دستک کی آواز سننے کے بعد جب میں گیٹ سے باہر آگیا تو ایک بزرگ آبدیدہ اور انکساربھری آنکھوں سے مجھے گھوررہاتھا۔ جتنی انکساری اس کے لہجے اور نظروں سے جھلک رہی تھی اس سے کہیں زیادہ نور اسکی سفید داڑھی سے برس رہا تھا۔
’’بابا کیا چاہیے؟ ‘‘میں نے سوالیہ انداز میں اس بزرگ سے پوچھا ۔
’’بیٹا پچاس روپیے چاہئیں‘‘۔ اس نے نرم اور بزرگانہ لہجے میں جواب دیا۔
والد صاحب اندر بستر مرگ پر مہینوں سے پڑے تھے اور اپنے وداعی انفاس کو گن رہے تھے۔ میں نے موقعے کی مناسبت سے جلدی اندر سے حسب استطاعت کچھ زیادہ ہی پیسے لائے تاکہ والد صاحب کی شفایابی کے لئے دعا کراسکوں۔
’’یہ لو بابا ‘‘میں نے ہاتھ آگے کرتے ہوئے اُسے "سو '' کا نوٹ تھمانا چاہا۔
"نہیں بیٹا "سو" نہیں بس پچاس ہی کافی ہیں" اُس نے نفی میں سر ہلاکر جواب دیا۔
میں متحیر اور پتھرائی نگاہوں سے اسے دیکھنے لگااور میرے اندر اضطراری کیفیت سی ابھرنا شروع ہوئی۔
’’بابا میرے والد صاحب کی شفا یابی کے لئے دعا کریں‘‘میں بڑی انکساری کے ساتھ دھیمے لہجے میں کہنے لگا۔
میری اس درخواست کے بعد بابا نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اُٹھائے اور کہا۔’’اللہ نے انہیں ایمان بخش دے‘‘
اس دعا کے بعد میں نے کہا ’’بابا یہاں ایک دو اور لوگ ہیں جو تمہاری معاونت کرسکتے ہیں۔‘‘
’’بیٹا یہ کافی ہے‘‘
اس جواب سے میرے ذہن میں تجسس کی لہر دوڑ گئی اور خود سے سوچنے لگا کہ ’’عجیب بھکاری ہے ۔۔؟؟؟ـ‘‘
اس کے بعد بھکاری مکان کی پچھلی گلی کی طرف دھبے پائوں نکلنے لگا اور میں دروازہ بند کرکے اندر چلا آیااورمیں جونہی والد صاحب کے کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ والد صاحب کی گردن ایک طرف لڑھک گئی ہے اور ماں والدصاحب کے غم ہجر میں دم بخود ہیں۔ یہ سارا منظر دیکھ کر میرے جیسے حواس باختہ ہو گیے ہوں۔ میں جلدی جلدی واپس بابا کو دیکھنے گیا کہ شاید وہ وہیں دروازے پہ ہی ہو۔ مگر دور دورتک ڈھونڈنے کے بعد اس سنسان گلی میں میری نظریں نامراد ہوکے لوٹیں اور وہ دستک کی آواز بھی اسی شخص کے ساتھ چلی گئی ۔۔۔!!!
���
ریسرچ اسکالر ،سینٹرل یونیورسٹی کشمیر
موبائل نمبر؛7889820637