دلی کی غلطیاں!

ریاست  کے گورنر ستیہ پال ملک نے چار اکتوبر کو ایک اخباری انٹرویو میں کہا کہ نئی دلی کی غلطیوں کے سبب بھارت کشمیریوں کیلئے ایک قابض قوت ہے۔ریاست میں اب تک تعینات کسی بھی گورنر کی جانب سے اس طرح کا بیان سامنے آنے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ اُمید تو یہی جاگی ہے کہ گورنر صاحب کا بیان معنی کے لحاظ سے سمجھ آنے والے لفظوں کی قید سے باہر نہیں ہے لیکن شومیٔ بخت کہ اس انٹرویو کے ایک ہی دن بعد مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ریاست میں نقص ِامن اور جنگجو ئیانہ سرگرمیاں جاری رہنے کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرایا ۔ وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ کشمیریوں سمیت جموں کشمیر کی پوری آبادی امن اور جمہوریت کے حامی ہیں اور ۹۰ فیصد لوگ لوکل باڈیز انتخابات میں حصہ لینے کے طرف دار ہیں۔ ایسا کہا جاسکتا ہے کہ راج ناتھ جی نے گورنر ملک کا انٹرویو نہیں پڑھا تھا یا پھر پڑھ کر اس کی اَن سنی کی گئی ہے۔ انٹرویو میں الیکشن سے متعلق گورنر کا ماننا ہے کہ کشمیر کے انتخابی میدان میں احمد کی ٹوپی محمود کے سر رکھی جاتی رہی ہے۔جو الیکشن جیت جاتا اُس کے بدلے ہارے ہوئے امیدوار کو کامیاب قرار دیا گیا یعنی جس بات کو وزیر داخلہ حالات کی بہتری کیلئے بنیاد مانتے ہیں، گورنر صاحب ماضی کے حوالے سے اُسی بات کو حالات خراب ہوجانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔تاہم کشمیر کی بربادی کی داستان اتنی مختصر نہیں ہے کہ گورنر ستیہ پال ملک صاحب الیکشن دھاندلی پر روک لگانے کا وَچن دے کر داستان کے اختتام پر پہنچ جائیں۔ بہت کچھ غلط ہوتا رہا ہے اور کسی بھی غلطی کا دائرہ ایک ذات تک محدود ہوتا تو منفی نتائج کو ٹھیک کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگ جاتا ، غلطیوں کی یہ مالائیں کشمیریوں کی پوری قوم کو لے ڈوبی ہیں۔
 گورنر صاحب کے نشانے پر انتخابات کا حوالہ دے کر دو باتیں توجہ طلب بن جاتی ہیں: اول یہ کہ مرکزی حکومتوں نے دنیا کا منہ بند رکھنے کیلئے لمبے عرصہ تک انتخابات کو رائے شماری کا نعم البدل قرار دیا ، دوسرا یہ کہ غیر منصفانہ طور منعقدہ ایسے انتخابات میں کامیاب قرار دے گئے ممبران اسمبلی کو ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت مٹانے کی سیڑھی بنایاجاتا رہا۔ کشمیری عوام کو ہر دو صورتوں میں جدوجہد کے طویل جان لیواادوار سے گزارا گیا ۔ اس دوران کافی خون بہایا گیا ، عصمتوں کو تار تار کیا جاتا رہا اور سینکڑوں ہزاروں گھر مسمار ہوتے رہے ۔ اس طرح کے مظالم نے اس حزنیہ داستان کو اس قوم کی مقدر کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔مسلٔہ حل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ داستانِ کشمیر کو اس کے صفحہ اول سے پڑھا جائے اور جہاں جو غلطی ہوئی ہے، اُس کا معقول تدارک کیا جائے۔ نہیں تو ہر کسی کے زخم بھرجانے تک ناخن بھی نکل آتے رہیں گے اور ہر کوئی درد سے کراہتا ہی رہے گا اور طبیبِ ناتواں کے خلاف سراپا احتجاج بنا رہے گا۔
     ۱۹۴۷ء میں ہمارے آزاد ملک جموں کشمیر کے چالیس لاکھ لوگوں نے بھی شخصی راج کے چنگل سے خلاصی حاصل کرکے جمہوریت کے ماحول میں سانس لینے کی آرزو کی تھی لیکن جہاں ایک طرف ہمسائیگی میں چالیس کروڑعوام برٹش انڈیا سرکار کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے کے قریب تر تھے، وہاں دوسری طرف ہمارے آزاد وطن جموں کشمیر کو نئی زنجیروں میں جکڑنے کی سازشوں کے جال بچھائے جارہے تھے۔ بھارت کے اپنے ارادے تھے اور نوزائیدہ مملکت پاکستان کی اپنی مصلحتیں تھیں ۔ ادھر کشمیر کو اپنا تاج بتایا جارہا تھا اور اُدھر شہ رَگ کا نام دیا جا رہا تھا ۔ بھارت کا دعویٰ رہا ہے کہ والی ٔجموں کشمیر مہا راجہ ہری سنگھ کی مملکت پر ملک پاکستان کی شہ پر قبائلی حملہ آوروں نے ہلہ بولا تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کو فوجی مدد حاصل کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ عارضی الحاق کرنے کی ضرورت پیش آئی تھی۔اس طرح کی ہنگامی صورت اُبھر آنے پر بھارت نے ہی جنگ بندی کا اہتمام کرنے اور مسئلے کا حل تلاشنے کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا۔ مسلٔہ حل کرنے کیلئے پہلا زینہ اقوام متحد ہ کا فیصلہ ہے اور نئی دلی سرکار نے اقوام متحدہ کے اس فیصلے کو ۱۹۵۷ء تک دس سال کے عرصے میں بھی رد نہیں کیا تھا۔ پھر اچانک اعلان کیا گیا کہ پاکستان کا امریکہ حامی سیٹو، سینٹو معاہدوں کی ممبرشپ حاصل کرنے کے بعد اقوام متحدہ کا فیصلہ رائے شماری ناقابل عمل بن گیا ہے۔ اس اعلان سے چند سال قبل امن کے پیامبر اور آزاد بھارت کے اول وزیر اعظم جواہرلال نہرو کئی مواقع پر از خود کشمیر تشریف لاکر متعدد پبلک جلسوں اور سرکاری میٹنگوں میں اقوام متحدہ کے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کی یقین دہا نیاں کراتے رہے۔ سرینگر کے لال چوک میں پنڈت نہرو کی وہ تقریر ۷۰؍ سال گزر نے پر ابھی تک ہزاروں دھڑکتے دلوں میں رچی بسی ہے، جس میں پنڈت جی نے کہا تھا کہ کشمیری عوام چاہیں تو وہ اُسی دم بھارت کی افواج کو جموں کشمیر کی سرحدوں سے واپس بلا لیں لیکن کشمیر کے کسی بھی فرد بشر کو پنڈت جی کی نیت پر کوئی شک نہیں تھا، اس وجہ سے اجتماع سے کوئی بھی شخص ’’ کشمیر سے ابھی باہر جائیے‘‘ کہنے کیلئے اُٹھ کھڑا نہ ہوا ۔یہ بھارت کے ہر دل عزیز وزیراعظم کی جانب سے یقین دہانی کا عالم تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست کے عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے جموں کشمیر کیلئے نہ صرف الگ آئین، الگ پرچم، الگ الیکشن کمیشن، الگ عدلیہ، الگ انتظامیہ اور منفرد طرز حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا بلکہ مجموعی طور اس منفرد نظام پرابد تک تحفظ فراہم کرنے کیلئے وفاقی آئین کے دفعہ ۳۷۰ کی مہر بھی لگا دی گئی تھی۔ تب جموں کشمیر کو حاصل حقوق شہریت کے قانون کو ہٹانے کی باتیں کرنے والوں کا جنم بھی نہ ہوا تھا ، اس لئے ریاستی عوام اپنے مستقبل کے سلسلے میں کیونکر خوف زدہ رہتے؟ ریاست کی سرحد کو پنجاب کی طرف سے آرپار کرنے والے شہریوں پر مادھو پور چک پوسٹ پر اپنے نام اندراج کرانا لازمی بنادیا گیا تھا۔ بھارت اور جموں کشمیر ریاست کے درمیان قائم تعلقات کا جائزہ لینا داخلی وزارت کی دسترس سے باہرتھا اور کسی بھی معاملے کو سلجھانے کیلئے وزارت خارجہ کی خدمات میسر تھیں۔ یہ سب ہوتے ہوئے کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ امن کے پیامبر پنڈت کو اچانک طور کیا سوجھی کہ خوبصورت خوابوں کو ڈراؤنی حقیقت کا جامہ پہنایا ۔ کچھ لوگوں کاماننا ہے کہ ریاست کی اس منفرد حیثیت کو پہلا چلنج جن سنگھ نے دیا تھا اور بھارتی عوام کو تبھی سے ریاست میں نافذ سٹیٹ سبجیکٹ قانون کے خلاف اُکسایا جانے لگا تھا۔ جموں میں اندر سے پرجا پریشد پارٹی نے ایک ودھان، ایک نشان اور ایک پردھان کا نعرہ بلند کیا اور باہر سے باقی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جن سنگھ نے مورچہ سنبھالاتھا۔ اب کانگریس سرکار بھی اسی حکمت عملی کا حصہ بن گئی تھی اور آناً فاناً ریاست میں حکمرانی کے منفرد نظام اور ریاست کی خصوصی شناخت کی تمام تر نشانیوں اور علامات کو طاقت کے نشے میں تحلیل کرنے کا بیڑا اُٹھایا گیا۔ بھاری بھرکم پہلا دائو ۹ ؍ اگست ۱۹۵۳ء کو کھیلا گیا اور اتنے ہی بھاری وزن کا دوسرا دائو ۱۹۶۵ء میں صادق دور میں کھیلا گیا۔ اس سے آگے ابھی تک بھی جہاں کہیں خصوصی پوزیشن کا بورڈ آویزان دکھائی دیتا ہے، اُس کو اُتارنے تک شاہانِ دلی کونیند نہیں آتی ۔ دلی کی غلطیوں کی فہرست لمبی ہے اور اول نمبر پر اس کا اقوام متحدہ کے فیصلے کو تسلیم کرنے کے بعد اس پر عمل نہ ہونے دینے کی غلطی ہے۔ مان لیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کا موضوع گورنر صاحب کے حدود اختیارات سے باہر ہے لیکن وہ آئین جموں کشمیر کے پاسبان کا فریضہ انجام دینے کیلئے اپنی کرسی سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہ سال ۱۹۵۷ء میں اجرا ء شدہ ریاستی آئین کی کاپی منگوا کر اس کا مطالعہ کریں اور دیکھیں کہ دلی سے کہاں اور کیا غلطیاں سر زد ہوئی ہیں ؟ ریاست کا جھنڈا موجود ہے، کہیں کہیں لہراتا بھی ہے، لیکن بے اختیار ہے۔ اس جھنڈے کو کبھی لہراتے وقت ’’ لہرا اے کشمیر کے جھنڈے‘‘ کا ترانہ بھی گایا جاتا تھا، ریاست کی سر زمین پر قدم جمائے ہر کسی وردی پوش پر جھنڈے کو سلامی دینا لازم ہوا کرتا تھا۔ یہاں ابھی بے اختیار جھنڈے کیلئے کوئی بھی جوانی نہیں لٹائی جاتی ہے! کوئی جانیں لٹانے والے نوجوانوں سے اُن کی حسرتوں کے بارے میں دریافت کرے!وہ خود بھی جانتے ہیں کہ وہ طاقت و تعداد میں ایل ٹی ٹی ای کے مساوی نہیں ہیں اور نہ ہی معمولی قسم کی دو ایک بندوقوں سے تیغ و تفنگ سے لیس کمپنی ساخت کی فوج کو ہرایا جاسکتا ہے،پھر بھی وہ بھاگنے کے بجائے لڑنے اور جان گنوانے کا ہی فیصلہ کرتے ہیں! دہشت گرد بتائے جارہے ان نوجوانوں کوسمجھانے کی کیا ضرورت ہے۔ بات وہی ہے جو گورنر ستیہ پال ملک صاحب نے جان لی ہے کہ غلطیاں دلی سے سرزد ہوئی ہیں۔اب وقت ہے ان غلطیوں کو دُرست کرنے کا۔ کشمیری عوام کو اتنا سا اشارہ مل گیا ہے کہ غلطیوں کا یہ بیان اُن کی ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک کی زبان ہے اور ستیہ یعنی سچ ہی ہوگا۔ 
