سید علی جیلانی ۔سوئٹزر لینڈ
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بخشش اور مغفرت کے بہانے تلاش کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو رمضان کا تحفہ دیا۔ یہ مہینہ رضامندی، محبت، ضمانت، الفت، نور ،بخشش اور عزت کا ہے اور یہ خدا کے ان بندوں کے لئے ہے جو خدا کے دوست اور نیک متقی و پرہیز گار ہیں۔ اس مہینے میں مومنوں کے دل معرفت اور ایمان کے نور سے آراستہ ہوتے ہیں اور جو شخص اس مہینے میں نہ بخشا جائے، اُس کے حال پر بہت افسوس ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات قید اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور فرشتہ اعلان کرتا ہے، اے بھلائی اور نیکی کے طلبگار، اللہ کی طرف متوجہ ہو جا، اے بُرائی کا ارادہ رکھنے والےبُرائی سے باز آجا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس ماہ مبارک کے وسیلے سے لوگوں کو آگ سے (جہنم کی آگ) سے آزاد کرتا ہے ،تو بھی اُن لوگوں میں شامل ہو جا،یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کر دیئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ ‘‘۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مؤمنین بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے، جس نے اس مہینے میں کسی ر وزہ دار کو ( اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کیلئے ) افطار کرایا تو یہ اس کیلئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔آنحضرتﷺ نے فرمایا،اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ، درمیانی حصہ مغفرت اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی کاہے۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓسے روایت ہے کہ سرکار دو عالمؐ کا فرمان عظیم ہے کہ’’ جنت کے دروازوں میں ایک خاص دروازہ ہے، جس کو’باب الریان‘ کہا جاتا ہے ،اس دروازے سے قیامت کے دن صرف روزہ داروں کا داخلہ ہو گا، ان کے سوا کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہو سکے گا‘‘ ۔رمضان المبارک میں تین اہم واقعات ہیں، پہلا نزولِ قرآن ہے ۔قرآن نے حیات ِ انسانی کو جلا بخشی اور دنیا کو تاریکی گمراہی اورشرک کی جڑوں سے نجات دلائی،ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن کو حتی الامکان سمجھنے کی کوشش کریں، اس کو اپنی عملی زندگی کے شب وروز میں پیش آنے والے معاملات میں نافذ کریں، اس کے مطابق اپنی اور اپنے گھر والوں کی زندگیوں کو ڈھالیں، اس کے پیغام سے پیاسی روحوں کو تازہ دم کریں۔ دوسرا واقعہ جنگ بدر ہے، یہ واقعہ اْس حق و باطل کے فرق کو کھول کر رکھ دینے کا ہے جہاں حق کے علمبرداراِس سعی و جہد میں اپنی تمام نعمتوں کو اللہ کے حوالے کر دیتے ہیں ،جو اس نے عطا کی ہیں۔ تیسرا واقعہ فتح ِ مبین ہے، یہ واقعہ اس بات کی شہادت پیش کرتا ہے کہ حق کے علمبردار دنیا میں بھی سرخرو ہوں اور آخرت کی ابدی کامیابی بھی حاصل کریں ،یہ واقعہ اس بات کی بھی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کا گھر اور وہ مقام جو اللہ کی عبادت کے لیے مختص کر لیا گیا ہو وہ شرک اور بت پرستی سے پاک رہنا چاہیے۔ اس مہینے میں ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو اللہ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، تقویٰ ، پرہیزگاری، ہمدردی، غمگساری، محبت و الفت، خیر خواہی، خدمت ِ خلق، راہ خدا میں استقامت، جذبہ کو اپنائیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ،روزہ خاص میرے واسطے ہے، اس میں بندہ اپنی آرزئوں اور خواہشوں کو ترک کرتا ہے اور میرے واسطے ہی کھانے اور پینے سے ہاتھ اٹھا لیتا ہے، اس لئے میں بھی اس کو اپنی عظمت اور اپنی شان کے موافق اجر عطا کرتا ہوں اور روزہ اس کے واسطے ایک ڈھال ہے۔ روزہ دار کو دو فرحتیں حاصل ہوتی ہیں، ایک روزہ افطار کرنے کے وقت، دوسری پروردگار کا دیدار حاصل ہونے کے وقت اور اس کے برابر کوئی فرحت نہیں۔ اس ماہ رمضان میں مومن کے اوپر لازم ہے کہ کثرت سے ’’دعا‘‘ کرے اور شب قدر کی دعا لازمی قبول ہوتی ہے بشرطکیہ قبولیت دعا کی تمام شرائط پوری کی گئی ہوں۔ خدا خشوع و خصوع اور عجزوانکساری اور ندامت و چشم اشکبار کے ساتھ مانگی ہوئی ہر دعا قبول فرماتا ہے، یہ ضرور ہے کہ مشرک، ظالم، خلق خدا کی حق تلفی کرنے والا اور امانت میں خیانت اور گراں فروش تاجر کی بخشش ہوگی نہ دعا قبول ہوگی۔ اگر ہم اس مبارک مہینے میں 30دن کا تربیتی کورس دیانتداری اور خلوص کے ساتھ پورا کرلیں تو عجب نہیں کہ ہماری اصلاح اور ہماری مشکلات آسان ہوجائیں۔ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے ،ملک کا سربراہ ہو یا عام انسان سب اللہ کی نظر میں برابر ہیں، اگر مالدار اور اقتدار کا خواہش مند و حریص طبقہ عوام کو دھوکہ اور فریب دے گا تو دراصل خدا کی معصیت کرے گا اور اس کی رحمت نہیں بلکہ اس کے انتقام اور غضب کو آواز دے گا۔ جو شخص خدا کی مخلوق پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر بھی رحمت کی نظر نہیں ڈالتا،اس رمضان المبارک نے ہمیں پھر موقع دیا ہے کہ متقی پرہیزگار بن جائیں اور خدا کے حضور سربسجود ہوجائیں اور گڑگڑا کر دعا کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں کیونکہ ’’دعا مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور زمین و آسمان کا نور ہے‘‘۔ خدا ہم سے بے انتہا محبت کرتا ہے اور اس ماہ مبارک میں اپنے بندے پر خاص نظر عطا فرماتا ہے۔ رمضان المبارک آخری عشرے میں دعائے رحمت و مغفرت کا ایک خصوصی موقع جمعۃ الوداع بھی ہے، یہ آخری جمعہ ہمیں اس ماہ مبارک کے رخصت ہونے کا احساس دلاتا ہے، جس کی آمد نے ہمیں رحمت و مغفرت کی بشارت دی تھی ۔اس ماہ مبارک کی رخصت کے لمحات قریب ہونے کی وجہ سے ہمارے اندر خود احتسابی کی کیفیت اور زیادہ پیدا ہونی چاہئے، ہمیں یہی کیفیت تقویٰ سے قریب تر کردے گی جو روزہ کی غایت ہے۔ اس ماہ مبارک کی رخصت کا احساس ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کیا ہم نے گناہوں سے بچ کر روزے کے عمل کو اپنے لئے شفیع بنایا، کیا ہم نے غریبوں مسکینوں اور حاجت مندوں کی مالی اور اخلاقی امدادو اعانت سے اس عمل صدقہ کو اپنا شفیع بنایا، کیا تلاوت کرکے قرآن کریم اور ایمان و احتساب کے ساتھ تراویح پڑھ کر ہم نے ان اعمال کو اپنے لئے شفیع بنایا، کیا لیلۃ القدر کی آمد سے فائدہ اٹھا کر ہم نے مغفرت کا سامان پیدا کرلیا، کیا ہمارے اخلاق و کردار میں ایسی پاکیزگی آئی کہ ہم اتحاد، محبت اور ہمدردی کے پاکیزہ جذبات کی وجہ سے اب ایک بہتر انسان اور معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں گے۔ کیا اسباب دینوی کی طرف کشش کی حریصانہ کیفیت ختم ہوئی، کیا ہم میں صبر واستقامت پیدا ہوئی۔ اگر یہ باتیں مکمل طور پر ہم میں پیدا نہیں ہوئیں تو ہمیں یہ جمعۃ الوداع کو اپنے لئے توبہ اور آئندہ کے لئے عزم عمل کا بہترین موقع سمجھنا چاہئے اور یقین رکھنا چاہئے کہ اس ماہ کے جو لمحات باقی ہیں، ان سے بھی ہماری کوتاہیوں کی تلافی ہوسکتی ہے۔ یہ مہینہ تو سعادت، رحمت، برکت اور مغفرت کا ہے۔ دروازے رحمت کے آقا کی امت کے لئے کھلے ہیں، اپنے دامنوں کو پھیلادو، دنیا بھی سنوارلو اور آخرت بھی، کیا پتہ اگلا رمضان شریف نصیب نہ ہو۔
[email protected]>
Ph/Fax: 0191-2430732