خُلقِِ عظیم اور اسوہ ٔحسنہ

قرآن کے اسی اخلاقی ماڈل، جس کے اجزائے ترکیبی انبیاء علیہ السلام کے اخلاق رہے ہیں، کو مد نظر رکھتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ اس کی تکمیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی پر ہوئی۔ اس سلسلے میں سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ کا ایک قول مشہور و معروف ہے کہ جب آپ ؓ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو سیدہ عائشہ صدیقہ ؓ نے جواب دیا: "کان خلقہ القرآن یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق وہی تھا جو کچھ قرآن میں مندرج ہے!" اس کا مطلب ہے کہ آپ ؐ قرآن مجسم تھے۔ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس طرح بیان فرمایا ہے: "بعثت لاتم مکارم الاخلاق" یعنی "مجھے اعلی اخلاق کی تکمیل (اتمام) کے لئے مبعوث کیا گیا ہے۔" یہی مفہوم اس حدیث میں بھی تمثیلی طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کو "پیغمبرانہ عمارت کی آخری اینٹ کہا ہے۔" (صحیح بخاری، 3534-3535)
تاہم اخلاق کے اس عظیم نمونے کی حفاظت اور ترسیل کا ذریعہ بھی اسی طرح علم کا بنیادی آلہ یعنی قلم بنا جس طرح قلم کے ذریعے مجموعی طور پر علم کی تحفیظ اور ترسیل ہوتی رہی۔ چونکہ اخلاقی فکر (اتھکس) کو عملی اخلاق (موریلٹی) میں بدل دینا یا دونوں کو ایک اکائی کے طور پر پیش کرنا یا برت کر دکھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ رکھا گیا تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بالکل ابتداء میں اس طرح خطاب کیا گیا: "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔۔۔۔۔ تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔" (العلق: 1-4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کی راست نگرانی میں بنیادی انسانی خصائل کا بہترین نمونہ پیش کرنا شروع کیا تھا۔ اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم "امین" (امانت دار) اور "صادق" (نہایت سچے) کے القاب سے پہچانے جاتے تھے۔ اب قرآنی علم اور تحریک علم (اقرا) کے ذریعے اخلاق کی اسی پیغمبرانہ عمارت کی تزئین شروع ہوئی۔
تزئین اور آرائش کے اس کام میں جن لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی وہ آپ ؐ کے "ساتھی" (نہ کہ مامورین) یعنی "صحابہ" بن گئے۔ اس طرح قلم و قرطاس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے وسیع تر دفتر پر بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق عظیم منقش ہونے لگا۔ اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ اسی خلق عظیم کے پرتو بنے کیونکہ انہوں نے خود کو اسی اسوہ کی اتباع کرکے دراصل عبودیت کا وہ رنگ اختیار کیا، جسے قرآن نے "صبغت اللہ" کہا ہے۔ معاشرے کو اللہ کے رنگ میں رنگنے کا یہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے روز اول سے ہی جاری ہوچکا تھا۔ ابن اسحاق (سیرت) کے مطابق سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے خلیق، ملنسار اور صاحب علم و فضل انسان اور نیکوکار و کامیاب تاجر کو جب مکی دور میں ایذا و تعدی کا شکار کیا گیا تو آپ ؓ نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیکر مکہ کو الوداع کہا۔ ابھی مکہ کو چھوڑ ہی رہے تھے کہ ابن الدغنہ، جو احابیش کا ایک سردار تھا اور ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا، نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح مخاطب کیا: "ایسا نہیں ہو سکتا۔ بخدا! تم تو قبیلے کی زینت ہو، تکالیف میں لوگوں کی اعانت کرتے ہو اور ان کے ساتھ نیکی کرتے ہو، ناداروں کو کماکر دیتے ہو، واپس چلو، میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں۔"
صحابہ ؓ دراصل خلق نبوی کی ہر ادا کی مثال پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ایک طرف سیدنا ابو بکر ؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت شکر کی کامل پیروی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو دوسری جانب سیدنا علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت صبر اور توکل کا نمونہ پیش کررہے ہیں۔ ابن اسحاق ہی کے بیان کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نہایت سردی کے موسم میں رات بھر مدینہ کے ایک یہودی کے کنویں سے پانی کھینچ کر مٹھی بھر کھجوریں کمائیں کیونکہ ان دنوں مسلمان اکثر غذا کی قلت کا شکار تھے۔ اسی طرح ہم سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو صفت حیاء کا ایک پیکر پاتے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو صفت عدل کے ایک شاہکار کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہاں پر ہمیں اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوہ حسنہ" (الاحزاب: 21) صرف غزوہ احزاب سے متعلق ہے، جب مخالفین ٹڈی دل کی طرح مدینہ منورہ پر ٹوٹ پڑے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ہر قسم کی مشکلات جھیل کر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کے سامنے اپنا "اسوہ" (قابل اتباع نمونہ) پیش فرمارہے تھے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ہر قسم کے معمولی اور غیر معمولی حالات میں ایک مسلم کے لئے اخلاق نبوی ہی ایک واحد اسوہ ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی نہایت دلچسپ معلوم ہوتی ہے کہ "الانسان الکامل" اور "حقیقت محمدیہ" کی فلسفیانہ موشگافیوں کو چھوڑ کر سواد اعظم کے لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اخلاق نبوی ہی دراصل "لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم" کا عملی اور تکمیلی اظہار ہے۔ چونکہ غیر معمولی حالات سے نبرد آزما ہونے کے لئے جس شجاعت اور دلیری کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی خصائل نبوی میں شامل تھی، اس لئے اس کردار کو بھی نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے خوب نبھایا۔ یہی وجہ ہے کہ جب غزوہ حنین کے موقعے پر مسلمان افرا تفری کا شکار ہوئے تھے، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح اپنے ساتھیوں کی ڈھارس باندھی تھی: "انا النبی لا کذب؛ انا ابن عبد المطلب!" یعنی "میں نبی ہوں، (اور) یہ جھوٹ نہیں ہے؛ میں عبدالمطلب کا فرزند ہوں!" مطلب صاف ظاہر تھا کہ جس جماعت کی راہنمائی ایک نبی کررہے ہوں اسے میدان چھوڑنا زیب نہیں دیتا۔
تاہم جنگ کسی بھی معاشرے کی ایک غیر معمولی حالت ہوتی ہے۔ اصل استمراری حالت بہرحال امن کی حالت ہی ہوتی ہے۔ اس لئے خلق نبوی کو عام حالات میں بھی ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جب حضرت انس رضی اللہ عنہ جنہوں نے دس سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، سے پوچھا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کبھی ڈانٹا؟ جواب بالکل نفی میں ملا! اسی طرح جب ایک بدوی اپنے ایک غلام کو مار رہا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس طرح مخاطب کیا: "جتنا اختیار آپ کو اس (غلام) پر ہے، اس سے زیادہ اختیار آپ پر اللہ کو حاصل ہے!" حکمت نبوی کا اثر دیکھیں کہ بدوی نے غلام کو موقعے پر ہی آزاد کردیا۔ خلق نبوی کی اس رافت و رحمت کو قرآن نے یوں بیان کیا ہے: "یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم دل واقع ہوئے ہو۔ ورنہ اگر کہیں تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد و پیش سے چھٹ جاتے۔" (آل عمران: 159)اس طرح قرآن مقدس انبیائی اخلاق کا ایک نوشتہ (ریکارڈ) ہے جس میں رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق تکمیلی، عالمگیر اور ابدی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی اخلاق کو قلم و قرطاس نے محفوظ کیا اور نبوی منہج پر ترتیب پانے والے معاشرے نے اسی کو تواتر سے آگے منتقل کیا۔ اسی اخلاق کو "خلق عظیم" کی الہٰی سند حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہی اخلاق امت کے لئے "اسوہ حسنہ" کی حیثیت رکھتا ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: "ن۔ قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہو۔ اور یقینا" تمہارے لئے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبےپر ہو۔" (القلم: 1-4)
(رابطہ: 9858471965
ای۔میل: [email protected])