خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا

اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین فی الوقت جنگ بندی ہوچکی ہے۔حالیہ جھڑپیں تین ہفتے قبل اس وقت شروع ہوئیں جب پہلی جنگ عظیم کے بعد یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان بیت المقدس کے اجتماعی کنٹرول کے حوالے سے طے پانے والے معاہدے کے تحت عائد کچھ پابندیاں ازخود تحلیل ہو گئیں؛ تاہم اس تنازع میں اسرائیلی پولیس نے دائیں بازو کے انتہا پسند یہودیوں کی حمایت میں طاقت کا استعمال کرکے فساد کو بھڑکا دیا۔ یہ مسئلہ دراصل سوسال پرانا ہے اور اس وقت تخلیق ہوا جب پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ نے فلسطین کا کنٹرول حاصل کرتے ہی اسے وہاں کی حقیر سی یہودی اقلیت کا ''قومی گھر‘‘ قرار دے کر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو دوسرے درجہ کا شہری بنا دیا؛ تاہم فلسطینی مسلمانوں نے اپنی زمین کا دعویٰ نہ چھوڑا اور برطانیہ کے اس اقدام کے خلاف سیاسی مزاحمت جاری رکھی۔ 1920ء سے 1940ء تک کے بیس سالوں کے دوران برٹش گورنمنٹ نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پہنچا کر آبادی کا تناسب بدلنے کی کوشش کی۔ البتہ یورپ بھر میں آباد یہودیوں کے خوشحال طبقات فلسطین جیسے پسماندہ علاقوں کی طرف مائل ہونے کو تیار نہیں تھے، اس لئے برطانیہ کے خفیہ اداروں نے پورے یورپ میں عوامی سطح پہ صہیونیت کے خلاف نفرت انگیز لہریں اٹھائیں، خاص طور پر جرمنی میں یہودیوں کے خلاف سیاسی تشدد کی بڑھاوا دینے اور ہولوکاسٹ کی متھ کو اسٹیبلش کرنے میں برطانیہ اور امریکا کے خفیہ اداروں نے نہایت فعال کردار ادا کیا۔ ان تحریکوں کو مہمیز دینے کا مقصد خوشحال یہودیوں کو یورپ چھوڑکر فلسطین کا رخ کرنے پہ مجبور کرنا تھا؛ چنانچہ انڈیا کی بلیک ہول تھیوری کی طرح ہولوکاسٹ تھیوری نے بھی خوب کام دکھایا اور یورپ و امریکا میں آباد یہودیوں کی بڑی تعداد تیزی کے ساتھ نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچنے لگی۔ یوں یہودیوں اور عیسائیوں کے مابین پائی جانے والی صدیوں پہ محیط شدیدترین رقابت کو مسلمانوں کے گلے کا طوق بنا کر دونوں کو ہمیشہ کیلئے وقفِ اضطراب کر دیاگیا۔
اس وقت غزہ کے نہتے اور محصور لوگوں پر ظلم کے جو پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں ،وہ درندوں کو بھی شرمندہ کرنے والا ہے، اگرچہ اس میں معصوم بچوں، عورتوں اور بہت سے نہتے لوگوں کی جانیں جارہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں شادیانے بجارہی ہیں؛ لیکن حقیقت میں یہ فلسطین کے مظلوموں کی فتح ہے، اس جنگ نے اسرائیل کی درندگی اور لاقانونیت کو پوری طرح واضح کردیا ہے، اس جنگ نے واضح کردیا ہے کہ اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے، کسی کو باندھ کر اس کو ظلم کا نشانہ بنانا بہادری نہیں بزدلی نہیں ہے، اس جنگ کے نتیجہ میں فلسطینی مسلمانوں کے اندر جو جذبہ قربانی پیدا ہوا ہیاور جس شوق کے ساتھ مسکراتے ہوئے وہ جامِ شہادت نوش کررہے ہیں ،وہ عہد صحابہ کی یاد تازہ کررہا ہے اور یہ فلسطینیوں کی اخلاقی فتح ہے، پوری دنیا کے مسلمانوں پر استطاعت کے مطابق ان مظلوم بھائیوں کی مدد کرنا واجب ہے۔
اسرائیلی بزدلانہ کارروائی میں لگ بھگ 300 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 65بچے، 17بزرگ اور 39خواتین بھی شامل ہیں۔ 1700 زخمی ہوئے، کم و بیش90 ہزار افراد بے گھر ہوئے،450 سے زائد بلند عمارتیں زمین بوس ہو گئیں، 58 سکول منہدم ہوئے اور غزہ کو کھنڈر بنا دیا گیا۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ہسپتالوں اور پانی، بجلی اور صحت کے نظام کو نشانہ بنایا۔ فی الحال حماس کے 4000راکٹ حملوں پر اسرائیلی معروف اخبار ہاریٹز نے حالیہ جنگ میں حماس کے مقابل تل ابیب کی شکست کا اعتراف کیا ہے اورموجودہ جنگ کو اسرائیل کی تاریخ میں بدترین شکست قرار دیا ہے۔بظاہر عالمی دبائو میں آ کر اسرائیل نے جنگ بندی کا اعلان کردیا ہے مگر سوال یہ ہے کہ ان بے گناہ مظلوم فلسطینیوں کی کوئی اہمیت نہیں جن کو شہید کر دیا گیا؟ اس بھاری جانی و مالی نقصان کا ازالہ کون کرے گا؟ کیاجنگ بندی مسئلے کا پائیدار حل ہے ؟
عالمی برادری کو ان حقائق کو بھی سامنے لانا چاہئے کہ اسرائیل کی طرف سے جارحیت کا ارتکاب کیوں کیا گیا۔ ادھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے قرارداد ہی منظور نہ ہونے دی‘ جس پر جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کرنا پڑا جس میں پاکستان کی طرف سے اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دے کر مقبوضہ علاقے خالی کرانے کا پْرزور مطالبہ کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اسرائیل کو جنگی عزائم سے باز رہنے کی تنبیہ کی۔ یہ موقع تنبیہ، تشویش اور مذمت کا نہیں، اسرائیلی جارحیت پر اس کی گرفت کرنے کا ہے۔ پاکستان کی طرف سے فوری طورپر غزہ میں عالمی امن فوج تعینات کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ اس پر فوری طورپر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک اقوام متحدہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کرے گا‘
اسرائیلی وحشت و درندگی کے مقابلے میں عالم ِ اسلام میں ایک طرح کی بے حسی نظر آتی ہے، بہت سے اسلامی ممالک اسرائیل کو تسلیم کر چکے اور تازہ تازہ دوستی کے اس خمار کی وجہ سے وہ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر مذمت بھی نہیں کر سکتے۔اسرائیل نے طویل غور کے بعد ہی ’’صلح جوئی‘‘ کا یہ راستہ اختیار کیا تھا تاکہ اسرائیل جب غزہ کے علاقے میں مزید یہودی بستیاں بسانے کے منصوبے کو آگے بڑھائے تو اِن ممالک کی طرف سے زبانی کلامی مذمت بھی نہ ہو،تاہم اسرائیلی جارحیت کے خلاف سب سے توانا آواز ترک صدر رجب طیب اردوان کی سنائی دی ہے۔ ترکی اگرچہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اولین مسلمان ملک تھا اور اسرائیل کے قیام سے پہلے بھی اْس وقت کے کئی یہودی رہنما ترکی میں مقیم رہے تھے،لیکن اردوان کے دور میں ہمیشہ کھل کر اسرائیلی مظالم کی مذمت کی گئی۔ چند برس قبل جب اسرائیل نے غزہ کی بحری ناکہ بندی کر رکھی تھی،تو ترکی نے عملی اقدامات اٹھاتے ہوئے بحری جہاز کے ذریعے اشیائے خورونوش اور ادویات وغیرہ غزہ روانہ کی تھیں۔اسرائیل نے یہ اشیا غزہ تو پہنچنے نہ دیں، لیکن ترکی نے بتا دیا کہ وہ اسرائیلی مظالم کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔انہوں نے تازہ اسرائیلی جارحیت پر اپنے ایک جذباتی خطاب میں کہا کہ اگر آج بیت المقدس کی دیواریں گرتی ہیں تو اسلام آباد، استنبول، جکارتہ اور بغداد سمیت پوری مسلم دْنیا کی دیواریں گر جائیں گی۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی بھی حفاظت نہیں کر سکیں گے۔اسرائیلی ریاست کے حملوں پر خاموش رہنے والا ہر کوئی ظلم میں برابر کا شریک ہے۔مَیں تمام دْنیا خصوصاً اسلامی ممالک کو حملوں کے مقابل موثر حکمت ِ عملی اپنانے کی دعوت دیتا ہوں،مسلمان ممالک اور ان کے عوام کو آواز دے رہا ہوں کہ اسرائیل کے ان ظالمانہ اقدامات کو فی الفور روکنے کی کوشش کریں۔ہم نے بطور ترک اپنے حصے کا کام کر دیا ہے، کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے،ہم آج بھی القدس کے مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔
 اس پورے حالات واقعات کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس جنگ کے کئی اہم اورمثبت فائدے بھی سامنے آئے، ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ برسوں سے فلسطین کے معاملات و مسائل اس قدر دب گئے تھے کہ دنیا کی توجہ اس طرف جاہی نہیں رہی تھی، اس بے توجہی کے نتیجہ میں کئی عرب ملکوں نے عوامی احساسات سے ہٹ کر اسرائیل سے مختلف قسم کے سمجھوتے کرلئے تھے، اور کہنا چاہیے کہ ایک طرح سے وہ اسرائیل کی گود میں جاکر پڑگئے تھے، اس جنگ کی وجہ سے ایک بار پھر پوری دنیا کی توجہ اس طرف گئی اور سب نے محسوس کیا کہ فلسطین کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا ہے، مذمتی قراردار تک ہی محدود رہنے کے باوجود عرب لیگ اور اسلامی تعاون کونسل کی میٹنگوں کی وجہ سے بھی مختلف ممالک پر ایک دباؤ اور پریشر بنا، خود عرب ملکوں کے اپنے اپنے مفادات اور تحفظات تھے، ماضی میں ان ملکوں نے آپس ہی میں بائیکاٹ کی پالیسی اختیار کرکے قطر کو یک و تنہا چھوڑ دیا تھا، لیکن اس لڑائی نے سب کو ایک میز پر بیٹھانے میں نمایاں رول ادا کیا، گو بائیکاٹ کا خاتمہ پہلے ہی ہوچکا تھا، اس لڑائی کی وجہ سے امریکہ کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر سامنے آیا جب اس نے مذمتی قرارداد کو یو ان او میں اسرائیل کی حمایت میں ویٹو کرکے پاس نہیں ہونے دیا، دنیا نے جان لیا کہ امریکہ میں حکومت کسی پارٹی کی ہو، اس کی خارجہ پالیسی بدلا نہیں کرتی ، اس معاملہ میں یو ان او میں ہندوستانی نمائندہ کی تقریر معتدل اور متوازن تھی، کہنا چاہیے کہ اسرائیل کی طرف مختلف معاملات میں ہندوستان کے بڑھتے قدم کا کم از کم اس تقریر میں کوئی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔
اس جنگ کی وجہ سے دنیا کو حماس کی طاقت کا بھی اندازہ ہوا ، پہلے چھ ملکوں کی فوج کو اسرائیل نے چھ دن میں پسپا کردیا تھا،اس بار گیارہ دن تک حماس نے تنہا مقابلہ کیا اور اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کردیا، یہ بڑی کامیابی ہے، اس نے قرآنی حکم کے مطابق حسب استطاعت اپنے اندر قوت پیدا کرلی، اور اس حد تک پیدا کرلی کہ اللہ رسول کے دشمن پر خوف طاری ہوگیا اور اسرائیل جیسا دہشت گرد بھی حماس کے حملوں سے مبہوت رہ گیا، اسے معلوم ہوگیا کہ فلسطین اب پہلے کی طرح تر نوالہ نہیں ہے جسے آسانی سے نگل لیا جائے۔ یہ وہ پہلو ہیں جن کی طرف لوگوں کی نگاہ کم جاتی ہے؛حالانکہ پریشان کن حالات میں بھی یہ خیر کے وہ پہلو ہیں جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے بعض چیزوں کو تم ناپسند کرتے ہو؛ حالانکہ اس میں تمہارے لئے خیر ہے۔
اس جنگ بندی کو سمجھ لینا کہ مستقل اور پائیدار ہے،بڑی غلطی ہوگی، اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسی اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیتی، اس لیے پھر وہ وعدہ خلافی کرے گا ہی، ہٹلر نے یہودیوں کا قتل عام یوں ہی نہیں کیا تھا، ہو لوکاسٹ کی کہانی جس قدر بھی فرضی ہو؛لیکن کچھ نہ کچھ اس میں صداقت تھی، ہٹلر نے کہا تھا کہ میں نے کچھ یہودیوں کو چھوڑ دیا ہے تاکہ دنیا ان کے کرتوتوں کو دیکھ کر سمجھ لے کہ ہم نے اسے کیوں قتل کرایا، آج فلسطین کے ساتھ اس کے ظالمانہ رویہ کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہٹلر کا یہ عمل ظالمانہ سہی؛لیکن اس کے وجوہات کجھ نہ کچھ معقول تھے،اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہٹلر کے اس عمل کو سراہتے ہیں،ایسا ہرگز نہیں ہے، ظلم تو ظلم ہے کسی کے ساتھ ہو، اسی طرح ہم نسلی بنیادوں پر بھی تفریق کے قائل نہیں؛حالانکہ اسرائیل نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے وہ بھی نسلی بنیادوں پر ہی بال وپرنکال رہا ہے، ہم ہندوستانی شروع سیہی نسلی امتیاز کے خلاف رہے ہیں، اسلام کی تعلیمات بھی یہی ہیں، اسی لیے ہندوستان جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کئے ہوئے تھا، اس کے پاسپورٹ پر صراحتاً لکھا ہوتا تھا کہ آپ فلاں فلاں ملک جانہیں سکتے،جب وہاں سے یہ امتیاز ختم ہوا تب ہندوستان سے اس کے تعلقات استوار ہوئے۔
اگر مسلم دنیا جلد نہ جاگی تو قدس و فلسطین 90 فیصد تو سمٹ ہی گیا،باقی بھی بہت جلد ہی قصہ پارینہ بن جائے گا، پھر کوئی اضطراب رہے گا، نہ مخالفت کیوں کہ فلسطین اور فلسطینی ہی نہیں رہیں گے تو یہودیوں میں تو ہر طرف صرف شانتی شانتی ملے گی۔
 رابطہ۔ بارہمولہ کشمیر
فون نمبر۔6005293688