دفعہ35-اے پر مرکز خاموشی توڑدے

آئین کی دفعہ 35-اے پر پائے جارہے تذبذب اور افراتفری کے عالم نے نہ صرف وادی کشمیر بلکہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب کے لوگوں کو بھی بے چین کررکھاہے اور اس دفعہ پر مرکز کی طرف سے اختیار کی گئی گومگو کی پالیسی کے نتیجہ میں اب تک پرامن رہنے والے ان دونوں خطوں سے شدیدعوامی رد عمل سامنے آنے کا اندیشہ ہے ۔اس آئینی دفعہ کے ساتھ ریاستی عوام کے جذبات جڑے ہوئے ہیںا ور یہی وجہ ہے کہ پیر کے روز سرحدی ضلع پونچھ میں بھی اس معاملے پر افراتفری دیکھی گئی اور جہاں منڈی اور سرنکوٹ قصبے و ملحقہ علاقہ جات بند رہے وہیں دفعہ 144کے نفاذ کے باوجود احتجاجی مظاہرے کئے گئے جبکہ انتظامیہ کو ضلع کے تمام کالج بند کرنے پڑے اور قصبہ مینڈھر میں فوج، پولیس اورپیرا ملٹری فورسزکی گشت کروائی گئی جس سے عوام میں مزید سراسیمگی اور خوف پید اہوا۔اسی طرح سے راجوری میں بھی طرح طرح کی افواہیں گشت کرتی رہیں اور پولیس نے دفعہ 35-Aکے حق میں احتجاج کررہے نوجوانوں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی ۔وہیں خطہ چناب کے بانہال سمیت کئی علاقوں میں اس معاملے پر کئی مرتبہ پرامن بند رکھاجاچکاہے ۔دفعہ 35-A کے تعلق سے سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر ایسے وقت میں سماعت ہورہی ہے جب پہلے سے ہی پلوامہ فدائین حملے اور اس کے بعد رونما ہونے والی صورتحال سے حالات کشیدہ بنے ہوئے ہیں اور افواہوں کا بازار گرم ہے۔ایسے میں سرحدوں پر ہندوپاک کشیدگی بھی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے اور لوگوں کو عدم تحفظ اور شناخت مٹ جانے کا خوف لاحق ہے۔ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی تشخص فراہم کرنے والی دفعہ 370اوراس کی شق35-A پر جب بھی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی یا سماعت کیلئے تاریخ مقرر ہوئی تو اس وقت وادی کشمیر کے ساتھ ساتھ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب میں کشیدگی پیدا ہوئی کیونکہیہ ایسا معاملہ ہے جس کے ساتھ عوام کے جذبات جڑےہوئے ہیں اور اس کے دفاع کیلئے عوامی و سیاسی حلقے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔اگر چہ کشمیر مرکوز سیاسی جماعتیں اس کے دفاع میں متفق ہیں لیکن بدقسمتی سے یہ معاملہ کچھ سیاسی جماعتوں کیلئے دہائیوں سے الیکشن کا نعرہ بھی بنا رہاہے اور مرکزی حکومت نے اس پر مکمل طور پر خاموشی اختیار کررکھی ہے ۔اگرچہ کئی سیاسی جماعتوں کی طرف سے مرکز سے اس دفعہ کے معاملے پر اس کا مؤقف واضح کرنے کیلئے کہاگیا لیکن اس پرابھی تک اس کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا،جس سے بھی عوامی و سیاسی سطح پر بے چینی اور خدشات کو تقویت مل رہی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرے اور ریاست کے خصوصی تشخص کے تحفظ کی خاطر فوری اور تمام تر لازمی اقدامات کئے جائیں ،جس سے نہ صرف خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب سمیت ریاست میں پایاجارہا تذبذب ختم ہوسکے گابلکہ لوگ معمول کے مطابق اپنے روز مرہ کے کام کاج انجام دے سکیں گے ،پھر نہ ہی انتظامیہ کو دفعہ 144نافذ کرناپڑے اور نہ ہی تعلیمی ادارے بند رکھنے پڑیں گے اور نہ پولیس کیلئے نوجوانوں کی گرفتاریاں کرنے کی نوبت آئے گی۔ملک کی عدالت عظمیٰ سے اس حوالے سے کیا فیصلہ آتاہے یہ تو وقت بتائے گالیکن مرکز ی سرکار کو عوام میں پائی جارہی بے چینی اور سراسیمگی کو ختم کرنے کیلئے لازمی اقدامات کرنے ہوں گے کیونکہ اس کی مسلسل خاموشی کے سبب ہی لوگ فکر مند ہیں۔