فارنسیک ایک لاطینی لفظ ہے جو سترہویں صدی میں انگریزی زبان میں مستعمل ہوا۔ اس کا مطلب ہے ’’عدالتی ایوان‘‘ ، یعنی گہری چھان پھٹک کے بعد کھلے عدالتی ایوان میں جرم سے جڑے سبھی پہلوؤں کو منظر عام پر لانا۔ فارینسک سائنس نہایت باریک اور پیچیدہ شعبۂ علم ہے جسکے ذریعہ کسی بھی واردات کے باریک سے باریک پہلوؤں کی جانچ کرکے تحقیقاتی عمل کو نتیجہ تک پہنچا یاجاسکتا ہے۔ فارینسک اصول یہ بھی ہے کہ اگر کوئی اقبال جرم بھی کرلے تو بھی سبھی کڑیوں کو ملاکر ہی اس کا اقبالیہ بیان ردو قبول کے لائق سمجھا جاتا ہے۔
14فروری کو لیتہ پورہ میں کشمیر ی مسلح مزاحمت کی تیس سالہ تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز حملہ ہونے کے صرف تین گھنٹوں کے اندر اندر اس حملے کے تار پاکستان کے ساتھ ملائے گئے۔ بلاشبہ جیش محمد نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرلی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تنظیم کے سربراہ پاکستان میں مقیم ہیں۔ لیکن جس وقت نئی دلی میں این آئی اے اور نیشنل سیکورٹی گارڈز کے فارینسک ماہرین کو کشمیر کا رخت سفر باندھنے کا حکم دیا جارہا تھا، انڈین میڈیا راکٹ کی رفتار سے نتائج پر پہنچ چکی تھی۔ پورے ملک کو بتایا گیا کہ یہ حملہ پاکستان کی پشت پناہی اور منجملہ کشمیریوں کی اعانت سے کیا گیا ہے۔ اس بیانیہ سے جس جنگی جنون کوہوا دی گئی، اُس نے وہی نتائج برآمد کئے جو بھارت کی نئی جنونی سیاست کو مطلوب تھے۔ کشمیری مسلمانوں کے خلاف ژینوفوبیا کی بھیانک لہر بھڑکا دی گئی اور تعلیمی اداروں سے ریل کے ڈبوں تک اس لہر نے ہزاروں کشمیریوں کو یہ یاد دہانی کرائی کہ وہ جس ملک کے طول و عرض میں مواقع کی تلاش میں ہیں وہ اُنہیں دشمن اور دیش دروہی سمجھتا ہے۔جب تک این ایس جی کے فارینسک ماہرین کشمیر وارد ہوئے تب تک دیہرادون، دلی، بہار یہاں تک ریاست کے جموں خطے میں کشمیریوں کے خلاف نفرت کا لاوا آتش فشاں بن کے پھٹ چکا تھا۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ حملے کے چند گھنٹوں بعد میڈیا میں پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے ذرایع کا حوالہ دے کر خبر دی گئی کہ حملہ آور نے اپنی گاڑی میں تین سو کلوگرام دھماکہ خیز مواد لوڈ کیا تھا۔ اس مقدار کا تخمینہ دھماکے کی شدت سے لگایا گیا یا حملہ آور نے اس کا وزن پہلے ہی کہیں نشر کیا تھا، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔حالانکہ جائے واردات پر بمشکل ہی کوئی ایسا ٹکڑا ملا جس سے یہ طے ہوتا کہ گاڑی کون سی تھی اور اس میں کتنی مقدار میں دھماکہ خیز مواد لدا ہوا تھا۔ خود کش بم حملوں کے بارے میں افغانستان ، پاکستان، عراق یا دنیا کے دوسرے خطوں میں تحقیقات کا جو عمل مستعمل ہے اُس کے مطابق خود کش بمبار کی شناخت طے کرکے اس کے اہل خانہ اور اس کے جسم کے باقیات کا ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا ہے، اور طے کیا جاتا ہے کہ آیایہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اُسی نے حملہ کیا۔
لیکن بھارت کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ ہر مسلح حملہ کی طنابیں پاکستان کے ساتھ ملائی جاتی ہیں، اور ہر حملے کے بعد نزلہ کشمیریوں پر گرایا جاتا ہے۔پاکستان اس حملے سے آسانی سے پلو نہیںجھاڑ سکتا ، کیونکہ جس تنظیم نے حملے کا ذمہ لیا ہے اس کا سربراہ پاکستان میں ہی مقیم ہے، گو چین نے دو ٹوک الفاظ میں بھارت سے کہا ہے کہ وہ خوامخواہ کسی شخص کو حملے کے ساتھ نہ جوڑے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان بھارت سے ثبوت مانگ رہا ہے اور پیشکش کررہا ہے کہ مشترکہ تحقیقات کی جائے اور پھر اگر کوئی پاکستانی عنصر ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ بھارت اس پیشکش کو بے معنی کہتا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ پاکستان ہی اصل قصوروار ہے۔
پوری دنیا نے پلوامہ حملہ کی مذمت کی ہے، یہاں تک کہ مزاحمتی خیمے نے بھی انسانی جانوں کے اتلاف کو مسلہ کشمیر کے حل میں تاخیر سے جوڑ کر افسوس کا اظہار کیا۔ لیکن پاکستان کا یہ موقف کہ مناسب تحقیقات کی جائے اور ثبوت فراہم کئے جائیں، عالمی سطح پر تسلیم کیا جارہا ہے۔
حملے کے سات روز بعد ٹائمز آف انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسے خفیہ ایجنسیوں کے ایسے انٹرسیپٹس ملے ہیں ، جن میں پاکستان سے جیش قیادت کشمیر میں اپنے عسکریت پسندوں کو ہدایات دے رہی ہے کہ ایسا ہی ایک اور حملہ جموں یا ریاست سے باہر کیا جائے۔ اگر واقعی ایجنسیوں کے پاس ایسا کوئی انٹرسیپٹ تھا، تو یہ ایک ٹھوس ثبوت تھا ، جس کا پاکستان مطالبہ کررہا ہے۔ظاہر ہے ایسی حساس معلومات پاکستان یا عالمی برادری کے ساتھ شئیر کرکے ہی میڈیا میں لیک کی جانی تھی، لیکن بھارت نے اپنے مخصوص بیانیہ کے بل پر کشمیریوں اور پاکستان کامواخذہ کرنے کے لئے میڈیا کو ہی عدالت کا درجہ دیا ہے اور یہ وہی میڈیا ہے جہاں نہ دلیل چلتی ہے، نہ اپیل کی اہمیت ہے اور نہ وکیل کی سنی جاتی ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد ظاہر ہے جیش محمد کشمیری عسکریت کے سینٹر سٹیج پر آگئی ہے۔ لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین نے بھی اس کی سراہنا کی ہے۔ بلکہ حزب المجاہدین کے اعلیٰ کمانڈر ریاض نائیکو نے ایسے مزید حملوں کی وارننگ ایک آڈیو پیغام کے ذریعہ دی ہے۔کشمیر میں مقبول کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے اب تک کم ازکم 400عساکر فوجی آپریشنوں میں مارے گئے۔ فورسز اور فوج کا بھی جانی نقصان ہوا لیکن یہ جنگ نہایت غیرمتناسب تھی، کیونکہ عام شہریوں کی جانیں گئیں، ہزاروں کو چھرے لگے اور سینکڑوں مسکن خاکستر ہوگئے۔اگر سیکورٹی ایجنسیوں کی یہ دلیل درست ہے کہ کشمیر میں عسکریت اب انٹرنیشنل ماڈل کو فالو کرے گی، تو ظاہرہے یہ جنگ قدرے متناسب ضرور نظر آئے گی، لیکن اس کی آڑ میں بھارت کا ہائپرنیشنل ازم کس قدر اُچھال پائے گا اور اس اُچھا ل سے نفرتوں کی کتنی بلند دیواریں چڑھیں گی اور اُن دیواروں میں کتنے کشمیری مسلمان اپنے ارمانوں سمیت چنوائے جائیں گے ،اس کا اندازہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران رونما ہوئے واقعات سے ہوتا ہے۔
کشمیری کا خود کش بمبار بن جانا بلاشبہ اُس ظالمانہ اور جابرانہ پالیسی کا کھلا اشتہار ہے جو گزشتہ پانچ سال سے کشمیر میں اپنائی جارہی ہے، لیکن اس سب کے پس منظر میں بھارت کی گہری ریاست کا وہ شیڈینتر بھی سمجھنا ہوگا ، جسکے ذریعہ ہر ایسی مزاحمتی کاروائی کو کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے جو مزاحمت کے حریف پر ضرب کاری کی اہل ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ حملے سے ممبئی تک اور اُوڑی سے پلوامہ تک جو کچھ بھی ایسے مواقع پر ہوا، اس کا گہرائی اور گیرائی سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا ردعمل یہ نہیں ہوسکتا کہ اب کشمیر کا بچہ بچہ خودکش بمبار بنے گا، اگر ایسی نوبت آئی بھی تو اس جانبازی کے سود وزیاں کا دیانتداری سے احاطہ کرنا ایک قومی فریضہ ہوگا۔
………………….
بشکریہ: ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر