سرینگر // 700سال قبل امیر کبیرؒ کی جانب سے کشمیر کی جغرافیائی اور موسمی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے متعارف کرائی گئی ’’ پیپر ماشی ‘‘ کی ہنر اب دم توڑ رہی ہے ۔کبھی دیوانوں خانوں کی زینت بننے والی بے مثال پیر ماشی کی چیزیں بنانے والے ہنر مند سڑکوں پر آگئے ہیں۔ خوبصورت پیپر ماشی کے قلم چلانے والے ہنرمندوں کی تعداد میں کافی تیزی سے کمی آرہی ہے ۔ سرکاری اعداوشمار کے مطابق 1985میں کشمیر میں پیپر ماشی کاریگروں کی تعداد 30ہزار تھی جو اب صرف 2ہزار رہ گئی ہے۔لیکن اس صنعت سے وابستہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہزاروں نہیں بلکہ کاریگروں کی تعداد محض چند سو رہ گئی ہے۔ 14ویں صدی میںامیر کبیرؒ نے کشمیر میں ایران سے ماسٹر کاریگروں کو بلا کر لوگوں کو مختلف ہنروں کی تربیت فراہم کرائی اور دستکاروں کی ایک بڑی تعداد کھڑی کردی۔ لیکن وقت گزر نے کے ساتھ ساتھ لوگ ان دستکاریوں سے دور ہوتے گئے۔7صدیوں پہلے متعارف کرائی گئی 40دستکاریوں میں اب صرف 28بچی ہیں اور ان میں قالین اور شال بافی کے بعد پیپر ماشی تیسرے نمبر پر کھڑی ہے لیکن پیپر ماشی کی یہ صنعت دن بہ دن ختم ہورہی ہے۔ محکمہ ہنڈی کرافٹس کی جانب سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 2011میں پیپر ماشی کی برآمدات 138.24کروڑ، 2012میں104.11کروڑ،2013میں 39.96کروڑ، 2014میں71.70کروڑ، 2015میں 24.85کروڑ، 2016میں 50.36کروڑ، 2017میں 14.97کروڑ، 2018میں 11.00کروڑ، 2019میں 9کروڑ80لاکھ جبکہ مارچ 2020سے مارچ 2021تک معمولی اضافہ کے ساتھ 13.27کروڑ روپے رہ گئی ہے۔ ریاستی اور ملکی سطح پر پیپر ماشی کے ہنر میں نام کمانے والے نذید احمد میر نے کہا ’’ سال 1985میں لوگ تعلیم ترک کرکے پیپر ماشی کے قلم کو چلانا اپنا فخر سمجھتے تھے اور لوگ جان بوجھ کو اپنے کپڑوں میں پیپر ماشی کا رنگ ڈالتے تھے تاکہ وہ بھی امیروں کے زمرے میں شمار کئے جائیں لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ پیپر ماشی کا قلم چلانے والے ہنر مند سڑکوں اور پٹریوں پر بیٹھ کر اپنی ہنر فروخت کررہے ہیں‘‘۔نذیر احمد کا کہنا ہے’’ میں نے 1999میں سٹیٹ ایوارڈ، 2000میں قومی ایوارڈ جبکہ سال 2012میں بہترین ہنر مند ہونے کا ایوارڈ بھی حاصل کیا لیکن اب صورتحال مختلف ہے‘‘۔انہوں نے کہا ’’سرکار پیپر ماشی کے ہنر مندوں کیلئے کچھ بھی نہیں کررہی ہے بلکہ عالمی بینک کی مدد سے تربیتی سینٹر چلاکر پیپر ماشی کے نام پر نوٹ بٹورے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا ’’ پیپر ماشی کی صنعت تب ترقی کرتی جب اس کام کو کرنے والا ہنر مند اپنے اہل عیال اور اپنی اخراجات کمانے میں کامیاب ہوتا لیکن یہاں کئی ہنر مندوں کو ہفتوں کام نصیب نہیں ہوتا ‘‘۔نذیر احمد نے بتایا ’’ 1985میں جب میں نے تعلیم ترک کرکے پیپر ماشی کا کام شروع کیا تو کشمیر میں پیپر ماشی سے جڑے افراد کی تعداد 30ہزار کے قریب تھی لیکن اب یہ تعداد صرف 850تک سمٹ گئی ہے اور ان میں بھی کئی لوگ شاید بینک میں اے ٹی ایم گارڈ اور آٹورکھشا چلاتے ہیں۔نذیر احمد کا مزید کہنا تھا کہ عالمی بینک نے پیپر ماشی کی بحالی کیلئے خصوصی سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا اور بعد میں صرف تربیتی سینٹر قائم کئے گئے لیکن ان تربیتی سینٹروں میں بھی ہنرمندوں کا استحصال ہورہا ہے۔ عالمی بینک کی جانب سے قائم کئے گئے تربیتی سینٹروں میں ہنرمندوں کو روزانہ 150روپے مزدوری دی جاتی ہے جبکہ کام ملنے کے بعد کاریگر روزانہ 500روپے تک کما سکتا ہے۔ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ہنڈی کرافٹس شارق اقبال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’ عالمی وباء کی وجہ سے پیپر ماشی کے برآمدات میں کمی ہوئی ہے جبکہ اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ پیپر ماشی کو جاننے والے لوگوں کی تعداد بھی کم ہورہی ہے‘‘۔شارق اقبال نے کہا ’’ سال 2014 کے سیلاب میں پرانا سارا ریکارڈ ختم ہوگیا ہے اور محکمہ کے پاس پرانا کوئی بھی ریکارڈ نہیں ہے‘‘۔شارق اقبال نے کہا ’’ اسوقت محکمہ ہنڈی کرافٹس میں رجسٹریشن کرانے والے پیپر ماشی دستکاروں کی تعداد 2036ہے ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ چند یونٹ ہولڈروں کی رجسٹریشن بھی کی گئی ہے۔ شارق نے بتایا ’’کشمیر کی گھریلو دستکاریوں کا معیار برقرار رکھنے کیلئے ٹیسٹنگ لیب موجود ہے، گاہکوں کو دھوکہ دہی سے بچانے کیلئے انفورسمنٹ ونگ بھی کام کررہی ہے جبکہ کشمیر اور بیرون ریاستوں کی دستکاریوں کو جی آئی ٹینگنگ اور دیگر جدید طریقوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپر ماشی کاریگروں کو مختلف اسکیموں کے زمرے میں لایا گیا ہے جبکہ عالمی بینک کی مدد سے بھی کاریگروں کی مدد کی جارہی ہے۔
دیوان خانوں کی زینت ’پیپرماشی‘ صنعت روبہ زوال | رنگ برنگی قلم چلانے والے ہنر مند سڑکوں پر آگئے، ہزاروں کی تعداد سمٹ کر محض چند سو رہ گئی
