سرینگر // اوڑی مظفرآباد کے درمیان آر پار تجارت میںپچھلے 3 برسوں کے دوران 75فیصد کی کمی آئی ہے ۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگرہندوپاک حکومتوں نے ایل او سی ٹریڈاور آواجاہی کیلئے کوئی واضح پالیسی ترتیب نہیں دی تو آنے والے دونوں میں تاجر مجبوراً ٹریڈ سے ہاتھ کھینچ لیں گے۔ واضح رہے کہ سرحدوں پر سال2003میں ہوئی جنگ بندی معاہدہ کے بعد ہندوپاک حکومتوں نے سال 2008میں آر پار تجارت بڑے دھوم دھڑاکے سے شرو ع کی تھی تاکہ منقسم ریاست کے آر پار لوگ آپس میں تال میل اور تجارت بھی کر سکیں لیکن پچھلے تین برسوں سے اس تجارت پر خطرے کے بادل منڈلا رہے ہیںاور آئے روز یہ تجارت نئے نئے تنازعات کا شکار ہوتی جا رہی ہے کیونکہ آر پار تجارت کے عمل کو نہ صرف شک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے بلکہ ہندپاک کشیدگی، این آئی اے چھاپوں اور ایل او سی سے منشیات کے کاروبار کے الزام سے تجارت پر کافی منفی پڑاہے ۔تجارت پر پڑنے والے منفی اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال 2008 میں جب تجارت شروع کی گئی تب اُس کے ساتھ 647تاجر منسلک تھے تاہم اب اُن کی تعداد گھٹ کر 210رہ گئی ہے اور اس طرح تاجروں کی جانب سے تجارت سے ہاتھ کھنچ لینے کی وجہ سے 90فیصد تجارت متاثر ہوئی ہے اور مزید متاثر ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔تاجروں نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ شروع میں اوڑی مظفرآباد کیلئے 2دن تجارت ہوتی تھی اور اُس وقت 180مال بردار گاڑیاں آرپار آتی جاتی تھیں لیکن اب اگرچہ تجارت 4 دنوں پر محیط ہے لیکن صرف 140گاڑیاں ہی آر پار سفر کر رہی ہیں اور ٹریڈ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ایل او سی ٹریڈکے صدر ہلال احمد ترکی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ایل او سی ٹریڈ کیلئے سرکار کے پاس کوئی بھی واضح پالیسی نہیں اسی لئے تجارت میں کمی بھی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو اگلے کچھ روز کے بعدمیں بھی اس تجارت سے ہاتھ کھنچ لوں گا۔انہوں نے کہا کہ آر پار ٹریڈ پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں اور اس کی بنیادی وجہ صرف اتنی ہے کہ حکومت کی جانب سے ٹریڈ کیلئے کوئی پالیسی موجود نہیں ۔انہوں نے کہا کہ ایل او سی کے آر پار اس وقت صرف 25فیصد تجارت ہی ہو رہی ہے اور 75فیصد تجارت میں کمی آئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ سب لوگ اچھی طرح سے ٹریڈ کر رہے تھے لیکن اب جو حالات ہیں لوگ اس تجارت سے ہاتھ کھنچ رہے ہیں ۔ہلال ترکی نے کہا کہ اس کراسنگ پوائنٹ سے جو مال سرحد کے اُس پار مظفرآباد جاتا ہے اُس کا کچھ حصہ پاکستان کی دیگر منڈیوں میں بھی جاتا ہے لیکن وہاں پر تاجروں کی پکڑ دھکڑ اور مال کو غیر قانونی قرار دے کر نہ صرف گاڑیوں کو نیلام کیا جا رہا ہے بلکہ ڈرائیوروں کی بھی گرفتاریاں عمل میں لائی جاتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا جو مال اس وقت سرحد کے اُس پار کوئی تاجر خریدتا ہے اگر وہ برباد ہو رہا ہے تو اُس کا خمیازہ یہاں کے تاجر کو بھی بھگتنا پڑرہا ہے کیونکہ اُس کا کروڑوں کا نقصان بھی ہو رہا ہے ۔ چیئرمین ایل او سی ٹریڈآصف لون نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا پہلے اس تجارت کو ویری فکیشن کے سخت عمل سے دوچار کیا گیا اور پھر این آئی اے کے چھاپوں سے تاجروں کو اس کا شکار بنایا گیا،کبھی منشیات کا الزام عائید کر کے تاجروں اور ڈرائیوں پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور اب سرحد پار پاکستانی سرکار نے بھی ایسی ہی کارروائیاں شروع کر دی ہیں جس سے اب تاجر اپنے ہاتھ کھینچ رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ سب تجارت اور ایل او سی کے آر پار منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کیلئے سازش ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایل او سی ٹریڈر س نے اس تجارت کو چلانے کے لیے اپنی جمع پونجی داؤ پر لگا دی تاکہ آر پار کے عوام کے درمیان پیدا ہو نے والی دوریاں کم ہوں اور عوام کے رشتوں میں مزید مضبوطی آئے، لیکن بد قسمتی سے آئے روز سرینگر مظفرآباد ،پونچھ راولاکوٹ تجارت نئے نئے تنازعات کا شکار ہو تی جارہی ہے جس سے دوریوں میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ اُدھر سرحد کے اُس پار بھی پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے تاجروں کو اسلام آباد کسٹم کی جانب سے سرینگر سے آنے والے مال بردار ٹرکوں کی ضبطی، پکڑ دھکڑ اور ایل او سی ٹریڈرز کے خلاف تھانہ صادق آباد اورلپنڈی کی جانب سے مقدمہ درج کر نے کے خلاف ایل او سی ٹریڈرز کی کال پر آر پار تجارت منگل کومعطل رہی ۔