اس بات سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران مرکزی حکومت کی فراح دلانہ مالی امداد کے نتیجے میں جموں و کشمیر میں صحت کا شعبہ یکسر تبدیل ہو چکا ہے اور نہ صرف بنیادی سطح پر طبی ڈھانچہ کو مستحکم کیا گیا ہے بلکہ ثانوی اور تحتانوی سطح پر بھی صحت و طبی تعلیم کا شعبہ انقلابی تبدیلیوں سے گزر چکا ہے۔ مرکز کی مالی امداد کے تحت جموں وکشمیر میں 9میڈیکل کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا جن میں سے 5میڈیکل کالج شروع بھی ہو چکے ہیں جبکہ دو تکمیل کے ختمی مراحل میں ہیںاور دیگر دو کا کام شروع ہونے والاہے۔ اسی طرح جموں و کشمیر کیلئے 2الگ الگ ایمز بنائے جا رہے ہیں، جن سے نہ صرف طبی تعلیم مستحکم ہو گی بلکہ علاج و معالجہ کا نظام بھی نئی بلندیوں کو چھو لے گا۔ علاوہ ازیں ، 2 کینسر انسٹی ٹیوٹ اور ایک بون انسٹی ٹیوٹ کا قیام بھی اس سمت میں ایک اہم پیش رفت ہو گی۔ آیوشمان بھارت صحت سکیم کے تحت جموں و کشمیر کے ہر شہری کو علاج و معالجہ کیلئے 5 لاکھ روپے کا بیمہ فراہم کیا جا رہا ہے۔ سوا کروڑ کی آبادی والے جموں و کشمیر یونین ٹرٹری میں 10نئے نرسنگ کالج قائم کرنے کے علاوہ ایم بی بی ایس نشستوں کی تعداد بھی بڑھا کر 1100کر دی گئی ہے، یہ سب ایسے اقدامات ہیں، جن کے طفیل جموں و کشمیر کی دیہی و شہری آبادی کو صحت اور طبی تعلیم کے حوالے سے درپیش مسائل کا کافی حد تک ازالہ ہو چکا ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارا طبی ڈھانچہ بھی قومی سطح کی درجہ بندی میں کافی آگے بڑھ چکا ہے۔
مانا کہ ابھی بھی مسائل ہیں اور ابھی بھی طبی نظام میں بہتری کی گنجائش موجود ہے، لیکن جس طرح مرکزی سکیموں کے تحت طبی شعبہ میں افرادی قوت میں کئی گنا اضافہ کرنے کے علاوہ طبی ڈھانچے کو فروغ دیا گیا، اس سے یقینی طور پر علاج و معالجہ کے حوالے سے عوامی مشکلات میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے اور اس کیلئے کوششیں مسلسل جاری ہیں۔آج بھی متعدد ضلعی ہیڈکوارٹروں کے سرکاری ہسپتالوں میں میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (MRI) سکین کی سہولت کی عدم دستیابی ان مریضوں کے لیے بہت زیادہ مسائل پیدا کر رہی ہے جو نجی تشخیصی مراکز میں اس قسم کی سکیننگ کے متحمل نہیں ہوتے۔انہیں اپنا سکین کروانے کے لیے سری نگر یا جموں جانا پڑتا ہے۔لمبے فاصلے کے سفر اور یہاں کے ہسپتالوں میں رش کی وجہ سے مریضوں کو اس عمل میں کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔حکام کو ایسے معاملات پر خاموش نہیں رہنا چاہئے کیونکہ یہ عام لوگوں بالخصوص غریب مریضوں کی صحت کے مسائل سے متعلق ہے۔وہ ایسے معاملات کو ترجیح دیں اور اعلیٰ سطح پر بھرپور طریقے سے پیروی کریں تاکہ مریضوں کو تکلیف نہ ہو۔ مطلوبہ فنڈز کی عدم دستیابی کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔
بات صرف ایم آر آئی مشینوں کی نہیں، تمام سرکاری ہسپتالوں میں ایکسرے، الٹرا سونوگرافی اور سی ٹی سکین کے دستیاب آلات کی ورکنگ کنڈیشن کو باقاعدگی سے مانیٹر کیا جانا چاہئے۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مشین میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے اور مرمت نہ ہونے کی وجہ سے ہفتوں اور مہینوں تک ناکارہ ہو جاتی ہے۔ ناقص مشینوں کی وجہ سے مریضوں کا ایکسرے، یو ایس جی اور سی ٹی سکین نہیں کیا جاتا۔
متاثرہ مریض یہ جاننے کے لئے اسپتالوں کا چکر لگاتے رہتے ہیں کہ مشین ٹھیک ہوئی ہے یا نہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کئی مقامات پر ہسپتال کے حکام اس طرح کے معاملات کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔انہیں یہ رجحان ترک کرنا ہو گا اور وہ دانستہ یا غیر ارادی طور پر غریب مریضوں کو پرائیویٹ تشخیصی مراکز میں جانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار ضلعی وسب ضلعی ہسپتالوں میں تشخیصی ڈھانچہ مستحکم بنا ئے تاکہ مریضوںکو ایسے ٹیسٹوں کیلئے سرینگر ،جموں یا نجی تشخیصی لیبارٹریوں کا رخ نہ کرناپڑے ۔ایسا کرکے نہ صرف غریب مریضوںکو راحت دی جاسکتی ہے بلکہ تشخیص کا نظام کافی بہتر ہوسکتا ہے اور بیماریاں بھی ابتدائی مرحلہ پر ہی تشخیص ہوسکتی ہیں جس کے نتیجہ میں ایسی بیماریوں کے نتیجہ میں شرح اموات میں بھی کمی آسکتی ہے۔