خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

ملک میںذی شعور اور با حِس عوام نےابھی آسام کا خون آشام واقعہ فراموش نہیں کیا تھا کہ اُترپردیش کے لکھیم پور میں بھی لرزہ انگیز واقعہ رونما ہو گیا۔ یہ دونوں واقعات جہاں انسانی خون کی ارزانی کی کہانی بیان کرتے ہیں وہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ پولیس محکمہ اور حکومتی نظام کس قدر بے درد اور بے حس ہو گئے ہیں۔ آسام میں ایک نہتے شخص کے سینے میں گولی مار کر قتل کیا گیا اور پھر اس کی لاش کی بے حرمتی کی گئی اور لکھیم پور میں انتہائی وحشیانہ انداز میں پر امن کسان مظاہرین کو روند دیا گیا۔ پہلا واقعہ جہاں پولیس محکمہ کے ظلم و بربریت کا گواہ بنا، وہیں دوسرا واقعہ اقتدار کے نشے میں چور چند افراد کی رعونت کا شاہد بنا۔ آسام کی مانند لکھیم پور کے واقعہ نے بھی پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لیکن جس طرح آسام کے قصورواروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اسی طرح لکھیم پور کے مجرموں کے خلاف بھی ایک ہفتہ گذر جانے تک کوئی کاروائی  عمل میںنہیںآئی ۔ پھر عدالت ِ عظمیٰ کی لتاڑ پر جب یو پی حکومت کی پولیس انتظامیہ حرکت میں آئی تو لکھیم پور کے درد ناک واقعہ میں ملوث ایک منتری کے بیٹے کو پوچھ تاچھ کی غرض سے پولیس تھانے میں لینے پر مجبور ہوگئی اور وہ بھی ا ُس انداز میں کہ جیسے کسی خصوصی پُر وقار شخصیت کو کسی خاص مجلس میں شرکت کی دعوت پر لیا جاتاہے۔اگرچہ اس سے قبل پولیس اُس کے گھر کے باہر دو عدد نوٹسیں چسپاں کرکے التجا کی گئی کی برائے مہربانی واقعہ کے سلسلے میں پوچھ تاچھ کے لئے پولیس تھانے میںتشریف لایئے۔اور پھر دس گھنٹے کی پوچھ تاچھ کے بعد منتری کے بیٹے کو حراست میں لینے کا اعلان کیا گیا اور تا دم تحریر وہ پولیس حراست میں ہےگویا انسانی ہلاکتوں میں ملوث کسی وزیر کے لاڈلے کو حراست میں لینے کایہ اپنی نوعیت کا نیا طریقہ بھی سامنے آیا ۔حالانکہ اس بدبختانہ سانحہ نے انسانیت کو پھرشرمسار کر دیا ہے۔ لیکن حکومتی انتظامیہ کے ذمہ دار کارندے ابھی بھی ٹس سے مَس نہیں  ہورہے ہیں۔واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کر نے اور انہیں قرارِواقعی سزا دینے کے بجائے جو سیاسی پارٹیاں اس گھناؤنے جرم کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، ان کے قائدین کو پولیس اپنی حراست میں لیا جاتاہے۔ ان پر مختلف قسم کے الزامات لگا گر انہیں گرفتار کیا جاتا ہےاور انہیں نقصِ امن کھڑا کرنے کا ذمہ دارٹھہرایا جاتا ہے۔
 ظاہر ہےکہ آسام کے واقعہ کو بھی ایک ویڈیو نے بے نقاب کیا تھا اور لکھیم پور کے واقعہ کو بھی ویڈیو ہی نے بے نقاب کیا ہے۔ 28 سیکنڈ کی ایک ویڈیو میں جو کچھ نظر آرہا ہے، وہ مجرموں کی گرفت کے لیے کافی تھا۔ حالانکہ اس موقع پر ایک مخصوص سیاسی جماعت کے تین کارکن بھی ہلاک ہوئے ہیں لیکن ان کے قصورواروں کی بھی پکڑا نہیں جا سکا ہے۔ خون کسی کا بھی ہو خون ہوتا ہے اور خون کرنے والے کسی بھی طبقے سے یا کسی بھی جماعت سے ہوں، ان کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔ لکھیم پور کا واقعہ ایک ہفتہ تک طول پکڑتا گیا اور اب تفتیش کے بعد اس سلسلے میں کاروائی کس انداز اور کس حد تک آگے بڑھے گی ،یہ تو وقت ہی بتا دے گا اور اس کے متعلق قبل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیںر ہے گا۔اس دوران جس طرح اپوزیشن رہنماؤں کو کھیم پورجانےاور وہاں غمزدگان سے ملنے سے روکا گیا اور انھیں حراست میں لیا گیا۔اس سے نمایاںطورانتظامیہ کی جانبداری ظاہر ہوئی ہے۔ جانبداری کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کانگریس کی رہنما پرینکا گاندھی کو گرفتار کیا گیا جبکہ ان کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں ہے۔ لیکن مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا کے بیٹے آشیش مشرا کو جن کی گاڑی سے کسانوں کو روندا گیا، تادم تحریر گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ حالانکہ اجے مشرا نے خود اعتراف کیا ہے کہ انھی کی گاڑی سے کسانوں کو کچلا گیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے پاس ایک ایسی ویڈیو ہے جس میں کسانوں کو لاٹھی ڈنڈوں اور تلواروں سے گاڑیوں پر حملہ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن انھوں نے اس ویڈیو کو ابھی تک جاری نہیں کیا ۔ اس کے علاوہ واقعہ سے چار روز قبل ان کی ایک دھمکی آمیز تقریر بھی وائرل ہے جس سے ایسے بہت سے سوالات کھڑے ہو رہے ہیں جن کا تعلق لکھیم پور واقعہ سے ہو سکتا ہے۔ 
اس واقعہ کے بعد یہ قیاس آرائی کرنا مشکل ہے کہ اب کسانوں کی تحریک کیا موڑ لیتی ہے یا کون سا رخ اختیار کرتی ہے۔ کچھ لوگوں نے یہ اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اب اس سے بڑے واقعات ہو سکتے ہیں تاکہ اس تھیوری کو تقویت فراہم کی جاسکے کہ کسانوں کی اس تحریک میں خالصتانی، پاکستانی اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے لوگ شامل ہیں۔ تحریک کے شروع میں ایسے الزامات لگائے گئے تھے اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس میں چین نواز عناصر بھی شامل ہیں۔ اب ایک بار پھر اس الزام کا اعادہ کیا جا رہا ہے اور پرامن کسانوں کو دہشت گرد قرار دے کر تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ لکھیم پور کا واقعہ از خود یا اتفاقیہ طور پر نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے باقاعدہ اور منظم انداز میں پلاننگ کی گئی تھی تاکہ کسانوں کو بدنام کرکے ان کی تحریک کی کمر توڑی جائے۔ اس مہم میں گودی میڈیا بھی شریک ہے۔ جبھی تو ایک مقبول اور کثیر الاشاعت اخبار نے ہلاکت کے اس لرزہ خیز واقعہ کے لیے کسانوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ جبکہ نیوز چینلوں کے نزدیک اس سے بڑا واقعہ تو وہ ہے جو ممبئی کے ساحل پر ایک کروز جہاز میں پیش آیا اور جس میں بالی وڈ کے سپراسٹار شاہ رخ خان کا بیٹا بھی ملوث پایا گیا ہے۔ میڈیا کو اس واقعہ میں نمک مرچ لگانے کے امکانات اس لیے زیادہ نظر آئے کہ اس میں ایک مسلمان خاندان کا نام آیا ہے۔ یوں بھی اگر بالی وڈ کے کسی مسلم اداکار کے سلسلے میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کو انتہائی سنسنی خیز بنا کر عوام کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا نیوز چینلوں کے نزدیک لکھیم پور کا واقعہ شاہ رخ خان کے بیٹے کے منشیات کی ایک پارٹی میں شامل ہونے اور اس کی گرفتاری سے بڑا نہیں ہے۔ اس سے دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک تو یہ کہ لکھیم پور کے جرم کو ہلکا کرکے پیش کیا جائے اور دوسرے شاہ رخ کے بیٹے کی آڑ میں مسلمانوں کو بدنام کیا جائے۔ کیرالہ کے ایک پادری نے پہلے ہی منشیات جہاد کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے۔
ابھی حال ہی میں انگریزی روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اس پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو لو جہاد اور لینڈ جہاد کی آڑ میں تو بدنام کیا جا رہا ہے لیکن آبادی جہاد کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ یعنی ان مسلم دشمن طاقتوں کو یہ کیوں نہیں نظر آرہا ہے کہ مسلمانوں نے زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرکے آبادی جہاد بھی چھیڑ رکھا ہے۔ اس مضمون میں بالی وڈ اداکار نصیر الدین شاہ کے طالبان کے حوالے سے دیے گئے بیان کا تجزیہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ بیان عام مسلمانوں کے مزاج اور ان کے رویے کے بالکل برعکس ہے۔ یہ کہہ کر کہ کچھ مسلمان طالبان کے آنے پر جشن منا رہے ہیں پوری مسلم قوم کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا مسلمانوں کو بدنام کرنے کی روش کوئی نئی بات نہیں ہے اور اگر معاملہ کسی شہرت یافتہ مسلمان کا ہو تو پھر کیا کہنے۔ پھر تو پوری مسلم قوم کو بدنام کرنے کا ایک بہت سنہرا موقع مل جاتا ہے۔ لہٰذا گودی میڈیا جو کچھ کر رہی ہے وہ بالکل اپنی فطرت کے عین مطابق کر رہی ہے۔ اسے لکھیم پور میں خون انسانی کی بے حرمتی دکھائی نہیں دیتی لیکن شاہ رخ خان کے بیٹے کی جیب میں کوکین نظر آجاتی ہے۔ بہرحال آسام کا واقعہ بھی قابل مذمت ہے اور لکھیم پور کا واقعہ بھی انتہائی مذموم ہے اور دونوں واقعات کے ذمہ دارو ںکو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات انجام دینے کی جرأت کسی کو نہ ہو،اور اسی حکمت ِ عملی سے حکومتی انتظامیہ پر لگائے جارہے جانبداری کے الزامات بھی دور ہوسکتے ہیں۔
موبائیل: 9818195929