دُھویں کی لکیر

برہمن واد نے ہندوستا ن میں مسلمان کو دوسرے تیسرے درجے کا نہیں بلکہ گھٹیا ترین درجے کا ناگرک بناکر چھوڑا بلکہ اُسے ناگرک ہی تسلیم نہیں کیا جاتا ہے۔باہر کے ہی سہی جب مسلمان نے صدیوں پیشتر بھارت کو اپنا وطن بنالیا پھر ملک میں اُس کا یوگ دان کیا رہا، اُسے صرفِ نظر کیا جاتا ہے ۔تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی ٔ بعید میں بھارتی باشندوں کا پہناوا فقط ایک دھوتی ہوتی تھی اور وہ کیلے کے پتوں پر کھانا کھاتے تھے۔یہ مختلف ملبوسات کی زیب تنی اور ظروف میں کھانے پینے کے آداب کس نے دئے؟ اُس پر کبھی غور ہی نہیں کیا جاتا ۔ملکی نظام چلانے کے لئے بندوبست ،مالیہ ،مال گزاری ،آبیانہ ، جمع بندی ،ڈاک، رسل ورسائل کا نظام،ناپ تول کے طریقے،ترازو بٹے یہ کہاں سے آگئے؟کس نے سیکھ دی۔یہ شہروں کی فصیل بندی،بستیوں کے دروازے یا گیٹ،نادر روزگار عمارات ،قلعے ،مساجد،باغات،پانی کی ترسیل اورروانی کے حیران کن طریقے،فوارے اور آبشار ،عجوبہ روزگار مقابر ،عدل و انصاف ،رواداری ،ہم آہنگی اور پیار و خلوص کی دولت کس کی دین ہے ؟سمجھ میں نہیں آتا اس صدیاں طویل گنگا جمنی تہذیب کا بٹوارہ آخر مستقبل میں بھارت کو کس روپ میں دنیا کے سامنے پیش کرے گا ؟؟؟
ایسے ناگفتہ بہہ حالات میں مسلمان کیا کرسکتا ہے ۔حقیقت میں کر تو وہ بہت کچھ کرسکتا ہے مگر پہلی مصیبت اُس کے لئے یہ ہے کہ وہ غیر مسلموں کی طرح نہ ایک جُٹ ہے نہ اتحاد و اتفاق کا روا دار ہے ۔قدرتی مسائل سے بھرپور مسلمان ممالک ایک دوسرے کی للکار (Defaint ores)پر ہیں ۔وہ دوسرے بڑے ملکوں کی جی حضوری میں لگے ہیں،مبادا اُن کی اپنا تخت شاہی نہ چھن جائے ۔یہ کتنی افسوس ناک بلکہ شرمناک بات ہے کہ عالم اسلام کا ایک بہت عظیم اور معتبر (Prestigeous)ایوارڈ جو کسی جید عالم،مصنف ومٔو لف،قرآن و حدیث اور انسانیت کی خدمت کرنے والے فاضل یا ایک ورلڈ فیمس مبلغ ِ حق کو ملنا چاہئے تھا، وہ ایک ایسے کٹر پنتھی متنازعہ ہندونیتا کو دیا گیا جس کے سر بطور چیف منسٹراپنی ریاست میں پانچ پانچ سالہ مسلمان لڑکیوں کا دامنِ عصمت تار تار کروانے اور حاملہ خواتین کی عصمت دری کے بعد اُن کا پیٹ چاک کرواکے اُن کے حمل (Feotus) نکال کر فُٹ بال بنانے ا ور آگ میں جھونک دینے جیسے ناقابل بیان الزامات ا بھی تک ایوانِ عدل سے انصاف مانگ رہے ہیں ۔کتنے قتل ہوئے اور کتنے زندہ جلائے گئے ،اُس کا صحیح ڈاٹا کبھی منظر عام پر نہیں آئے گا اور ظالموں کو کبھی سزا نہیں ملے گی۔
کہتے ہیں رموزِ مملکت خسرواں مے دانند یعنی ملک کی بہتری کے راز بادشاہوں کو ہی معلوم ہوتے ہیں مگر یہ بہر صورت افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے مسلمان ممالک کے سربراہ اربوں کھربوں روپے اغیار کو مفت میں کھلاتے ہیں۔یہ لوگ امریکی بنکوں میں اپنا روپیہ رکھتے ہیں ۔سودیہ لیتے نہیں ،وہ بنک اُس روپیہ کا کاروبار کرتے ہیں اور ان کا سود اور اُس پر باہر سے کمایا ہوا سود کھربوں روپیہ بنتا ہے اور وہ اُس روپے سے اپنی زندگیاں اور ملک بناتے ہیںاور یہ صرف اونٹوں کو دوڑا کر آنند لیتے ہیں ،مگر اُس وقت وہ روانڈاؔجیسے دم توڑتے ملک کے مریل اور فاقہ زدہ لوگوں کو بھول جاتے ہیں ۔کیا اُس سرمائے کو جو امریکی بنک کھاتے ہیں اور جس پیسے سے امریکی فوج کی سعودی ؔ کیمپوں میں’’دلبری‘‘ کی جاتی ہے، روانڈاؔ جیسے ملک کے ہڈیوں کے ڈھانچوں میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جاسکتی تھی؟؟؟رہا سوال یہ کہ ان حالات میں جب ہمیں نہ کچھ کرنے، نہ بولنے ،نہ لکھنے کی اجازت ہے ،سَر اٹھاکر چلنے پر پابندی ہے ،لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں ،ملٹری شاسن قضا ء وقدر کی مالک ہے بلکہ جسم و جاں ہی کچھ دیر کے لئے سلامت رہے، وہی غنیمت ہے کیونکہ ایک سانس لینے کے بعد دوسری سانس لینے کی اجازت طلب کرنے کی حاجت ہوتی ہے ۔اس لئے ان حالات میں ہمارے پاس جو واحد بچائو (Remedy)ہے، وہ ہے حدیث اللہ یعنی قرآن حکیم کی جانب رجوع ۔قرآن کریم میں سورہ آل عمران ؔ کی آیت نمبر 164میں رب العزت کا ارشاد ہے :’’بے شک مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ انسانوں میں سے ایک انسان کو رسولؐ بنا کر بھیجا جو اُن کو قرآن مجید کی آیات پڑھ کر اورسناکر علم و حکمت سکھاتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے ۔پہلے یہ گمراہی میں تھے۔‘‘
گویا اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ انسانوں میں سے ہی ایک انسان کو رسول مبعوث کرنے کو اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے انسانوں کے لئے ایک بڑا احسان بتایا ہے کیونکہ انسان کے لئے فرشتے کی پیروی غیر ممکن تھی اور نہ ہی فرشتہ انسانوں کے وجدان و شعور کی گہرائیوں اور باریکیوں کا ادراک کرسکتا تھا ۔دوسرے اس آیت مبارکہ میں نبوت کے تین اہم مقاصد بیان کئے ہیںیعنی تلاوت کتاب،تزکیہ ،تعلیم و حکمت۔تلاوت ِکتاب سے ہی تعلیم ممکن ہے ۔تلاوت نہ ہو توتعلیم کا تصور ممکن نہیں ،اس لئے تعلیم تبھی ممکن ہے جب ہم کتاب کو پڑھیں اور پڑھ کر سمجھیں۔تزکیہ سے مطلب عقاید،اعمال و اخلاق کی اصلاح ہے۔جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو شرک سے نکال کر توحید پر لگایا اِسی طرح نہایت بداخلاق اور بد اطوار قوم کو اخلاق و کردار کی رفعتوں سے بھی ہمکنار کردیا ،اور حکمت سے مراد مفسرین کے نزدیک احادیث پاک ہیں ،جن کی برابر برابر پیروی ہر مسلمان مومن پر لابدی اور لازمی ہے ۔ہم اُس طرف رجوع کریں تو ہماری مصیبتیں دور ہوسکتی ہیں،دکھ مٹ سکتے ہیں اور سختیاں زائل ہوسکتی ہیں اور مسلمان کی زندگی باغ و بہار بن سکتی ہے ۔کاش ہم اپنی کھوئی ہوئی وراثت کو کھوجنے کی کوشش کرتے !!!پھر ایک بار اُسی لائحہ عمل ،اُسی آئین فطرت کی طرف رجوع کرتے تو لازمی اور یقینی طور پر ہم میں وہی عقابی روح بیدار ہوجاتی اور ہمیں اپنی منزل ضرور آسمانوں میں نظرا ٓتی۔غیر مسلم جب ہماری پرانی کتابیںکھنگال کر ،ہماری عملیات اور ایجادات کو نظر میں رکھ کر ،ہماری بتائی ہوئی طب اورسائنسی تجربات سے استفادہ  کرکے، ہرجدید فیلڈ کے علوم و فنون پر غور و فکر کرکے ستاروں پر کمندیں ڈال رہے ہیں تو پھر ہم ہی کیوں جماعتی اور مسلکی تفرقات اور اختلافات میں پڑ کر دنیا تو دنیا ،بذات ِخود رب العالمین کی نظروں میں معتوب و مردود ہوئے جاتے ہیں ؟؟؟سوچنے ،سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی انتہائی ضرورت اور اشد مجبوری ہے !!!
استدعا ہے کہ ان بُجھتی ہوئی شمعوں کی حفاظت کرنے کی حاجت ہے ورنہ قوم ِعادؔوثموؔد ،قومِ لوؔط و قومِ صاؔلح ،اصحاب ِحجر و اؔیکہ کی طرح۔۔۔۔ع
ہماری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
………………………………..
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
  موبائل نمبر:-9419475995 
