ذات پات کی تفریق کے سبب اچھے رہنماؤں کا فقدان

  ہر زمانے اور ہر دورمیں ہر قوم کاکوئی نہ کوئی سردار،بادشاہ، سلطان، رہنما، رہبر، قاعد یا سالار ہواہے جو قافلہ قوم کو اپنی منزل مقصود تک پہنچاتا رہا ہے۔ ابتداء میں یہ سردار کے نام سے جاناجاتا تھا اور یہ خطاب اسے قبیلے میں اسے اس کی اعلیٰ انسانی صفات کی بنیاد پہ ملتاتھا۔ بعد میں جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا ۔ انسانی سوچ وفکر میں تغیر آتا گیا اسی کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں میں تبدیلی اور اضافہ ہوتا گیا پھر اس کانام الگ الگ شعبہ جات کی ذمہ داریوں کی بنیاد پر کبھی سلطان ، بادشاہ ، رہبر ، کبھی سالار، قاعد اوریا پھر آج کے جدید دور میںرہنما کہلایا ۔ ابتداء میں اسکا مقصد انسانوں کی بہمی نزاع اورنفرت کو مٹانا تھا۔ یہی نہیں بلکہ قبیلوں کے انتظامی امور کا تعین کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتاتھا ۔ عوام کے ہر معاملے کو حل کرنے کی قوت بھی اسی کے ہاتھ تھی۔ اس کو عوام کے مفاد ونقصان کا پورا پورا خیال ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ سردار جب قبیلوں کے محدودحلقے سے نکلا تو بادشاہ سلطان یا شاہ کاروپ لے گیا اور ان کو یہ خطاب طاقت کی بنیاد پہ حاصل ہوا ۔ اب جب اسے بادشاہ کا خطاب ملا تو اس کی ذمہ داریوں میںاوراضافہ ہوااور اکیلے میں اسے یہ تمام کام سنبھالنے مشکل ہوگئے تو اس لئے اس نے وزیروں کا انتخاب کیا جو اسے انسانی مسائل سے جڑی سیاسی وسماجی ذمہ داریوں سے آگااہ اورصلاح ومشورہ کرتے ، لیکن وقت اور زمانے کی ترقی یافتہ افتاد کے سامنے اس کا یہ عمل زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔ اورآخر معاملہ آج کے دور کی جدید نوعیت کی رہنمائی تک پہنچا۔ آج کے دور میں ان کے چننے اورتعین کرنے کا طریقہ کار اسے قبل کے طریقہ کار سے بہت مختلف ہے۔ آج انہیں عوام کی دلچسپی اور غیر دلچسپی کی بنیاد پر چنا جاتاہے اورعوامی دلچسپی کا مظاہرہ انتخابی صورت میں ہوتاہے اورپھر وہاں سے جو اکثریت میں عوامی حیثیت اورپشت پناہی حاصل کرتاہے وہی رہنما مانا جاتاہے ۔ جہاں ایسے طریقہ کار نے بہت ساری پرانی اور رجعت وقدامت پرست چیزوں سے عوام کو چھٹکارا دلایاہے اورعوام کوانصاف کے لئے طریقہ اور مواقع دیئے ہیں وہیں بہت ساری برائیوں اورنفرتوں کوبھی جنم دیا ہے ۔ جس کا ثبوت پچھلے تقریباً ایک سو سال سے عالم انسانیت دیکھ رہی ہے ۔ اس سے قبل کہ نجی سطح پہ اس کا ثبوت پیش کروں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سے عالمی منظر نامہ  پہ نظر ثانی کی جائے۔ تو قارئین ہمارے سامنے سب سے واضح مثال مشرق وسطی کی ہے جہاں ایسے نظام نے امریت پسند رہنماؤں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی امریت کا بھرپور مظاہر پیش کیا ۔ اسی نظام نے عالم انسانیت کو سرحدوں میں قید کرکے تعصب اورنفرتوں کوجنم دیا ۔ اس نظام کی تقسیم کاری نے عالم انسانیت کو تہذیب وثقافت ، رسم ورواج ، شکل وصورت طورطریقے، زبان وبولی ، روایات ومذاہب اور علاقائی تشخص کے بعد میں ایسے بانٹ دیا کہ آج ہر قوم دوسری قوم کو طاقت کے بل پوتے پہ اپنے مفاد کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کرکے کام میں لارہی ہے ۔ جس سے مختلف مذاہب،بولی وزبان کے ماننے اور بولنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو اقتدار کی حوس نے جنم دیا ہے اوراقتدار کی ہوس کسی عام آدمی کو نہیں بلکہ ان رہنماؤں کو ہے ۔ اپنے اس اقتدار کے لئے یہ رہنما کوئی حربہ استعمال کرنے میں پچھلے نہیں ہٹتے بلکہ ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتے جہاں سے ان کی کرسی اقتدار کو مضبوطی ملے اس کے لئے یہ زمین کو سرحدوں میں تقسیم کرتے ہیں اور دنیا کو مذہب ، لسان، اور ذات پات میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اسی کی مثال عرب، ترکی ، روس ، ہندوپاک وغیرہ میں ان کے اس عمل نے عوام کو اندھا کردیا ہے عوام کی سوچ کوناپاک کردیا ہے انسانی اقدار کو تباہ کردیا ہے انسانیت کے جذبے کو مذہب اورسرحد میں ایسے بانٹا ہے کہ ہرطرف ایک انتشاری اور استحصالی رویے پروان چڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو آج کے عالم انسانیت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کے اثرات آج واضح طورپہو ہر شعبے اور ہرمعاملے میں دکھائی دیتے ہیں جہاں تک سوال ہے اس کے نجی سطح پہ اثرات کا تو قارئین اس طریقہ عمل نے عوام کو ایسے ماحول میں یہ پرورش پانے کے لئے چھوڑ دیا ہے  جہاں سے ان کی ذہنی غذا ، نفرت ، تعصب اور ذات پات کی بنیاد پرتیار ہو۔ رہنما اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس مظلوم ومعتوب عوام کوا پنے ہر ناپاک ارادے کو عملانے کے لئے کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے عوامی اختلاف دن بہ دن تعصب ونفرت کی صورت میں بڑھتا جارہاہے۔ رہنماان کے ذات جذبات کو بڑھا کر دوسروں کے ذاتی حقوق کو پامال کرنے پہ مجبور کردیتے ہیں ان کی نفرت سے بھری تقریرں عوام جذبات کو بر انگیختہ کرتی رہتیں ہیں جس کارد عمل ملک کے اقلیتی طبقے کو ہر زمانے اور ہر دور میں جھیلنا پڑتا ہے ۔ اقلیتی طبقہ اکثر ان کے اس عمل کا شکار بنتا ہے  اپنے املاق وآبرو سے بے نیاز کر دیا جاتاہے۔ ان تمام چیزوں کو انجام دے کر یہ رہنما اپنے آپ کو اکثریتی طبقے کاخیر خواہ ثابت  کرنے میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ملک کو ترقی کی نئی راہوں سے آشنا کرانے میں کسی بھی طرح کا میاب نہیں ہوتے جس کانتیجہ ملک غریبی اورافلاس کی صورت میں دیکھتا ہے۔ ان تمام وجوہات کا سبب یہاں کے نظر یہ سازوں کے پیش کردہ اصول ہیں وہ اس میں کسی بھی صورت میں تبدیل اورتغیر کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ نظریہ سازوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اسباق بھی ہے جو بھائی چارہ ، انسانی اقدار ، وحدانیت ، ترقی یافتہ خیالات سے بالکل عاری ہے ۔ ہماری عوام اکثررہنماؤں کو اُن کی اہلیت کی بنیاد پر نہیں چنتے بلکہ ان کے تحریب کارانہ اصولوں کی بنیاد پہ تعین کرتے ہیں دوسرا ہماری قوم میںذات پات امیر غریب کا تصور اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اچھے اور برے کافرق کرپانا ہمارے لئے بہت مشکل ہے ۔ حق وانصاف کو آج کے انسان کی کم ہمتی اور مظلومیت سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ حق وانصاف کی بات کرنے والوں کو ہرمحفل ، ہر مجلس اور ہر حلقے میں ذلیل کیاجاتا ہے یہاں تک کہ انصاف مہیاکرانے والے ادارے بھی شک وشبہات کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش ہیں ۔ ہر طرف مادیت پرستی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں تو ایسے ماحول کے عوامی سوچ کو پرگندہ کردیاہے ان کی پراگندگی آج کے رہنماؤں کے اعمال بات چیت عوامی فلاح کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ،ان کے عوامی خطابات کی صورت میں نمایاں ہورہے ہیں چونکہ اس نظام میںان کے لئے کوئی مخصوص تعلیمی حد بندی نہیں دکھی گئی ہے اس لئے یہ عوام کوکوئی حربہ یا اصول ناقص سامنے رکھ کر ان کی دلجوئی حاصل کرلیتے ہیں جس کا اثر بعد میں بے روگاری کی صورت میں دکھائی دیتا ہے ۔ ذات پات اوربولی وزبان اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے ان رہنماؤں کے سامنے کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں ہوتا سوائے عوامی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے جو ان کی سیاسی لغت کاخاص الحاص مواد ہوتاہے۔ ایسے رہنماؤں کی وجہ سے آئے دن عوم طرح طرح کے مسائل سے جو جھ رہی ہے اوران کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے فکر وسوچ کے پیمانے مفقود ہوتے جارہے ہیں ملک اندرونی سطح پہ کمزور ہوتا جارہاہے ایک ملک اندر سے کئی ملکوں کو جنم دے رہاہے ۔ ان تمام مسائل کا  ذمہ داریہاں کی قیادت ہے جو اپنے مفادات کی خاطر ملک کو اور ملک میں بسنے والی عوام کو استعمال میں لاکر اپنے پراگندہ عزائم کی آبیاری کررہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ آج بھی اگر یہ عوام صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ لینا سیکھ لے تو اس طرح کے مسائل نہیں پیدا ہوسکتے یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم رنگ ونسل، قوم ومذہب اورذات پات سے اوپر اٹھ کر بہ صلاحیت لوگوں کو مواقع فراہم کریں گیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملک وقوم کی ترقی کے پیش نظر اچھے اچھے لوگوںکو قیادت واقتدار کی ذمہ داریاں سونپے تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل بن سکیں۔

رخسارپروین
سرنکوٹ،ضلع پونچھ
7051211938
 

اولاد ایک نعمت خداوندی 

اولاد اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے ۔اولاد کا وقت پیدائش (لڑکا یا لڑکی )دونوں صورتوں میں باعث فرحت ہوتا ہے۔ظہور اسلام سے قبل لڑکے کی ولادت پر اس کے اعزاء و اقرباء حد سے زیادہ خوشیاں مناتے ، جشن کا سماں باندھتے تھے ۔اوراس کے برعکس لڑکی کی پیدائش پر منہ بسورتے ۔خون کا گھونٹ پیتے ۔اظہار نفرت کرتے ۔نوبت یہاں تک پہنچ جاتی کہ انہیں زندہ در گور کر دیتے۔مذہب اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کو یکساں حقوق عطاکئے ہیں ۔لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو بھی جینے کا حق دیا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دونو ں کو ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ٹھہرا دیا۔آج کے دور میں مرد کا تصور عورت کے بغیر ادھورا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ نے آدم ؑکے بعد اماں حواؑکی بھی تخلیق فرمائی۔زندگی کے ہر موڑ پر مرد کو عورت کی ضرورت ہے۔اس لئے لڑکی کو باعث ننگ و عار سمجھناعقل و نقل کے خلاف ہے۔ہمارا مطمح نظر والدین کی ذمہ داری اور اولاد کی تربیت ہے۔اس سلسلے میں سب پہلا اور اہم مرحلہ بچوں کے نام رکھنے کا ہے۔نام سے مراد وہ لفظ ہے جس کے ذریعے کسی کو پکارا اور پہچانا جاتا ہے۔اس لئے نام عقلاً بھی اچھا اور بہتر ہونا چاہیے۔اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا۔کہ اللہ کی نظر میں سب سے بہترین نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہیں۔اس طرح وہ نام جن کے آخر میں کوئی صفت ہو ۔ابتدائے اسلام میں جب کوئی اسلام لاتا تو اللہ کے رسول ﷺ اس کا نام دریافت کرتے۔اگر اس میں غیر اسلامی تصور کا کوئی شائبہ ہوتا تو آپ ﷺ اس نام کو تبدیل فرما دیتے۔اور کوئی نیا نام رکھ دیتے۔
اللہ کے رسولﷺ نے خاص طور پر چار نام رکھنے سے منع فرمایاہے (افلع،رباح،منافع،اور بسار)نیز حضرت عمر کی ایک بیٹی کا نام عاصیہ تھااس کا مطلب نافرمان ہوتا ہے۔تو آپ ﷺ نے اسے بدل کر جمیلہ رکھ دیا۔دور حاضر میں مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے زیر اثر اپنے بچوں کے ایسے ایسے نام رکھ رہے ہیںجن کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیںہے۔مثلاً سویٹی ،بیلو،راجو،مناوغیرہ۔حدیث رسول ﷺ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی اولاد کے تئیں تین ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھائے ۔تو میں اس شخص کے لئے جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔نمبر ایک پیدائش پر اچھا نام رکھے۔نمبر دو اچھی تعلیم و تربیت دے۔ نمبر تین جوان ہونے پر اس کا نکاح کر دے۔اسلامی طریقے کے مطابق پیدائش کے بعد بچے کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنا دیے جائیں۔پھر اسے خاندان کے بزرگ یا کسی نیک شخص کے پاس لے جایا جائے۔جو بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے۔اس کے بعد خرما(خشک کھجور)چبا کر بچے کے منہ میں رکھ دی جائے۔پیدائش کے ساتویں دن بچے کا سر منڈھوایا جائے۔اور اس پر تھوڑا زعفران مل دیا جائے۔بالوں کے وزن کے مطابق چاندی یا نقدی غریبوں میں بانٹ دیا جائے۔اور بچے کا اچھا سا نام رکھ دیا جائے۔ساتویں دن عقیقہ کرنا مستحب ہے۔لڑکے کی طرف سے دو بھیڑ یا بکری اور لڑکی کی طرف سے ایک بھیڑ اور بکری بطورعقیقہ دیا جاتا ہے۔یہ عقیقہ اسی شخص پر مستحب ہے جو اس کا خرچہ برداشت کرنے پر قدرت رکھتا ہو۔کچھ لوگ اس ولادت کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اسے ایک بڑا جشن سمجھ کر دھوم دھام سے مناتے ہیں۔اور بے دریغ بے حساب دولت اس کی سالگرہ پر بہاتے ہیں۔مزید برآن اس تقریب میں شریک ہونے والے ہر شخص کو تحفہ کی امید ہوتی ہے۔حسب توقع تحائف نہ ملنے پر جذبات مجروح ہوتے ہیں۔اور آپسی تعلقات ختم ہونے تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔اس لئے ایسے فضول رسم و رواج سے اجتناب کرنا چاہیے۔
نیاز احمد ضیائی اڑائیوی، حال جموں