سرینگر جموں شاہراہ پر ٹریفک کی آمد ور فت بند ہونے کے بہ سبب ہزاروں کی تعداد میں جموں اور دہلی میں درماندہ مسافروں کی حالت ِ زار دن بہ دن بگڑتی جارہی ہے۔ سڑک بند ہونے کی صورت میں مسافروں کے پاس ہوائی سفر کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا لیکن فضائی کمپنیوں نے موقع کا ناجائز فائدہ اٹھا کر لوگوں کی چمڑی اُدھیڑنے میں کوئی کسر اُٹھائے نہیں رکھی ہے، کیونکہ سفر کے کرایہ میں جس عنوان سے متواتر اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، اُسکے چلتے ایک عام شخص کے لئے ہوائی سفر کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے۔ دوسری جانب حکومت نے فضائی کمپنیوں کی طرف سے لوگوں کو دن دہاڑے لوٹنے کی کاروائی پر کسی قسم کی قدغن لگانے کے حوالےسے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں، حالانکہ گزشتہ کئی دنوں سے عام لوگوں اور سماجی اداروں کی جانب سے ریاستی انتظامیہ پر بار بار یہ بات باور کی جارہی ہے کہ فضائی کمپنیوں کی طرف سے مچائی جانے والی لوٹ پر قدغن لگانے کےلئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں۔ اگر چہ ریاستی گورنر نے گزشتہ ہفتہ وزیراعظم کے سامنے فضائی کمپنیوں کی طرف سے لوٹ مچائے جانے کا شکوہ کیا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق مرکزی سرکار نےا س حوالے کسی مثبت ردعمل کا اظہار کرنے کے بجائے یہ دعویٰ پیش کیا ہے کہ ہوائی جہازوں کے کرائے متعین کرنے پر انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، کیونکہ بقول ان کے سال1994میں ائر کارپوریشن ایکٹ کی منسوخی کے بعد حکومت کے پاس صوابدیدی اختیارات باقی نہیں رہے۔ فضائی کمپنیاں کرایہ کا تعین طلب اور رسد کی بنیاد پر کرتی ہیں، جسکا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ٹکٹ کے طلبگاروں کی تعداد میں اضافہ کے ساتھ ہی کرایہ کی شرح میں اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ مجموعی انداز سے اگر چہ یہ دیکھا جائے تو یہ ایک یکطرفہ قاعدہ ہے ، جو صرف فضائی کمپنیوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور مسافروں کی جبیں ہلکی کرنے کا باعث بنتا ہے ۔ اس صورتحال سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کسی بھی ایمر جنسی میں جب عام انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلاء ہوں ،ا س قاعدے اور طریقۂ کار سے انکی مشکلات اور مصائب میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر اسے یکطرفہ اور ایک مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے والا طریقہ ٔ کار قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ موجودہ صورتحال میں درماندہ مسافروں کو جان و تن کا رابطہ قائم رکھنے کےلئے پیٹ بھرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو کیا وہ اس سماجی طور پر جارحانہ قاعدے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ یہ ریاستی حکومت کے لئے سمجھنے کی بات ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ ایمر جنسی کی صورتحال سے نمٹنے کےلئے ایمر جنسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، لہٰذا موجودہ صورتحال سے نمٹنے کےلئے ایک ہنگامی طریقہ ٔ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، جس کےلئے ریاستی حکومت کو مکمل اختیارات حاصل ہیں۔ حکومت جس طرح ضروری خدمات کو ممکن بنانے کےلئے لازمی خدمات کے قانون کا سہارا لیتی ہے، کیا فضائی کرایوں کو اعتدال پر لانے کےلئے اس قانون کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے؟۔ کیا حکومت درماندہ مسافروں کی مشکلات اور مصائب کو مدنظر رکھتے ہوئے فضائی کرایہ پر لاگو کئے جانے والے ٹیکسوں میں تخفیف نہیں کرسکتی، جو کرایوں کی شرح میں کمی کا ایک سبب بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر حکومت کی جانب سے فضائی کمپنیوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہے، جو بالآخر انکے خزانے بھرنے کا سبب بنتا ہے، کیا موجودہ حالات میں ان کمپنیوں کے ساتھ رابطہ کرکے انہیں ہنگامی صورتحال کا احساس دلا کر کرایوں میں کمی لانے کی صورت تلاش نہیں کی جاسکتی؟، اور تو اور کیا حکومت بھاری پیمانے پر ٹکٹیں خرید کر انہیں معقول داموں پر درماندگان میں فروخت کرنے کا قدم نہیں اُٹھاسکتی؟۔ یہ ایسے نکات ہیں جو حکومت کے بس میں ہیں اور جنہیں حکومت اختیار کرکے لوگوںکو سہولیات فراہم کرکے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوسکتی ہے۔ کیا حکومت ایسا کوئی قدم اٹھائے گی، یہ دیکھنے کی بات ہوگی؟ اور اگر درماندگان کو راحت پہنچانے کے بارے میں حکومت راست اقدام کرتی ہےتو اُسے تمام حلقوں کی طرف سے سراہا جائے گا اور یہ احساس بھی بیدار ہوگا کہ سرکار عام لوگوں کی ضروریات کے تئیں سنجیدہ ہے۔