مصروف منظور، شوپیان
دعا،عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی التجا اور پکار کے ہیں لیکن اسلامی اصطلاحات میں اس سے مراد اللہ سے (عموماً دوران عبادت) کوئی فریاد کرنے یا کچھ طلب کرنے کی ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے،’’اور تمہارے رب کا ارشاد ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔‘‘( سورة غافر)اس آیتِ کریمہ میں براہ راست دعا کی فضلیت بیان کی گئی ہے۔ بلکہ یہ آیت امتِ مسلمہ کا خاص اعزاز ہے، اس میں نہ صرف اُن کو دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ اُس کی قبولیت کا بھی وعدہ کیا گیا ہے۔
حضرت قتادہ نے کعب احبار سے نقل کیا ہے کہ پہلے زمانے میں یہ خصوصیت صرف انبیا ءکرام کو حاصل تھی کہ اُن کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا تھا کہ آپ دعا کریں، میں قبول کروں گا۔امت محمدیہؐ کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ حکم تمام امت کے لئے عام کردیا گیا ہے (ابن ِ کثیر)اس حدیث مبارک سے ہمیں یہ ادراک کرنا آسان ہونا چاہئے کہ ہم کتنے خوش قسمت ہے کہ اللہ تعالی نے ہم پر یہ احسان کیا ہے کہ دعا کے ذریعے ہم براہ راست بنا کسی واسِط کے اُس کے ساتھ اپنا تعلق اور رشتہ استوار کرسکتے ہیں۔
ایک مرتبہ ایک اعرابی نے رسول اللہ ؐ سے سوال کیا کہ ہمارا رب اگر ہم سے قریب ہے تو ہم آہستہ آواز سے مانگا کریں اور دور ہو تو بلند آواز سے پکارا کرے، اس پر قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی،’’اور جب میرے بندے تم سے میرے متعلق سوال کریں تو انھیں بتائیں، میں قریب ہوں ،میں پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘ (سورة البقرہ) یہ آیت بھی اس چیز کی طرف صاف اشارہ کرتی ہے کہ ہمارا رب ہمارے قریب ہے، جب بھی ہم چاہیں ہم دعا کے وسیلے اور سعادت سے اُس سے آسانی سے ربطہ قائم کر سکتے ہیں۔حضرت نعمان بن بشیرؓروایت کرتےہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا،’’ دعا عبادت ہے۔‘‘ (ترمذی)ترمذی شریف کے ہی ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘ حالانکہ دوسرے حدیث میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص اللہ سے اپنی حاجت کا سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کا اُس پر غضب ہوتا ہے۔مجموعی طور پر یہ سب احادیث اس حقیقت کو واضح کردیتے ہیں کہ دعا کرنا عبادت کا ایک اہم عمل اور حصہ ہے۔یہ ایک مومن کا سب سے طاقتور آلہ ہے جس سے وہ رنج وغم،مشکلات،آزمائش اور سختی کا ازالہ اپنے ربّ سے کرواسکتا ہے بلکہ دعا میں یہ طاقت بھی ہے کہ اُس کے ذریعے تقدیر بھی بدل کر کرشمے ہوسکتے ہیں۔کیونکہ حضرت سلمانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا،’’دعا کے سوا کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹالتی ہے۔‘‘ (ترمذی)ابنِ تیمیہؒ دعا کےمتعلق یوں فرماتے ہیں،’’دعا سب سے زیادہ فائدہ مند علاج میں سے ایک علاج ہے،یہ آفت کا دشمن ہے،یہ اُسے دور کردیتا ہے،اُسے ٹھیک کردیتا ہے،اُسے واقع ہونے سے روکتا ہے،اُسے کم کردیتا ہے یا اُسے روکے رکھتا ہے جب وہ نازل ہونے والی ہوتی ہے۔دعا مومن کا ہتھیار ہے۔
خلاصۂ کلام !دعا قبول ہونے کے لئے کوئی خاص وقت یا جگہ مخصوص نہیں ہے۔ البتہ کچھ اوقات ہے جو احادیث میں بیان ہوئے ،ہیں جیسے جمعہ کے دن،نماز کے آخر میں،سجدے کے دوران،تہجد کے وقت وغیرہ جہاں دعا قبول ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ دعا کی فضیلت کو جان کر اس نعمت کا بھرپور فائدہ اٹھائیں۔اگر کبھی دعا قبول بھی نہیں ہوتی پھر بھی اُس کے بدلے یا تو کوئی آنے والی آفت ٹلتی ہے یا اُس کا اجر آخرت کے لئے محفوظ رہتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کو ہر حال میں بروئے کار لانے کی توفیق دے۔
[email protected]