دانائے راز

اقبال ؔ کو نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئی سلطان احمد شہباز صدیقی صاحب کہتے ہیں   ؎
تیرے فن کے روبرو باطل ہے سحر سامری
جزو ہے پیغمبری کا تیری کامل شاعری
شاعران ِ دہر میں رکھتا ہے تو اعلیٰ مقام
اپنے ہم عصروں میں حاصل ہے تجھے شان امام
مرحبا فکر ونظر کا شعر میں یہ اہتمام 
انفرادی ہے تیرا طرز نگارش لاکلام
جب کھلاتی گل مضمون تیری شاخ قلم
صفحہ ٔ قرطاس بن جاتا ہے گلزار ارم
ہوتے ہی پیدا صریرخامہ جادورقم
جاگ اٹھتے ہیں معانی چھوڑ کر خواب عدم
اللہ اللہ یہ اثر اعجاز کا تحریر میں
روح ہوجاتی ہے رقصاں  پیکر تصویر میں 
غیرت ارژنگ معانی تیرا ہر دیوان ہے
نقش گوناگوں کے جلووں سے نگارستان  ہے
ہر ورق کے رنگ کا قوس قزح عنوان ہے
کہکشاں ہر سطر کی تنویر پر قربان ہے
زینت  ہر لفظ سے حسن گلستان دنگ ہے
مشک بُو  ہر حرف ہے،  ہر  نقطہ عنبر رنگ  ہے
اہل حکمت سے الگ ہے، راستہ یکسر تیرا
اُن کی منزل دوسری ہے مرحلہ دیگر تیرا 
پائیں وہ عرفان حق میں، مرتبہ کیونکر تیرا
عقل ان کی رہنما ہے، عشق ہے رہبر تیرا
عقل رہ جاتی ہے پھنس کر ہر بلند وپست میں
عشق منزل پر پہنچ جاتا ہے صرف اک جست میں
ترکِ دنیا کو بتایا جس نے یزداں کی رضا
اختلاف سخت  تجھ کو اس مفکر سے رہا
طعنہ تو نے گو سفندی کا فلاطوںؔ کو  دیا
حافظؔ شیرازی سے اظہار بیزاری کیا
مرشد ِ رومی  ؔکو لیکن پا کے اپنا ہم خیال
صدق دل سے ان کا پیرو ہو گیا ہے بے قیل وقال
آذرؔ مغرب کا وہ بت نام ہے جس کا  وطن
قوم سے تو نے کہا  دیکھے،  جو اس کے مکر وفن
دور بھاگ اس دیو سے امت فخر زمن
خلعت رنگیں ہے اس کا  تیرے مذہب کا کفن
پارہ پارہ نوع  انسانی کو کردیتا ہےیہ
نقش وحدت میں دوئی کا بھر دیتا  ہے یہ
ہے کلام حضرت اقبال وہ آب بقا
قلب مردہ کو جو کرتا ہے حیات نو عطا
مجھ سے ہوسکتا ہے ان کی مدح کا کب حق ادا 
میں تو کہہ سکتا نہیں شہباز کچھ اس کے سوا
مان لے دل سے اگر وہ فلسفہ اقبال کا
قوم کو مل جائے پھر وہ دولت کدہ اقبال کا
جس زندگی پر موت آئی ہو اس پر اس دنیا میں زندگی کا دوبارہ آنا ممکن نہیں، اس لئے مندرجہ بالا اشعار میں شاعر کلام اقبال سے جہاں قلب ِمردہ میں نئی زندگی آنے کی بات کرتا ہے تو وہ خارج از امکان ہے۔ جیسا کہ ابوجہل کا دل مردہ ہوچکا تھا تو قران سے بھی اس پر نئی زندگی نہیں آئی۔ ہاں، یہ ضرور ہے کہ شاعر کا یہاں قلب ِمردہ سے سویا ہوا دل مراد ہو کیونکہ نیند بھی موت کی جیسی ہی ایک کیفیت ہے اور قرآن بھی ایسا ہی کہتا ہے۔ اسی لئے جن کے دل سوئے تھے وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن کر جاگ گئے اور اسلام قبول کرلیا۔ جو مردہ تھے وہ قرآن سن کر بھی زندہ نہ ہوسکے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہوگی کہ حدیث بھی وحی ہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کا حکم ہے جب کہ احادیث کی تلاوت کا حکم نہیں۔سیرت اقبال میں درج ہے کہ ایک دفعہ بلوچیوں کا وفد علامہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مختلف سیاسی معاملات پر دیر تک گفت و شنید ہوتی رہی۔ وفد کے ایک ممبر نے کہا کہ آپ کی تعلیمات نے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کردیا لیکن یہی شکایت ہے کہ آپ نے نمونہ عمل پیش نہیں کیا۔علامہ نے جواب دیا: کیا یہ میرا عمل نہیں ہے کہ میں نے قوم کو بیدار کردیا ہے اور تمہارے سامنے عمل کی شاہراہ پیش کردی ہے؟ پھر فرمایا: دنیا میں جلیل القدر انبیاء ؑکے سوا اور کوئی مثال نہیں کہ کسی شخص نے خود ہی کوئی اصولی نظریہ قائم کیا ہو اور خود ہی اس پر عمل کرکے دکھایا ہو۔
 خیرکہیں پہ پڑھا ہے کہ ایک دفعہ ایک دوست اور محب نے اقبال سے پوچھا: حضرت اردو کا کوئی شعر جسے آپ کامیاب شعر سمجھتے ہوں یا جو آپ کو بہت پسند ہو، فرمایئے۔ علامہ نے قدرے توقف کے بعد فرمایا: بہت کم اردو اشعار میرے ذہن میں ہیں اور یوں بھی شاید دل پر گہرا اثر چھوڑنے والے اشعار اردو میں کم ہیں۔ تم شعر سناتے جاؤ، جو شعر پسند ہوگا کہہ دوں گا۔                                                    
اقبال کے یہ محب فرماتے ہیں کہ میں فکر میں غرق ہوا۔ لیکن ابھی کچھ کہنے نہ پایا تھا کہ آپ نے پوچھا یہ کس کا شعر ہے ؟   ؎
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے    
زندگی یوں ہی تمام ہوتی ہے                                
  میں نے عرض کی غالباً داغ کا ہے۔ فرمایا غالباً داغ کا نہیں، لیکن اچھا شعر ہے، ہر لحاظ سے کامیاب۔ شاعر نے ایک نقطہ ٔ  نظر کو چیدہ الفاظ میں اور مکمل طور پر بیان کردیا ہے۔ یہ نقطۂ نظر مشرق میں عام ہے۔ مختلف شعرا نے مختلف پیرائیوں میں یہی خیال ظاہر کیا ہے۔ غالباً ان تمام اشعار میں سے یہ بہترین شعر ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر شاعر بلکہ جملہ قوم کی نفسیاتی کیفیت کا مظہر ہے۔ شاعر وقت کے سیلاب کے سامنے اپنے آپ کو بے حقیقت تصور کرتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ دن اور رات کے ایاب وذہاب پر اس کی شخصیت مطلقاً اثر انداز نہیں ہوسکتی۔ وہ زمان کو محض دن اور رات کا تسلسل سمجھتا ہے، حصول ِمدعا، کارکردگی اور جدوجہد کا ذریعہ نہیں سمجھتا۔ وہ وقت کے دھارے پر ایک تنکا ہے جسے موجیں ادھر اودھر جدھر چاہتی ہیں پٹخ دیتی ہیں، وہ ان موجوں کے خلاف نبردآزمائی نہیں کرتا، انہیں راہ پر نہیں لاتا، لانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، کوشش کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتا۔ 'صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے، یہ احساس اس قوم یا اس قوم کے کسی فرد کا ہے جو سیلِ زمانہ کے سامنے اپنی بے بسی کا معترف ہے۔ معترف ہی نہیں، کامل طور پر آگاہ ہے۔ اس حد تک آگاہ ہے کہ اپنی بے بسی کو قانون قدرت کا جزو سمجھتا ہے۔ بر عکس اس کے جدوجہد کرنے والی اقوام کی صبح ہوتی نہیں، وہ گویا صبح کرتی ہیں۔ وہ وقت کو دن اور رات اور مہینے اور سال کے پیمانے سے نہیں ناپتیں بلکہ سعی اور حصول کے پیمانے سے ناپتی ہیں۔ یہ سب کچھ ہے لیکن یہ شعر اچھا ہے کیونکہ جس خیال کو شاعر ادا کرنا چاہتا تھا، اس خیال کو اس نے موثر طریقے سے ادا کردیا ہے۔ ’’ سیل زمانہ کے سامنے انسانی بے بسی‘‘ اس موضوع پر یہ بہت اچھا شعر ہے  اقبال فرماتے ہیں؎                                                                                   
وہی  ہے صاحب ِامروز  جس  نے  اپنی ہمت سے 
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فردا
رہے ہیں، اور ہیں فرعون میری گھات میں اب تک
مگر کیا غم کہ میری آستیں  میں ہے یدِ بیضا
وہ چنگاری خس و خاشاک سے کس طرح دب جائے
جسےحق نے کیا ہو نیستاں کے واسطے پیدا
وہ  دانائے سُبل، ختم الرُّسل، مولائے کُلؐ جس نے
غُبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
نگاہِ عشق ومستی میں وہی اوّل، وہی آخر
وہی قُرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسیں، وہی  طٰہٰ
ایک اور جگہ فرماتے ہیں   ؎
حضور حق میں اسرافیل نے میری شکایت کی
یہ بندہ وقت سے پہلے قیامت کر نہ دے  برپا
ندا آئی کہ آشوب قیامت سے یہ کیا کم ہے
'گرفتہ  چینیاں احرام ومکی خفتہ در بطحا
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے 'لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ 'الا
دبا رکھا ہےاس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
شاید یہ بات قارئین کی دلچسپی کا باعث ہو کہ روزنامہ’’ آفتاب‘‘ کے بانی ایڈیٹر مرحوم خواجہ ثناءاللہ بٹ صاحب، جنہیں کشمیر کی صحافتی برادری 'بابائے صحافت کے لقب سے بھی یاد کرتی ہے ،کا معمول تھا کہ سونے سے پہلے ذیل میں درج اقبال کے یہ اشعار پڑھ  لیتے تھے اور پھر سوجاتے تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ میں کئی برسوں تک ان کی صحبت میں رہا اور ان سے بہت کچھ سیکھا۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ میری بات کی تصدیق بھی کرسکتے ہیں۔ خواجہ صاحب بہت جلالی مزاج کے آدمی تھے، اس لئے ان کے دوستوں کی تعداد بہت کم تھی اور روزنامہ’’ آفتاب‘‘ میں جو لوگ کام کرتے تھے، وہ بھی ان کی جلالی طبیعت کے باعث وہاں زیادہ وقت تک ٹک نہیں پاتے تھے۔ اخبار’’ آفتاب ‘‘ان کی زندگی تھا اور جینے کا بہانہ بھی!! اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے وہ اشعار یہ ہیں   ؎
  آئی صدائے جبرئیلؑ، تیرا مقام ہے یہی 
اہلِ فراق کے لئے عیش دوام ہے یہی
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لئے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات، تازہ ہیں میرے واردات 
 کیا نہیں اور غزنویؔ کارگہ حیات میں
بیٹھےہیں کب سے منتظر اہلِ حرم کے سومنات
ذکر عرب کےسوز میں، فکر عجم کے ساز میں
نے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات
قافلۂ  حجاز میں ایک حسین ؓ بھی نہیں 
گرچہ ہے تاب دار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات  
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:اور (دیکھو) بے دل نہ ہونا اور نہ کسی طرح کا غم کرنا اگر تم مومن (صادق) ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔(آل عمران، آیت 13)
یہ خوشخبری مومنین ِصادقین کے لئے ہے۔ آخر میں یہ بتانا چاہوں گا کہ ذرا ہم اپنا منہ گریباں میں ڈال کر سچے دل سے اس بات پر غور کریں کہ کیا ہم واقعی مومن ِصادق ہیں؟ اللہ تعالی کا فرمان (العیاذ باللہ) جھوٹا نہیں ہوسکتا، وہ حق تعالیٰ ہے یعنی سب سے بڑا سچ، تو سوال یہ ہے کہ پھر ہم غمگین بھی کیوں ہیں اور مغلوب بھی کیوں ہیں؟ صاف ظاہر ہے کہ ہم ابھی مومنِ صادق نہیں بنے ہیں اس لئے اللہ پاک کا اس فرمان کے ہم ابھی مستحق نہیں بنے ہیں۔ ہمیں اس بات پر بھی سوچنا ہوگا کہ کیا ہم مظلوم ہیں یا (اللہ نہ کرے) مقہور ہیں؟ ہمارے ہاتھوں میں تسبیح بھی ہے، بندوق بھی ہے، ہم چالیس دنوں اور چار مہینوں کے ’’چلّوں ‘‘پر بھی چلے جاتے ہیں، قرآن کو بھی حفظ کیا ہے، حدیثیں بھی یاد ہیں، داڑھیاں بھی لمبی ہیں، ٹخنوں کے اوپر پاجامے بھی ہیں مگر اس سب کے ہوتے ہوئے کیاہم مومنِ صادق بنے ہیں؟ ذرا سوچیں کہ (اللہ نہ کرے) کہیں ہم بہروپئے تو نہیں؟ کہیں ہم محض لفظوں کے بیوپاری اور باتوں کے سوداگر تو نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم مولوی تو بن گئے، مفتی تو بن گئے، عالم تو بن گئے، شیخ بھی تو بن گئے، خطیب بھی تو بن گئے، امام بھی تو بن گئے اور بڑے بڑے سیاسی، دینی اور سماجی نیتا بھی بن گئے مگر اس سب کے باوجود ابھی مومن ِصادق نہیں بن سکے ہیں؟ جھوٹ بولتے ہیں، فریب اور دھوکہ اختیار کرچکے ہیں، وعدہ خلافی ہمارا وطیرہ بن چکا ہے، اخلاق اور ادب کی اصل حقیقتوں سے ناواقف ہیں مگر ان سب رذائل اور بد خصائل میں مبتلا ہونے کے باوجود ان حقیقتوں سے یکسر ناواقف ہیں کہ ہم ان سخت قسم کے امراض کا شکار ہیں اور اس خو ش فہمی میں ہیں کہ ہم جھوٹ نہیں بولتے، دھوکہ نہیں دیتے، بد اخلاق نہیں ہیں، ادب سے واقف ہیں اور مومنِ صادق ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کے لحاف اوڑھ لیجئے اور سوجایئے اور اگر اللہ تعالی نے اپنے فضل وکرم سے آنکھوں سے پردہ ہٹالیا اور ہمیں اپنے معائب و نقائص نظر آئے تو انہیں دور کرنے کی کوششوں میں لگ جائیں، ہم اور آپ ضرور مومن ِصادق بنیں گے اور اللہ تعالیٰ کی اس خوشخبری کا ہم پر کامل اطلاق ہوگا کہ ’’تم نہ غمگین ہوں گے اور تم ہی غالب رہوگے۔۔۔ ان شاءاللہ۔۔۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی داڑھی کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کے تسموں سے باندھ دیں، اور پھر جہاں جہاں ان کے قدم مبارک چلے ہم بھی منہ گھسیٹ کے وہیں گھومیں پھریں۔ جس منبر سے بھی فرقہ واریت کی بو آئے، جو شخص بھی عصبیت کو ہوا دے ، جو بھی انسانوں کے بٹوارے کی کوشش کرے، جو بھی قرآن وحدیث کی من پسند تاویلیں بیان کرکے لوگوں کے جذبات بھڑکائے، اس کی پیروی ہمارے ایمان کو ہی بگاڑ دے گی۔ بہتر ہے کہ کسی اہل دل، وسیع القلب، وسیع النظر، تعلیم سے منور، وقت کے تقاضوں سے باخبر، فہم وفراست والے با شریعت اور دنیا کی طمع سے خالی عالمِ حق کو اگر کہیں پاتے ہیں تو اس کا دامن پکڑیں اور اس کی اخلاص وثابت قدمی کے ساتھ مکمل طور پیروی کریں تاکہ بیڑا پار لگے اورہم مومن صادق بننے کامقام ومرتبہ پائیں۔ اس نصیحت میں میرا روئے تخاطب پہلے میری اپنی ذات سے ہے۔
(ختم شد)
