سبزار رشید بانڈے
گاؤں کی آنکھ سے بستی کی نظر سے دیکھا
ایک ہی رنگ ہے دنیا کو جدھر سے دیکھا
بیسویں اوراکیسویں صدی میں ہونے والی تیز رفتارترقی و ایجادات نے جہاں پوری دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے وہیں گاؤں و دیہات کی سادہ لوح زندگی میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ضروری نہیں کہ کوئی بڑا نقصان ہورہا ہو، تب ہی ہم محسوس کریں اور اُس پر پچھتائیں۔ چنانچہ بعض تبدیلیوں سے نقصان بظاہر زیادہ نہیں ہوتا مگر بباطن وہ ہم پر اس حد تک اثر انداز ہوتی ہیں کہ ہمیں علم تک نہیں ہوتا کہ کس قسم کا نقصان ہوا ہے۔کل تک لوگوں میں گاؤں کے چھوٹ جانے کا احساس تھا۔ اس احساس میں محرومی ہوتی تھی اور محرومی میں بہت کچھ ہوتا تھا۔ اب ایسے لوگ کم ہی ملتے ہیں جن کی گفتگو سے محرومی کا یہ احساس ٹپکتا ہو،شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ شہروں کو جنتِ ارضی مان کردیہی آبادی کے بڑے طبقے نے شہروں کا رُخ کیا اور پھر وہیں کا ہوکر رہ گیا۔ شہر بڑھتے چلے گئے اور گاؤں سمٹ گئے۔ شہروں میں مستقل سکونت اختیار کرنے والوں نے گاؤں کو فراموش کردیا مگر گاؤں کی غیرت اس تغافل کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی ،اس لئے، ایک ایک گاؤں اُن لوگوں کو یاد کرتا رہا اور آنسو بہاتا رہا جو اُسے چھوڑ کر شہروں میں آباد ہوگئےہیں۔
کل کی ہی بات ہے کہ گاؤں کی نالیوں میں سیوریج کا پانی بہتا تھا لیکن اب زیادہ تر دیہاتوں میں اَنڈر گراؤنڈ سیوریج کا نظام قائم ہو چکا ہے۔کچی سڑکوں کی زیادہ تر جگہ پکی روڈِس نے لے لی ہے۔ پورے محلے میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کی جگہ اب گھر گھر رنگین ٹی وی آگئے ہیں، جن پر واحد ڈی ڈی نیشنل کی جگہ کیبل یا ڈش انٹینا کے ذریعے درجنوں چینلوں کو دیکھا جاتا ہے۔
90 کی دہائی تک ہر گاؤں کے ایک یا دو گھروں میں ٹیلی فون ہوا کرتا تھا، جس پر پہلی کال کرکے اپنے گھر والوں کو پیغام بھیجنا پڑتا تھا اور پھر کچھ دیر انتظار کے بعد دوسری کال پر آواز سننا ممکن ہوتا تھا لیکن اس میں بھی زیادہ وقت ’’ہیلو ہیلو اوریا پھر آواز نہیں آرہی ہے، ہاں ! اب آرہی ہے‘‘، کہتے کہتے گزرتا تھا، البتہ ہونے والی بات چیت کے دوران پردیس میں مقیم افراد یہ تک جان جاتے تھے کہ گائے، بھینس اور بکری سمیت دیگر چرند پرند کس حال میں ہیں؟ خاندان و برادری میں کتنی طلاقیں ہوئی ہیں؟ کتنے رشتے طے پائے ہیں؟ اور کس کے گھر خوشخبری نے جنم لیا ہے؟ اس وقت بات چیت کے دوران وہ ٹیلی فون سیٹ زیادہ پسند کیے جاتے تھے ،جن میں اسپیکر ہوتا تھا تا کہ پورا گھر پردیس میں مقیم اپنے عزیزکی آوازسن سکے۔دلچسپ صورتحال اُس وقت پیدا ہوتی تھی، جب اماں یا ابا سے ہونے والی بات چیت میں دیگر بہن بھائی لقمہ دیا کرتے تھے، تو سننے والے کے لیے سمجھنا مشکل ہو جاتا تھا بلکہ کبھی کبھار تو بات کا مطلب ہی اُلٹ جاتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پی سی او کی سہولت دستیاب ہوئی اور پھر بات موبائل فونز تک پہنچ گئی، جس کی وجہ سے اب لوگ دیہاتوں میں چلتے پھرتے، کھیتوں کو پانی لگاتے اور ٹریکٹر سے ہل چلاتے ہوئے بھی بات چیت میں مشغول دکھائی دیتے ہیں۔
بھلا ہوموبائل فون کمپنیز کا کہ اب تو کالیں بھی پیکجز کی وجہ سے لمبی لمبی کی جاتی ہیں۔ ہاں! اب خط پتر کا بھی دور بیت گیا ہے اورلڑکے لڑکیاں چٹھی نہیں لکھتے ہیں کیونکہ موبائل فون نے پوری دنیا سمیٹ کر ٹچ اسکرین پہ یکجا کردی ہے۔ گاؤں میں اب ڈاک بابو کی وہ ڈھاک نہیں ہے اور نہ ہی اُن کی وہ آؤ بھگت ہوتی ہے جو تاریخ کا حصہ ہے۔
کھیتوں کو راہٹ اورنہری پانی سے سیراب کیا جاتا تھا اورٹیوب ویلوں تک رسائی صرف بڑے جاگیرداروں کو حاصل تھی لیکن اب چھوٹے زمیندار بھی ٹیوب ویل سے فیضیاب ہو رہے ہیں بلکہ اب تو بات سولر انرجی سے چلنے والے ٹیوب ویلوں تک جا پہنچی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ دیہاتوں میں بیلوں کی جوڑی کافی قیمتی سمجھی جاتی تھی کیونکہ وہ ہل چلانے کے کام آتی تھی لیکن مدت ہو گئی ہے کہ بیلوں کی جگہ ٹریکٹروں نے لے لی ہے۔
پتھر کے پاٹ والی چکی اب خال خال دیکھنے کو ملتی ہے اور وہ بھی باپ دادا کی نشانی کے طور پر، کسی کونے میں دھری ہوئی ہوتی ہے کیونکہ گندم، مکئی اور باجرہ اب مشینی چکی سے پستا ہے۔ شاید! اب درانتی، رمبا، کسی، کلہاڑی اور ہاتھ سے برتن بنانے والے کمہاروں کے دن بھی بہت تھوڑے ہی رہ گئے ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دیہاتوں کی آبادیاں اوروہاں موجود قبرستانوں کی زمینوں میں اضافہ ضرورہوا ہے۔ جہاں پہلے چند کچے مکانات ہوتے تھے وہاں اب کافی حد تک پکے مکانات دکھائی دیتے ہیں اور دو چار قبروں والے قبرستان روز بروز وسیع ہوتے نظر آتے ہیں۔ بیتےبرسوں میں لوگ مساجد، بچوں کے اسکول اور کھیلوں کے میدان رہائش گاہوں سے دور بناتے تھے لیکن اب وہ گاؤں کے درمیان آگئےہیں۔جہاں پورے گاؤں کا گندا پانی جمع ہوتا تھا ،وہاں اب بہترین مکانات دکھائی دیتے ہیں اور بھینسوں کو نہلانے والے جوہڑ خشک ہو چکے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں تو پانی کے چشمے بھی سوکھ گئے ہیں۔اس میں شک نہیں ہے کہ دیہاتی زندگی میں بہت کچھ بدلاؤ آیا ہے لیکن اب بھی ساتھ رہنے کو ترجیح دی جاتی ہے، خواہ وہ موت سے پہلے کی زندگی ہو اوریا پھر موت کے بعد والی زندگی ہو۔
گاؤں، دیہاتوں میں آج بھی نئے گھر کی تعمیر سے قبل یہ چیز ضرور دیکھی جاتی ہے کہ دیوارکس کے ساتھ سانجھی ہے؟ یعنی کہ مکان کی دیوار بھائی کے گھر کی دیوار کے ساتھ ملے اور اگر بھائی نہ ہو تو پھر برادری ایک ہو وگرنہ مادری زبان تو لازمی طور پر ایک ہو۔
اسی طرح ابدی نیند سونے والوں کی قبریں کھودتے ہوئے بھی خیال رکھا جاتا ہے کہ باپ دادا، تایا، چچا اور بہن بھائی کی قبریں ساتھ ہوں۔جس طرح گاؤں میں کچے مکانات کی جگہ پکے مکانات لے رہے ہیں بالکل اسی طرح کچی قبروں کی جگہ پکی قبریں بنانے کا تناسب بھی بڑھتا جا رہا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ لڑکوں کے پرائمری اسکول، مڈل و ہائی اسکول بن گئے ہیں لیکن لڑکیوں کو پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے بعد اب بھی زیادہ ترعلاقوں میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے نزدیکی شہری علاقوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔
کبڈی، کوکلا چھپاکی، اڈا کھڈا، ٹھکریاں، والی بال، گلی ڈنڈا، چھپن چھپائی، پکڑن پکڑائی اوربنٹے کھیلتے لڑکوں کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس جاتی ہیں، اسی طرح لٹو چلاتے لوگ بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں مگر کرکٹ ضرور نظر آتی ہے مگر کون جانے کہ انٹرنیٹ، کیبل اور ویڈیو گیمز کے فروغ کے بعد اس کے بھی شائقین کتنے اور کب تک رہیں؟
دیہاتوں میں رہنے والے بیل گاڑیوں اور ٹانگوں پر میلوں سفر کیا کرتے تھے، گھوڑا گاڑی اور گدھا گاڑی بھی روزمرہ سفر کے لیے استعمال ہوتی تھی لیکن اب بیل گاڑی دکھائی نہیں دیتی ہے اور گھوڑوں و گدھوں کی جگہ موٹرسائیکلوں نے لے لی ہے ،جنہیں رکشاؤں میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ سائیکل صرف بچے چلاتے ہیں اوروہ بھی چھوٹے سائز والی کیونکہ موٹرسائیکل تو تقریباً گھر گھر میں آگئی ہے۔(جاری)۔۔۔۔
( ماندوجن شوپیان کشمیر)
[email protected]