دامادِ مصطفیٰ ؐ۔حضرت علی ؓ و حضرت عثمان ؓ

حضرت علیؓ کی عظمت کا کیا کہنا آپ کے وقار اور مرتبے کا اندازہ پیارے نبیؐ کے نزدیک اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیارے نبی ؐعام طور پر اہم اور مشکل ترین امور کی انجام دہی کے لیے حضرت علیؓ کو مامور فرماتے۔ آپ ؓ نے پیارے نبیؐ کی ہر زاویے سے فرماں برداری اور اطاعت کی ۔ آپؓ کی فرمان برداری دیکھ کر حضورؐ نے مکہ اور مدینہ کے درمیان’’ جحفہ‘‘ نامی ایک جگہ جسے غدیر خم بھی کہتے ہیں اور جہاں سے حاجی صاحِبان احرام باندھتے ہیں ،کے خطبہ میں فرمایا کہ :’’جو علیؓ کا دشمن ہے وہ میرا بھی دشمن ہے اور جو علیؓ کا دوست ہے وہ میرا بھی دوست ہے‘‘۔ پیارے نبیؐ کی ظاہری وفات کے بعد خلیفہ سوم کے زمانے تک بھی حضرت علیؓ نے اہم کارنامے اور خدمات انجام دیئے اور جنگی معرکے میں بھی پیش پیش رہے اور جب خود خلیفہ بنے تو باوجود پورے ملک میں بدامنی اور خلفشاری کے حالات پر قابوپائے۔  حضرت علیؓ کے اقوال تعلیمات، انشاپردازی خطبات اور اخلاقی اقدارکا شاہکار مجموعہ نہج البلاغہ ہے، جسے شریف رضی نے تیسری صدی ہجری میں جمع کیا ہے۔ مزکورہ کتاب میں حضرت علیؓ کے بعض اہم اخلاقی قدروں پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تواریخی اہمیت کے لحاظ سے بھی ایک شاہکار ہیں اور اسے ایک مذہبی مقام بھی حاصل ہے۔
حضرت علیؓ نے تمام غزوات میں بہادری کے جوہر دکھائے اور غزوہ خیبر میں یہودیوں کے جنگجو مرحب کو زیر کیا اور شدت قتال میں خیبر کے دروازے کو اپنے ہاتھوں پر اٹھا لیا اور ایک ڈھال کی صورت میں استعمال کیا۔ آپ ؓکے پاس مشہور تلوار تھی جو آپ کوپیارے نبیؐ نے غزوہ احد میں عطاء فرمائی تھی اور آپؐ کو ایک ڈھال بھی عطاء فرمائی ،جسکا نام ’’حطمیہ‘‘ تھا اور اس کی نام گزاری کا سبب کثرت سے تلواروں کی اس ڈھال پر ٹوٹ جانا تھا۔
حضرت علیؓ کے شان  میں علامہ اقبالؒ کے کچھ مشہور اشعار جن کی نظیر نہیں ملتی ۔   ؎
مسلم اول شہ مردان علیؓ
عشق را سرمایہ ایمان علیؓ
از ولاے دود مانش زندہ ام
، در جہاں مثل گہر تابندہ ام
نرگسم و ارفتہ نظارہ ام
در خیا بانش چو بو آوارہ ام
زمزم از جو شدز خاک من ازوست
مے اگر ریزو زتاک من ازوست
خاکم و از مہر او آئینہ ام 
می تواں دیدن نوادر سینہ ام
از رخ اوفال پیغمبر گرفت
ملت حق از شکوہش فرگرفت
قوت دیدن مبیں فرمودہ اش
کائنات آیئ پزیر از دودہ اش
(ترجمہ و تشریح):
حضرت علیؓ  دلیرروں کے سردار ہے اسلام لانے والوں سہر فہرست ہیں حضرت علیؓ کی زات عشق کے لئے  ایمان کا سرمایہ تھی۔
میں (اقبال) آپ کے خاندان (مبارک) کی محبت کے سبب زندہ ہوں اور(اسی برکت سے ) میں دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں.
میں نرگس ہوں (یعنی سراپا آنکھ ہوں ) اور نظارے میں کھویا ہوا ہوں (نظارے کے لئے بے خود ہوں ) میں آپ کی کیاری خُشبوں کی طرح ادھر اُدھر پھرتا ہوں۔
اگر میری خاک سے زمزم کا چشمہ پھوٹتا ہے تو آپ ہی سے محبت اور برکت کے سبب ہے۔
میں خاک ہوں اور (حضرت علیؓ) سے محبت کے نتیجے میں آئینہ صفت ہو گیا ہوں،چنانچہ میرے سینے میں آواز کو سُنا جا سکتا ہے۔
آپ کے (مبارک ) چہرے سے حضور نبی کریمؐ نے اچھا شگون لیا، ملت اسلامیہ کو آپ کے شکوہ و دبدبہ کے نتیجے میں شان و شوکت ملی۔
آپ کے فرمودات روشن دین (اسلام ) کے لئے قوت کا باعث ہیں – دنیا کو انہی کے خاندان سے آئین، قانون اور دستور ملا.
۱۹ رمضان المبارک ۴۱ھ کی صبح خوارج سے تعلق رکھنے والا عبدالرحمن ابن ملجم ملعون نے آپ ؓکے سر اقدس پر زہر آلود تلوار سے ضرب لگائی اور حضرت علیؓ  اس ضرب سے جانبر نہ ہوسکے اور ۲۱ رمضان المبارک کو شہادت پاگئے ۔ بقول علامہ اقبالؒ
میسرنہیں کسی کو یہ سعادت
بہ کعبہ ولادت بہ مسجد شہادت
حضرت عثمان ؓ کے بارے میں میرے نبی نے فرمایا ہے کہ حیاء ایمان سے ہے اور میری اُمت میں سب سے زیادہ حیاء دار عثمان ؓ ہیں (تواریخ دمشق92/39 ) اور دوسری جگہ آپ ؐنے فرمایا ہر نبی کا جنت میں ایک قریبی دوست ہوگا اور جنت میں میرے قریبی دوست حضرت عثمان ؓ ہونگے( ترمذی۔ 3698)
حضرت عثمان ؓ عشرہ مبشرہ میں ہیں یعنی آپ اُن اصحاب میں سے ہے جنہیں دنیاں میں ہی نبی پاکؐ نے جنت کی بشارت دی تھی ۔روایات کے مطابق اسلام میں داخل ہونے والوں میں آپؓ خلیفہ راشد اور سابقون الاولون صحابہ کرامؓ میں سے تھے۔ پیارے نبیؐ نے اپنی دو نورینِ چشم شہزاددیاں آپ کو نکاح میں دی تھی، اسی لئے آپ کو سیدنا عثمان ؓ  ذی النورین ؓ بھی کہاں جاتا ہے. حضرت علی ؓ سے جب حضرت عثمانؓ کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا عثمان ؓ وہ ہے جنہیں فرشتے ذی انورین کہتے ہیں ۔پیارے نبیؐ کے داماد ہیں اور عشرہ مبشرہ میں ہیں (کنزالاعمال کتاب الفضائل36201 ) ۔ایک لقب آپ کا غنی بھی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان غنیؓ عرب میں سب سے زیادہ دولت مند تھے۔ آپ نے اپنی فیاضی اور اپنے مال و دولت سے اس وقت اسلام کو فائدہ پہنچایا، جب امت میں کوئی دوسرا ان کا ہمسر موجود نہ تھا ۔آپ کے دینی ومذہبی کارناموں سے اسلامی تواریخ بھری پڑی ہے ،حضرت عثمان ؓ نے اسلام میں اول وقف عام مسلمانوں کے لئے بیر رومہ خرید لیا۔ بیت المال سے مؤذنین کے لئے وظائف کا تقرر فرمایا۔ پولیس کا محکمہ قائم فرمایا۔ تمام مسلمانوں کو ایک قرأت پر متفق کیا، اسی وجہ سے آپ ؓ ’’جامع القرآن‘‘ بھی کہلاتے ہیں۔ جگہ جگہ ضرورت کے تحت سڑکیں اور پل تعمیر کرائے۔مفتوحہ علاقوں اور ملکوں میں مساجد اور دینی مدارس قائم کئے۔
حضرت عثمان ؓ کی خلافت کا دور بارہ سال تک رہا۔ ٣٥ ہجری ا٨ ذوالحجہ بھوکے پیاسے رہ کر نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کئے گئے۔
ہم زلف وہ علی ؓ کے، دامادِ مصطفیٰ ہیں
عثمان ؓ باحیا ہیں، آقا ؐ کے باوفا ہیں
دو نور والے ہیں وہ اور تیسرے خلیفہ
ہیں ناشرِ قرآں وہ اور مظلومِ مدینہ
اغیروں کی سازشوں سے اپنوں نے ظلم ڈھائے
وہ جبلِ استقامت پھر بھی نہ لڑکھڑائے
جنت میں ہر اک ساتھی سب انبیاءؑ کے ہوں گے
میرے رفیق و ساتھی عثمان ؓ وہاں پہ ہوں گے
( ساکنہ پاندریٹھن سرینگر حال اومپورہ ہاؤسنگ کالونی)
رابطہ ۔ 9205000010
������