رئیس احمد کمار
شادی کے بعد برابر سات سال تک فوزیہ کی کوکھ خالی رہی ۔ اولاد کی نعمت سے محروم رہنا نہ صرف ایک عورت کے لئے ہی باعث پریشانی ہوتا ہے بلکہ کبھی کبھار اس وجہ سے مرد حضرات بھی خودکشی کرنے پر اُتر آتے ہیں ۔ گھر والوں اور دیگر لوگوں سے اکثر طعنے سننےکے علاوہ انسان غموں کے سمندر میں گویا غرق ہوجاتا ہے ۔ عمر کے آخری ایام اور بڑھاپے میں اگر کوئی واحد سہارا ہوتا ہے تو وہ ایک اولاد ہی ہوتا ہے ، جو نہ صرف اپنے عمر رسیدہ والدین کی خدمت کرنا اپنا فرض عین سمجھتا ہے بلکہ انکا خیال بھی اس طرح رکھتا ہے کہ والدین کے لئے یہ قدرت کی ایک نعمت اور تحفہ ثابت ہوتا ہے ۔ اس لئے جو بھی مرد یا عورت اس قدرتی تحفے یا نعمت سے محروم رہتا ہے اس کے لئے قیامت صغرا سے کم نہ گزرتا ہے ۔ یہ وہ درد ہے جو عام انسان کے سمجھ سے باہر ہے اور وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جو خود بھی اولاد کی نعمت سے محروم رہا ہو ۔
کافی علاج و معالجہ کرواکے اور پیر فقیروں کے پاس جانے کے بعد آخر کار اللہ نے فوزیہ کو اولاد نرینہ عطا کیا۔ دونوں میاں بیوی اور دیگر رشتے دار خوشی میں پھولے نہیں سمائے کہ سات سال کے لمبے انتظار کے بعد فوزیہ اور اسکا خاوند جہانگیر صاحب اولاد ہوئے ہیں ۔ ان کے گھر و آنگن میں جیسے چاند اُتر آیا ہے ۔ اسکی پرورش بھی بڑی سنجیدگی کے ساتھ ہورہی ہے ۔ دونوں میاں بیوی اس ننھے پھول کو ہر روز نئے نئے اور قیمتی ملبوسات پہناتے ہیں ۔ جامع مسجد کے امام صاحب نے اس کا نام زاہد تجویز کیا ۔ چھ سال کی عمر پا کر اس کا داخلہ قصبہ کے ایک نامور نجی تعلیمی ادارے میں کیا گیا ۔ جہانگیر شہر میں ایک آفیسر کے گھر میں بطور نوکر کام کرتا ہے اور اسکی بیوی فوزیہ گاؤں کے ایک سرکاری اسکول میں بچوں کے لئے کھانا پکاتی ہے ۔ اپنے بچے زاہد کو وہ ہر ممکن سہولت بہم پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں حتیٰ کہ کسی قسم کی کمی بھی اسے محسوس ہونے نہیں دیتے ہیں ۔ خود دونوں میاں بیوی اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں لیکن اپنے بیٹے کے لئے، جو انہیں اللہ نے ایک لمبے انتظار کے بعد ہی عطا کیا ہے، تمام تر سہولیات مہیا رکھنے میں ہی اپنی خوشی سمجھتے ہیں ۔ آگے بڑھ کر زاہد ایک ڑاکٹر بننے میں کامیاب ہوا ۔ اب دونوں میاں بیوی راحت کی سانس لے رہے ہیں کیونکہ غریبی کے دن زیادہ دیر تک انہیں نہیں ستائیں گے۔ تنگدستی اور مفلسی کا نام و نشان ہی ہمیشہ کے لئے مٹ جائیگا ۔ اب زاہدسے ان کی بہت ساری امیدیں وابسطہ ہیں کیونکہ وہ ان کا اکلوتا آنکھوں کا تارا ہے ۔
زاہد کی تعیناتی گاؤں کے بجائے شہر میں ہی ہوئی ہے ۔ ہفتہ دو ہفتے بعد ہی وہ گھر ماں باپ کے پاس چلا آتا ہے ۔ اسکے والدین اب اسکی شادی کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں ۔ جب بھی زاہد گھر آجاتا ہے تو والدین اسے شادی کے لئے اصرار کرتے ہیں ۔اس نے شہر ہی میں ایک امیر باپ کی بیٹی سے شادی کرنے کی رضامندی ظاہر کی ۔ دونوں میاں بیوی نے اس کی خواہش کو ٹھکرانے کے بجائے اس کی مرضی اپنی ہی مرضی قرار دے کر اسے اور خوش کر دیا ۔ وہ بھی زاہد کے ساتھ ہسپتال میں بحثیت ایک گاینوکالوجسٹ تعینات ہے ۔ کچھ عرصہ بعد شادی کی تقریب بھی بڑے ہی دھوم دھام سے منائی گئی ۔ زاہد کے ماں باپ نئی نویلی دلہن اور اپنے نور چشم کی شریکِ حیات کو اپنی بیٹی سمجھ کر پیش آتے ہیں ۔ وہ اسے گھر کا کوئی کام کرنے نہیں دیتے ہیں بلکہ زاہد کی ماں گھر کا سارا کام خود ہی سنبھالتی ہے ۔ لیکن کچھ عرصہ بعد ہی اسے گاؤں کا سیدھا سادہ ماحول راس نہیں آیا ۔ اسے گاؤں میں ایڈجسٹ ہونے میں کافی دقت ہوئی اور وہ ہمیشہ زاہد کو شہر میں ہی مکان خریدنے پر اصرار کرتی تھی ۔ زاہد اپنے والدین کو کسی بھی صورت میں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا مگر بیوی کے آگے کسی کی بھی نہیں چلتی ۔ آخر اس نے شہر میں ہی ایک عالیشان مکان خریدا ۔ اب وہ مہینے دو مہینے بعد ہی ماں باپ کے پاس آتا ہے ۔ بیوی کے ساتھ شہر کی زندگی میں مگن ہوکر اس نے اب گاؤں میں آنا بالکل ہی ترک کردیا ۔ فون پر بھی مہینے دو مہینے بعد ہی ان سے خیریت پوچھتا ہے ۔ جہانگیر اور اس کی بیوی فوزیہ اب پہلے سے زیادہ پریشان کن حالات میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ اللہ کی طرف سے اولاد کی صورت میں اور پھر وہی اولاد جب ایک ڑاکٹر بن گیا تھا انہیں زندگی کی سب سے بڑی خوشی حاصل ہوئی تھی لیکن جب اسی اولاد نے ان جیسے رفیق و شفیق ماں باپ کو گویا دھوکہ ہی دیا تو ان کے لئے وہ قیامت سے کم نہیں ۔
ادھر زاہد شہر میں اپنی بیوی کے ساتھ عیش و عشرت اور شاہانہ زندگی گزار رہا ہے لیکن اُدھر اس کے ماں باپ گاؤں میں کسمپرسی کی زندگی کے دن بڑی مشکل سے کاٹ رہے ہیں ۔ وہ ہمسایہ لڑکوں کے سہارے گھر سے اندر باہر نکل رہے ہیں کیونکہ بیٹے کی شادی کے فوراً بعد ہی دونوں میاں بیوی مختلف عوارض میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ ڑاکٹروں کے پاس بھی جب جانا ہوتا ہے تو اکیلے جاتے ہیں ۔ لوکل ڑاکٹروں کے پاس جا کر اور اپنا علاج کرواتے کرواتے جب کچھ اضافہ نہ ہوا تو ایک دوست نے شہر میں ہی کسی بڑے ڑاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ ایک دن دونوں میاں بیوی نے شہر جانے کا منصوبہ بنا ہی دیا۔ سٹی ہیلتھ زون نامی کلنک پر دن بھر اپنی باری کا انتظار کرنے کے بعد جب ڈاکٹر صاحب کے چیمبر میں داخل ہوئے تو وہ دونوں میاں بیوی حیران ہوئے کیونکہ وہاں بیماروں کا علاج ان کا چشم چراغ ڈاکٹر زاہد ہی انجام دیتا تھا ۔ انہیں اس کی بھی بالکل خبر نہ تھی۔ اپنے ماں باپ کو کمزور اور لاچار پا کر ڈاکٹر زاہد کی آنکھوں سے گویا آنسوؤں کا سیلاب نکل آیا ۔ ماضی میں کس طرح انہوں نے اسے پالا پوسا تھا اور بڑا کیا تھا، اسے ایکدم یاد آیا ۔ ان کے پیر پکڑ کر ڑاکٹر زاہد ان سے گڑ گڑا کر معافی طلب کررہا ہے ۔ دونوں میاں بیوی کی آنکھیں بھی پرنم ہوئیں ۔ یہ ماجرا دیکھ کر تمام بیمار افراد جو اپنی باری کا باہر انتظار کررہے تھے اندر داخل ہوگئے ۔
���
قاضی گنڈ کشمیر ،[email protected]