر مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہوتا ہے اور اُس کی دونوں بیٹیا ملبے میں دب مرگئی ہوتی ہیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ افسانہ ہے لیکن افسانے میں گہری بات پیش کی گئی ہے۔ غریبی کس طرح ذہنوں کو مفلوج کرتی ہے یہ اس افسانے کا موضوع ہے اور فیضی نے دلچسپ انداز میں کہانی کو اختتام تک پہنچایا ہے جس سے ایک قاری چونکتا بھی ہے اور سماج اور سماج میںپنپ رہی طبقاتی کشمکش کے بارے میں سوچنے پر مجبور بھی ہوجاتا ہے۔ 
اسی طرح ٹوٹے گملے کا پودا، مردوں کی الف لیلیٰ ، اخبار کی اولاد وغیرہ فیضی کے اچھے افسانے ہیں۔ فیضی نے افسانوں میں سہل زبان استعمال کی ہے۔یہ اس زبان سے مختلف ہے جس کا ڈھنڈورا کبھی جدیدیت کے سحر میں مبتلا تیسرے درجے افسانہ نگاروں نے پیٹا تھا ۔ اتنا ہے کہ فیضی کو ابھی فن کی بہت سی منزلیں طے کرنی باقی ہیں۔ پلاٹ اور کہانی کی ترتیب اور حقائق کو کس طرح فکشن کے دائرے میں لانا ہے،  اس پر بھی توجہ دینی ہے۔ سماجی مسائل کو مختلف زاویوں سے دیکھنا ہے اور حقیقت نگاری کے تحت انہیں اپنے افسانوں میں پیش کرنا ہے۔
 بہرحال فیضی کے پہلے افسانوی مجموعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں ایک اچھا افسانہ نگار بننے کے تمام گُر موجود ہیں۔ کیا پتہ شائد آنے والے وقت میں ان کا شمار اردو کے بڑے افسانہ نگاروں میں ہو۔
پتہ ۔جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی انڈیا