دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ لمحہ فکریہ

قیصر محمود عراقی
اسلام میں دعا کی بہت بڑی فضیلت و اہمیت آئی ہے ، لیکن عام طور پر لوگ دعا کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں جہرکے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر لمبی لمبی دعائیں ضرور پڑھی جاتیں ہیں اور بڑے بڑے اجتماعات اور جلسوں میں بھی کثرتِ دعا کی گونج سنائی دیتی ہے، مگر قبولیت نام کی چیز نظر نہیں آتی ۔ بات در اصل یہ ہے کہ دعا کے آداب کیا ہیں اور اس کی قبولیت کی شرائط کیا ہیں ؟ ان باتوں کو جاننے میں لوگوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف الفاظ کی رٹ لگانے کو دعا سمجھتے ہیں ، یہی وجہ ہے اور سچ بھی یہی ہے کہ اس طرح کی تمام دعائیں اللہ کے نزدیک قبولیت حاصل نہیں کرپاتی ہیںاور بے اثر ،بے نتیجہ ثابت ہوتی ہیں ۔ قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ کے گہرے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ہی لوگوں کی دعائوں کو قبول کرتا ہے اور بن مانگے بھی دیتا ہے جو اس کے احکام پر پابندی سے عمل کرتے ہیں اور اس کی آخری کتاب قرآن مجید کو پڑھتے ہیں اور اس کی آیات پر غور وفکر کرتے ہیں ، اگر ایسے لوگوں کو دعا مانگنے کا موقع نہ بھی مل پائے ، تب بھی اللہ تعالیٰ ان کو دعا مانگیں والوں سے بھی زیادہ دیتا ہے۔ اس سلسلہ میں انتہائی غور طلب حدیث اس طرح آئی ہے ’’حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے،’ ’جو شخص قرآن میں اس قدر مشغول ہوجائے کہ وہ میری یاد کے لئے الگ سے وقت نہ نکال سکے اور مجھ سے اپنی حاجت نہ طلب کرسکے تو میں مانگے والوں کو جتنا دیتا ہوں، اس سے زیادہ اس کو دونگا، نیز اللہ کے کلام کا درجہ دنیا کے تمام کلاموں کے مقابلے میں ایسے ہی بلند ہیں جیسے کہ خود اللہ کا درجہ اس کی مخلوق کے مقابلے میں ہے۔‘‘(ترمذی شریف) ۔ دین کی حقیقت اللہ کی یاد اور اس کے بندے کی طلب کا نام ہے، قرآن نے ان دو چیزوں کی طرف رہنما ئی کی ہے ۔ اصل میں سورۃ فاتحہ بندہ مومن کی دعا ہے، دنیا واخرت کی کوئی طلب ایسی نہیں ہے جو ایک بندہ مومن اللہ سے طلب کرسکتا ہے اور قرآن میں اس کا ذکر نہ ہو، بلکہ وہ انسان کے جذبات واحساسات کی پوری تسکین پاتا ہے اور اس کا وجود سراپا دعا بن جاتا ہے ، ایسا آدمی خواہ اپنی کوئی ضرورت الگ سے طلب کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا ذریعہ مانگوکیوں کہ اللہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔
کوئی طالب علم کبھی محض دعا سے ڈاکٹر یا انجینئر کیا بن سکتا ہے؟ کیا بغیر اینٹوں اور سریے کے صرف دعا سے گھر تعمیر ہوجاتے ہیں ؟ اگر دعائوں سے تقدیر بدلتی تو سیرت مطہرہ سے اسی کا سبق ملتا ہے کہ دعاو وظائف کرتے رہیں یا چلہ کاٹتے رہیں۔ تاریخ یہ بھی بتاتی ہے کہ جنگ کا فیصلہ سپاہیوں کی تعداد اور سامان رسد دیکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ جنگ کا فیصلہ دشمن کے ناپاک ارادے کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ تاریخ میں جنگیں ہتھیاروں سے کم ہی جیتی گئی ہے ، کوئی بھی جنگ دعائوں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ حوصلے سے لڑی جاتی ہے۔ رہا سوال دعائوں کا ، تو دعا مومن کا ہتھیار ہے ،نام کے مسلمانوں کا نہیں ۔ دعا مومن کی قبول ہوتی ہے نام کے مسلمانوں کی نہیں ۔
 آج کا مسلمان صرف اور صرف یا تو احتجاج کرتا ہے یا تو پھر نیاز کرتا ہے لیکن نماز نہیں پڑھتا اور اگر پڑھتا بھی ہے تو رسماً، یعنی نماز کوعبادت سمجھ کر نہیں پڑھتا بلکہ ایک رسم سمجھ کر پڑھتا ہے، چاہے وہ منبر پر کھڑے ہوکر قرآن کی تلاوت کرنے والا مولوی ہو یا مصلے پر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے والے مقتدی ہو ں، یہ لوگ جتنی بھی دعائیں کرلیں ان کی دعا قبولیت کے مقام تک پہنچ ہی نہیں سکتی کیوں کہ قبولیت ِ دعا کے لئے ضروری ہے آدمی کا کھانا پینا اور اس کا لباس حلال کمائی کا ہو، ورنہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایسی دعا کی قبولیت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سلسلہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہؓسے ایک طویل حدیث مروی ہے ، جس کے آخری حصہ میں پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ دعا کے حوالے سے یہ قابل غور ارشاد فرماتے ہیں: آپؐ نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا : جو لمبا سفر کرتا ہے ، جس کے بال غبار آلود ہیں، وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھاکر کہتا ہے ،اے میرے رب !اے میرے رب !!حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے ، اس کی غذا حرام ہے، اس کا لباس حرام ہے تو اس صورت میں اس کی دعا کیوں کر قبول ہوئی ۔آج کل مسلمان چاہے مسجد ہو ، گھر ہو ، بازار ہو یا مزار ہو،ہر جگہ انفرادی واجتماعی دعائیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں اور ہماری مشکلیں دور نہیں ہورہی ہیں۔
اصل یہ کہ دعائیں کیسے قبول ہوں اور مشکلیں کیسے دور ہوں؟ جبکہ لوگ جو کھا پی رہے ہیں وہ سب حرام کی کمائی کا ہے، وہ نہ خود حرام کاموں سے باز آتے اور نہ دوسروں کو ان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں کی کثرت سے جب مصیبتیں آتی ہے اور جب مشکلیں دامن گیر ہوجاتی ہیں تو اس وقت اللہ کے نیک بندوں کی بھی دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ سود خور ، رشوت خور، بد عنوان، لوٹ گھسوٹ کرنے والوں کا ، اپنے بھائی کا حق مارنے والوں کا ، یتیموں کے مال کو کھانے والوں کا، مساجد کے چندے میں خرد برد کرنے والوں کا ،تعویذبیچ کر روپیہ کمانے والوں کا ، دو کلمہ گو مسلمان بھائی کو لڑانے والوں کا اور ملاوٹی چیزوں کی خرید وفروخت کرنے والوں کا بازار گرم ہے، اس صورتِ حال میں مشکلوں اور مصیبتوں سے چھٹکارا پانے کیلئے اپنی اصلاح کے بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کے لئے محض ہاتھ اٹھانا ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں اور یہ مذاق ہی تو ہے کہ مسجد کا مقتدی ہو یا کہ امام جس مصلے پر کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے ہیں، اسی مصلے پر نماز کے بعد بیٹھ کر رَن کی ، وکٹ کی ،کرکٹ میچ میںکسی ٹیم کی  جیت اور کسی ٹیم کی ہار کی بات کرتے ہیں۔ اب بھلا بتائیں ان حالات میں کیا خاک دعا قبول ہوگی ۔
اخیر میں میں مسلمانوں سے گذارش کرتا ہوں ، خواہ وجوان ہو ںیا بوڑھے ، خدا کے واسطے اللہ کا حکم ماننے والے بن جائیں ، رسول اکرمؐ کے راستے پر چلنے والے بن جائیں ، قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور اس کی ایک ایک آیت کا اثر لینے والے بن جائیں ، پھر دیکھیں آپ کی دعا کس طرح قبول ہوتی ہے۔ جس دن خدا کے احکام خوشنودی کے ساتھ ادا کئے جائینگے، جس دن رسولؐ کی شریعت پر چلیں گے، اُس دن آپ سب کی دعا اس طرح قبول ہوگی ۔ لیکن آج ہم ان تمام چیزوں کو فراموش کرچکے ہیں، نماز سے غافل ہیں ، قرآن پاک کو طاقوں پر سجا رکھا ہے ، زکوۃ ادا کرنے میں ڈنڈی مارتے ہیں ۔ ہماری مسجدوں سے حضرت بلالؓ کی طرز پر اذان دینے کی بجائے اپنی آوازکا جادوں جگایا جاتا ہے، نماز نبی ؐ کے طریقے پر پڑھنے کے بجائے مسلکی مولوی یا پھر کسی بزرگ ہستی کے طریقے پر پڑھتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرکے اپنے دل پر اثر لینے اور اس کی ایک ایک آیت کے مفہوم کو سمجھ کر ہدایت پانے کے بجائے قرآن کی قرأت کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اب بھلا بتائیں قرآن پاک تلاوت کیلئے ، ہدایت کیلئے آیا ہے نہ کہ مقابلہ بازی کرنے کیلئے ۔ بہر حال جب تک مسجدوں سے حضرت بلال ؓ کی طرز پر اذان ادا نہیں ہوگی ، حضوراکرمؐ کے طریقے پر نماز نہیں پڑھی جائیگی اور عقیدہ صحابہ کرامؓ والی نہیں ہوگی تب تک دعائیں قبول نہیں ہونگی۔ اپنے گھر کے قریب مسجد سے دن بھر میں ۵بار اللہ کا منادی (موذن) آپ کو اللہ کے گھر میں آنے کی دعوت دے رہا ہوتا ہے ، آپ کیوں نہیں جاتے؟ آپ چائے خانے میں وقت گذارتے ، بازاروں میں ٹائم پاس کرتے ہو، مزاروں پر جاکر الٹے سیدھے کام کرتے ہو، سوچو ذرا سوچو، اللہ کے گھر سے زیادہ دنیا میں کوئی ایسا گھر سکون والا نہیں ہے ، نہ امیروں کا محل ہے ، نہ ہی غریب کی چھونپڑی ، نہ بازار ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا مزار ، سکون اور صرف سکون اگر ہے تو صرف اور صرف اللہ کے گھر میں ہے۔ مسجد کی ویرانیاں آباد ہونے کیلئے تمہیں پکار رہی ہے، کب اپنے اپنے علاقے کی مسجد کی ویرانی کو آباد کروگے ، کب خدا کی بارگاہ میں سر جھکانے والے بنوگے۔یہی وقت ہے دنیا سے رشتہ توڑ کر اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھام لو اور سجادو اپنی اپنی مسجدوں کو اپنے جبینوں سے ، جھک جائو اس ر ب کائنات کے آگے جس نے ساری دنیا کو بنایا ، تھام لو اس کی ڈور کو مضبوطی سے ، خدا کی قسم پھر تمہیں دنیا کی طاقت ہرا نہیں سکتی اور نہ ہی تم پر حاوی ہوسکتی ہے۔ پھر تمہیں کسی بھی چیز کیلئے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ بن مانگے بھی تمہاری دعا قبول ہوگی کیوں کہ اللہ وہی دعا قبول کرتا ہے تو خالص ایمانداری کے ساتھ دعا کی جائے۔
موبائل:6291697668
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)