دولت اور دُرانی کا قلمی اشتراک

 جنرل    نیازی سقوطِ ڈھاکہ یعنی ملک کی تباہی کے دن بھارتی جنرل کو فحش لطیفے سنا رہے تھے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اُن کی علمی و اخلاقی اور عسکری تربیت کا کیا عالم رہا ہوگا۔ سقوطِ ڈھاکہ قریب تھا کہ ایک فوجی اہلکار جنرل یحییٰ کے پاس پہنچا تو اُس نے دیکھا کہ جنرل یحییٰ ٹی وی دیکھ رہے ہیں۔ فوجی اہلکار نے ٹی وی بند کرنے کی کوشش کی تو جنرل یحییٰ نے کہا ’’ٹی وی کھلا رہنے دو، ابھی نورجہاں کا گیت آنے والا ہے‘‘۔ جنرل جہانگیر کرامت نے ریٹائر ہوتے ہی امریکہ کا ایک تھنک ٹینک جوائن کرلیا۔ کون نہیں جانتا کہ امریکہ صرف اپنے مہروں کو تھنک ٹینک میں کھپاتا ہے۔ جنرل پرویزمشرف نے نائن الیون کے بعد اچانک اپنا قبلہ، اپنے دوست اور اپنے دشمن بدلے تو ہمیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمیدگل سے انٹرویو کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے جنرل پرویز پر تنقید کی تو جنرل حمیدگل نے برا منایا، کہنے لگے ’’جنرل پرویز میرا شاگرد رہا ہے، آپ اُس کی کیمسٹری نہیں جانتے‘‘۔ ہم نے کہا کہ آپ کا خیال دُرست ہوگا مگر جنرل پرویز کی کیمسٹری کیا ہے؟ مرحوم کہنے لگے ’’وہ کبھی بھی پاکستان کے مفادات کا سودا نہیں کرسکتا۔ پاکستان کے سر پر ایک بہت بڑا خطرہ منڈلا رہا ہے اور جنرل پرویز اُسے ٹالنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ ایسا نہیں ہے، وہ جو کچھ کررہے ہیں امریکہ کے لیے کررہے ہیں اور پورے کمٹمنٹ کے ساتھ کررہے ہیں۔ جنرل صاحب کہنے لگے ’’ایسا نہیں ہے‘‘ مگر اس انٹرویو کے چند ماہ بعد جنرل حمیدگل خود جنرل پرویز کے بارے میں وہی کہنے لگے جو ہم نے اُن سے کہا تھا۔ اب جنرل درانی نے بھارت کے ہاتھوں میں کھیلنے کا خیالی نہیں عملی مظاہرہ کیا ہے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر رونا آتا ہے اور ذہن سوال اٹھاتا ہے کہ کیسے کیسے اہم مناصب پر کیسے کیسے معمولی لوگ فائز رہے ہیں اور (شاید) اب بھی ہوں گے۔ ایسا نہ ہوتا تو پاکستان کا وہ حال نہ ہوتا جو ہے۔ جنرل حمیدگل نے اپنے انٹرویو میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ہماری فوج کا نظامِ تعلیم و تربیت ابھی تک نوآبادیاتی ہے۔ کہنے لگے کہ آرمی میں ابھی تک بائرن اور شیلے پڑھائے جاتے ہیں، حالانکہ میں کہتا ہوں کہ اقبال کو پڑھائو اقبال کو۔ ہم نے کہا کہ آپ صرف کہتے ہی کیوں رہے؟ آپ تو جنرل ضیا کے قریب تھے اور آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، آپ کو تو عملاً اقبال کو نصاب کا حصہ بنانے کے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا۔ اس بات کا جنرل صاحب نے کوئی جواب نہ دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس فوجی کو اقبال کے ایک ہزار شعر یاد نہ ہوں اور ان کی تشریح معلوم نہ ہو اُسے میجر کے عہدے کے قابل نہ سمجھا جائے۔ جسے اقبال کے تین ہزار شعر مع تشریح یاد نہ ہوں اسے میجر جنرل، اور جسے اقبال کے چار ہزار شعروں پر کامل دسترس نہ ہو اُسے لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ نہیں ملنا چاہیے۔ ہمارا آرمی چیف تو ہونا ہی اُس شخص کو چاہیے جسے اقبال کے تمام بڑے تصورات کے ہر پہلو کا بھرپور علم ہو۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ پاک فوج میں کیسے جنرل نیازی، جنرل یحییٰ خان، جنرل کرامت، جنرل پرویزمشرف، جنرل احسان اور جنرل درانی پیدا ہوتے ہیں۔
ایک اطلاع کے مطابق جنرل درانی نے ’’را‘‘ زدہ کیفیت میں پاکستان اور بھارت کی کنفیڈریشن کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ تجویز پیش کرکے جنرل درانی نے پاکستان کے نظریے، تہذیب، تاریخ، قوم، اقبال اور قائداعظم پر زیادتی کی ہے لیکن یہ تجویز صرف جنرل درانی کو نہیں، ایک ذہنی سانچے کو Define کررہی ہے۔ امریکہ یہی چاہتا ہے، یورپ یہی چاہتا ہے، میاں نوازشریف یہی چاہتے ہیں (بلکہ وہ تو گریٹر پنجاب تک پر آمادہ ہیں)، ممکن ہے اسٹیبلشمنٹ میں بھی کچھ لوگ یہی چاہتے ہوں، اور بعض حقائق کی بنیاد پر خیال آرہا ہے کہ شاید چین بھی یہی چاہتا ہو۔ اس تجزیے کی بنیاد یہ ہے کہ چین بھارت تعلقات تیزی کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں۔ چین فنانشل ٹاسک فورس کا صدر منتخب ہوا تو چین کے پرانے دشمن بھارت کے نمائندے نے آگے بڑھ کر چین کو مبارک باد دی۔ بھارت میں مقیم تبت کے رہنما دلائی لامہ بھارت میں اپنی آمد کی سالگرہ اہتمام سے مناتے رہے ہیں مگر اس سال بھارت نے دلائی لامہ کو ایسا کرنے سے روک دیا اور دلائی لامہ کی تقریب میں کوئی بھارتی اہلکار شریک نہیں ہوا۔ چین اور بھارت اپنے تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ نریندر مودی نے چین کے حالیہ دورے میں چین کے صدر شی جن پنگ کے ساتھ تنہائی میں پانچ ملاقاتیں کیں جنہیں Heart to Heart ملاقات کا نام دیا گیا۔ بھارت بظاہر پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے بھی تیار نہیں تھا مگر اچانک معلوم ہوا کہ پاکستان اور بھارت کی فوجیں چین اور روس کی فوجوں کے ساتھ مل کر جلد ہی مشترکہ مشقیں کرنے والی ہیں۔ ’’دی نیوز‘‘ کی ماریانہ بابر نے اس حوالے سے ایک خصوصی خبر فائل کی۔ اس خبر میں کہا گیا تھا کہ بھارت، چین، روس اور پاکستان کی مشترکہ فوجی مشقوں کی خبر نے مغربی ممالک کے اعلیٰ اہلکاروں کو چونکا دیا ہے اور سوال کیا جارہا ہے کہ جو بھارت اور پاکستانTalking Terms پر بھی نہیں تھے ،وہ اچانک مشترکہ فوجی مشقوں پر کیسے آمادہ ہوگئے؟ مشترکہ جنگی مشقوں کی تحقیق بتاتی ہے کہ اس کی پشت پر چین ہے۔ ابھی تک چین اور روس کے تعلقات تزویراتی نہیں، تاہم دونوں ممالک تزویراتی تعلقات کے قیام کی طرف گئے تو امریکہ کے اتحادی بھارت کے لیے بڑی مشکل کھڑی ہوجائے گی اور اُسے امریکہ کے ساتھ اتحاد پر غور کرنا پڑے گا۔ ابھی اس عمل کا آغاز تو ہمارے سامنے نہیں، مگر ہمیں اس جانب متوجہ رہنا چاہیے۔ رہنما کی ایک تعریف یہ ہے کہ رہنما خود ہار جاتا ہے مگر قوم کو جتا دیتا ہے۔ افسوس پاکستان کو وہ رہنما میسر رہے ہیں جو اپنی جیت کے لیے قوم کو ہرا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی قیادت کسی بحران میں قوم کو اعتماد میں نہیں لیتی۔ نہیں بتاتی کہ پردے کے سامنے اور پردے کے پیچھے کیا ہورہا ہے؟ ٹریک ٹو ڈپلومیسی اور جنرل درانی اور ’’را ‘‘کے سابق سربراہ کی ملاقاتوں اور تصنیف کے کیا معنی ہیں؟۔ (ختم شد)