دوستی بھی کیا خوب نبھائی !

ریاستی اسمبلی کے ایوان بالا کی چھ نشستوں کے جو مجموعی انتخابی نتائج سامنے آئے ہیں، انہوں نے جموںوکشمیر کےسیاسی حلقوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے کیونکہ ان نتائج سے ریاستی حکمران اتحاد پی ڈی پی و بی جے پی کے درمیان باہمی اعتماد اور تال میل کے فقدان کا بھانڈا چورا ہےپر پھوٹ پڑا ہے۔ حتمی نتائج کے مطابق بھاتیہ جنتا پارٹی نے 3نشستیں حاصل کر لیں جبکہ انکی اتحادی جماعت پی ڈی پی اور اپوزیشن این سی و کانگریس کے حصے میں بالاتر تیب ایک ایک نشست آئی ہے۔حالانکہ ایسکٹورل کالج کے اراکین کی تقسیم ایوان میں اس عنوان سے موجود تھی کہ پی ڈی پی کو ایک حلیف رکن کی حمایت سے دو نشستیں ملنا  طےتھیں اور دونوں پارٹیوں کے درمیان اس حوالے سے مفاہمت بھی موجود تھی کیونکہ پی ڈی پی کے پاس اپنے امیدوار راجوری کے عبدالقیوم ڈ ار کی کامیابی کے لئے برابرکے 30ووٹ تھے۔ جبکہ بھاجپا کے  پاس اپدنے اُمیدوار کےلئے صرف29ووٹ تھے، لیکن پی ڈی پی کے حلیف رکن اسمبلی زانسکار باقر رضوی نے پلٹی مار کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ دیکر پی ڈی پی کے امید وار عبدالقیوم ڈار کے ووٹ بھاجپا امیدوار کے برابر کر دیئے۔ اس طرح ووٹوں کی تقسیم ا س انداز سے عمل میں آئی کہ دونوں حلیف جماعتوں کے امیدوار یکساں سطح پر کھڑے ہوئے اور بعد اذاں انتخابی قواعد کے مطابق قرعہ اندازی ہوئی جس میں قرعہ فال بھاجپا رکن کے حق میں نکلا۔ اس طرح اسمبلی میں30اراکین کی حمایت یافتہ پی ڈی پی کو 29اراکین کی حمایت رکھنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں عملی طور پرشکست کا سامنا کرنا پڑا۔ انتخابی سیاست میں آزاد اراکین کی وفاداریاں تبدیل ہونا اگر چہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن جس انداز سے بی جے پی نے حکمرانی میں شریک پی ڈی پی کے حلیف کا ووٹ اپنے امیدوار کی کامیابی ممکن بنانے کے لئے استعمال کیا، اُس سےاتحادی سیاست کی مٹی پلید ہو کر رہ گئی ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے بلکہ پی ڈی پی کے حلقوں کو بھی صدمے سے دوچار کر دیا ہے کیونکہ اب تک پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اتحادی مفاہمت کی دیانتداری کی قسمیں کھانے میں کبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا، حالانکہ بی جے پی قائدین نے وقتاً فوقتاً پی ڈی پی کی پارٹی پالیسیوں پر کھلم کھلا اعتراض جتلانے میںکوئی ابہام باقی نہیں رکھا۔ پی ڈی پی کی صفوں پر بی جے پی کے اس سلوک کا کیا اثر ہوگا یہ وقت ہی بتائے گا کیونکہ فی الوقت نہ تو پارٹی قائدین کی جانب سے اور نہ ہی زیریں سطح پر کارکنوں کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے  آیا  البتہ پارٹی نے باقر رضوی کو سٹیٹ بلڈنگ اینڈ  کنسٹرکشنز ورکر س ویلفیئر بورڈکے چیئر مین کے عہد ے، جو وزیر مملکت  کے درجہ کا عہدہ ہے، سے برطرف کر دیا ہے۔ بھاجپا کی حرکت پر لب کشائی کیوں نہیں ہوئی غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ الیکشن بائیکاٹ اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی کامیابی کی وجہ سے پارٹی پہلے ہی صدمے سے دو چار ہے اور انتخابی عمل سے پید اشدہ خوفناک حالات پر وادی کےیمن و یسار میں جو برہمی پیدا ہوئی ہے اُس نے پارٹی کو مزید پشت بہ دیوار کر دیا ہے۔ اگر چہ حکمران اتحاد میں باہمی اعتماد کے فقدان کا معاملہ نیا نہیں ہے کیونکہ ایک طویل مشورت کے بعد دونوں جماعتوں کے مابین ’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ کے نام سے جو دستاویز مفاہمت طے پائی تھی ا ُس میں موجود بیشتر فیصلے ہنوز تشنۂ عمل ہیں۔ رواں مالی برس کے لئے ترقیاتی امور کےلئے رقوم مختص کرنے میں جموںاور کشمیر کے خطوں کے درمیان جو تفاوت سامنے آیا ہے، اُس نے اس مفاہمت کو سر عام عریاں کرکے رکھ دیا ہے۔ اسی طرح مرکزی مملکت یافتہ این ایچ پی سی کے زیر قبضہ بجلی پروجیکٹوں کی ریاست کو واپس منتقلی، جس پر دونوں جماعتوں کا اتفاق تھا، سے انکار نےبھی  اتحادی جذبے کے غبارے سے پہلے ہی ہوا نکال دی تھی۔ ان حالات میں مجموعی طور پر جو منظر سامنے آیا ہے، اس میں اگر حزب ا ختلاف کی جماعتیں حکمران پی ڈی پی کو طفیلی ہونے کاطعنہ دیں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ حکمران اتحاد کے درمیان اعتماد کے  اس قدر فقدان کے آنے والے ایام میں کیا نتائج  بر آمد   ہوسکتے ہیں، اُس پر ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن یہ بات طے ہے کہ کشمیر کے حق میں یہ کسی بھی عنوان سے سود مند نہیں ہوسکتا، کیونکہ پی ڈی پی نے کشمیر میں ایک نشست پر بی جے پی کی کامیابی کو یقینی بنایا لیکن بی جے پی نے جموں میں اسکا کیا جواب دیا، وہ سامنے ہے۔ ان نتائج سے کم از کم خطہ پیر پنچال میں پی ڈی پی کی ساکھ کو جو نقصان پہنچا ہے وہ غالباً ناقابل تلافی ہوگا ۔