اشفاق سعید
سرینگر //جہلم وادی کشمیر کا اہم آبی گزرگاہ ہے۔ دریائے جہلم ایک شاندار چشمے سے نکلتا ہے جسے “چشمہ ویرناگ” کہا جاتا ہے۔ جہلم کی اوڑی میںلائن آف کنٹرول تک کی لمبائی تقریباً 165 کلومیٹر ہے۔ اسکا وادی میںتقریباً 17622 مربع کلو میٹرکیچمنٹ ایریا ہے۔جہلم کا پانی انتہائی درجہ تک آلودہ ہونے کی وجوہات میں وہ بھی ہیں جو اسکے ساتھ ملتی ہیں۔یوں کہا جائے کہ دریائے جہلم وادی کی ساری گندگی اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے اور وادی کے شمال جنوب کو خوبصورت رکھتا ہے۔ایک درجن سے زائد چھوٹے بڑے نالے اور دریا، جہلم میں گم ہو کر اپنا وجود کھو دیتے ہیں اور جہلم ان نالوں صاف رکھ کر اپنے وجود کو خطرے میں ڈالتا رہا ہے۔جہلم نے وادی کے ندی نالوں کو صاف رکھ کر خود کر میلا کردیا ہے۔وادی بھر میں جو گندگی نکلتی ہے، یا جو ٹھوس فضلہ، پالی تھین یا پلاسٹک، کھادوں اور جراثیم کش ادویات کا پانی خارج ہوتا ہے وہ سب جہلم کی نذر ہوجاتا ہے۔اسکے علاوہ ایک درجن بڑے نالے اور چھوٹی ندیاں اپنے ساتھ سینکڑوں ٹن کوڑا کرکٹ لاتے ہیں،جو جہلم کے پانیوں میں گم ہوجاتا ہے۔ماہرین ارضیات کے مطابق دریائے جہلم کی گہرائی گذشتہ 50برسوں میں 20فٹ کم ہوگئی ہے۔انکا کہنا ہے کہپہلے بہت کم سیلاب آتے تھے یا کبھی زیادہ بارش سے سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی تھی لیکن اب اگر 24یا 36گھنٹے تک بارشیں ہوں تو سیلابی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ماہرین نے کہا کہ وادی کے ندی نالوں میں ہر روز ایک کوئنٹل پالی تھیں ، پلاسٹک اور دیگر ٹھوس فضلہ دریائے جہلم میںگرتا ہے۔انکا کہنا ہے کہ اس سے ندی نالوں کی گہرائی بھی شدید طور پر متاثر ہوئی اور ہورہی ہے نیز دریائے جہلم، جو وادی کا واحد پانی کا مرکز ہے، کی گہرائی بھی تشویشناک حد تک کم ہورہی ہے۔ معروف سائنسدان اور ماہر ارضیات شکیل احمد رومشو کے مطابقوادی میں قدرتی آبی پناہ گاہوںکا رقبہ 1911 میں 13,425.90 ہیکٹر سے کم ہو کر 2004 میں 6407.14 ہیکٹر رہ گیا ہے،گذشتہ 95 برسوں میں 7018 ہیکٹر کا نقصان ہوگیا ہے۔ مجموعی طور پر بڑے آبی علاقوں کا کل رقبہ 1972 میں 288.06 کلومیٹر سے کم ہو کر 2013 میں 266.45 کلومیٹررہ گیا ہے ۔ اسی طرح وولر کے کھلے پانی کا رقبہ 1911 میں 89.59 کلومیٹر سے کم ہو کر 2013 میں 15.73 کلومیٹررہ گیا ہے، اور جھیل کا کل رقبہ 1911 میں 157.7 کلومیٹر سے 45% کم ہو کر 2007 میں 86.71 کلومیٹر رہ گیا ہے۔ ڈل جھیل کا رقبہ پندرہویں صدی عیسوی میں 76 کلومیٹر سے کم ہو کر انیسویں صدی سال 2000میں 25.6 کلومیٹررہ گیا ہے۔ ڈل کی کھلی سطح کا رقبہ 1911 میں 27.53 کلومیٹر سے کم ہو کر 2013 میں 24.21 کلومیٹر 2 رہ گیاہے۔ڈاکٹر رومشو کے مطابق وہ علاقہ جو یا تو جہلم کا قدرتی راستہ ہوا کرتا تھا یا کسی ویٹ لینڈ یا جھیل کا حصہ ہوتا تھا، اس پر انسانوں نے قبضہ کر رکھا ہے، جس نے آفات کے خطرے کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ زمین کے استعمال میں ہونے والی تبدیلیوں کا کسی خطے کے جغرافیہ پر خاصا اثر پڑتا ہے، اور پچھلے 50 سالوں کے دوران، شہر کے جنوب میں، وادی میں، چھتوں، فرشوں اور سیمنٹ سے ڈھکی ہوئی غیر محفوظ زمین میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ شہری پھیلا ئو 1992 میں 34% سے بڑھ کر 2010 میں 65% سے زیادہ بڑھ گیا ہے۔ بارش کا پانی، مٹی میں جذب ہونے کے بجائے، ندی میں اپنا راستہ تلاش کرتا ہے، اور سیلاب کا خطرہ بڑھاتا ہے۔ دریائے جہلم کیساتھ وادی میں نالہ ویشو، رومشی، رمبی آراہ،آری پل، وتہ لار، دودھ گنگا، سکھ ناگ،لدر،فیروز پورہ،سندھ،پہرو،ننگلی، ونگی،سندرن،برنگی،آری پتھ ارن،مدھومتی ملتے ہیں۔بنیاری حاجن کے مقام پر شادی پورہ سے 20 کلومیٹردریا ولر جھیلوں کے پانی کے ساتھ مل جاتا ہے۔کھانیار میں دریائے جہلم کی گھاٹی کا اختتام ہوتا ہے اور ندی کے نیچے 26 کلومیٹر کے رقبے میں وولر جھیل سے کھادنیار تک تیزی سے موڑ لیتا ہے۔