خوف کو تماشہ نہ بنایئے | اپنے رب کے ساتھ رشتہ جوڑیئے

بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام سے جانا جاتا ہے، جمہوریت کا مطلب تمام انسانوں کو شخصی آزادی، براری کا حق، اپنے مذہب اور تہذیب و ثقافت پر چلنے کی آزادی ہو کسی قسم کی پابندی ان پر نا ہو، جہاں تمام سرکاری اور انصاف مہیا کرنے والی عدالت کسی دباؤ میں نا ہو، جہان لکھنے ،بولنے کی آزادی ہو، کسی کےساتھ ذات پات مذہب کے نام پر امتیازی سلوک نہ برتا جاتا ہو، ہر کوئی اپنے آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہا ہو۔ جسے تمام انسانی حقوق میسر ہو، کہیں بھی غیر منصفانہ ظالمانہ رویہ کسی شخص یا کمیونٹی کے ساتھ روا نہیں رکھا جاتا ہو، اس ملک کی بنیاد جمہوری نظام حکومت پر ہی رکھی گئی ہے لیکن آزادی کے بعد سے ابتک جمہوری حالات میں تبدیلی ہوئی ہے تو اس ۲۰۱۴ میں اقتدار میں آنے کے بعد آنے والی حکومت میںہوئی ہےجو مسلسل جاری ہے۔ عوام نے یہ سمجھا کہ موجودہ حکومت نے پچھلے پانچ سالوں میں کوئی بڑا انقلاب نہیںتو نہیں لایا اور نہ ہی کوئی غیر معمولی حالات دیکھنے میں آئے ،نوٹ بندی، ٹرپل طلاق قانون، کے علاوہ کوئی بڑا حادثہ نہیں ہوا لیکن ان گزشتہ پانچ سالہ اقتدار میں اس  نے جو منصوبہ بندی کی تو ۲۰۱۹ میں اقتدار میں آتے ہیں جلد بازی میں ایسے قانون کو پاس کیا جو ا‌نصاف و انسانیت کے منافی ہی کے مترادف ہے۔ ہم جنس پرستی قانون ، شادی شدہ ہونے کے باوجود غیر محرم سے جنسی تعلقات کو جائز قرار دیا گیا ، کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰ کو کلعدم قرار دے کر خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کیا گیا، آر ٹی آئی معلومات حق کی آزادی کے اندر ترمیم کی گئی، یو اے پی اے قانون میں ترمیم کرکے اسے اور سخت بنایا گیا، جس میں انصاف پسند عوام کی آواز کو دبانابھی شامل ہے۔ گذشتہ ماہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو بلا انتخاب صدر جمہوریہ کے زریعے راجیہ سبھا کا ممبر منتخب کیا گیا۔ اپریل ۲۰۱۹ میں سپریم کورٹ کی ایک سابق ملازمہ نے چیف جسٹس رنجن گوگوئی پر جنسی ہراسانی کا الزام بھی لگایا گیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ۱۰ ، ۱۱ ؍اکتوبر ۲۰۱۸ کو اسے جنسی طور پر حراساں کیا گیا تھا۔ جسے گو مسٹرگوئی نے یہ کہہ کر مسترد کردیا تھا کہ عدلیہ کی آزادی کو روکنے کی کوشش ہے۔ ایس اے بوبڑے نے فوری طور پر اس معاملے کو ختم کر دیا تھا۔ اسی طرح ۹ نومبر ۲۰۱۹ کو جسٹس رنجن گوگوئی کے پانچ رکنی بینچ نے بابری مسجد رام جنم بھومی کے متنازع اراضی پر فیصلہ صادر کیا ،جس میں انہوں نے تمام حقائق اور ثبوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے  اکثریتی فرقے کے افراد کو دیکھتے ہوئے عقائد کی بنیاد پر بابری مسجد کی زمین رام جنم بھومی کے نام کرنے کا فیصلہ صادر کیا۔  ۱۷ نومبر ۲۰۱۹ میں انکا رٹائرمنٹ ہوا یہ انکا آخری فیصلہ تھا۔ اس سے قبل رافیل ذیل کے معاملے میں بھی موجودہ حکومت کو کلین چٹ دینے میں بھی رنجن گوگوئی پیش پیش رہے۔ اسی طرح انہوں نے اس حکومت کے غیر منصفانہ قانون سازی کو لے کر اور ملک کی جمہوریت ، عدالتی نظام پر دباؤ ڈالنے پر پریس کانفرنس کے زریعے اس حکومت کو ملک کیلے خطرہ قرار دیا تھا۔ ان تمام باتوں سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پہلے عوام کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ کوئی انگلی اٹھانے کی کوشش بھی نہ کریں ۔سپریم کورٹ کے ججز کا چناؤ ہو یا انصاف پسند اور حق پرست صحافی ہو، ان معاملات میں مداخلت کی گئی اور انصاف کا مظاہرہ کیا گیا۔ عوام سے ۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو راجیہ سبھا کا بلا انتخاب ممبر منتخب کرنا بھی ان تمام غیر منصفانہ فیصلوں کی زندہ مثال ہے کہ جس نے جمہوریت اور آئین کا مذاق اڑایا گیا۔آج ان لوگوں کو اپنے کیے کا پھل دیا گیا ہے جو راجیہ سبھا کی سیٹ کی شکل میں ہے اور اسی طرح جس نے ان تمام کی مدد کی ہے اس کیلئے بھی جگہ ریزرو کی گئی ۔ ایس اے بوبڑے کو گوگوئی کے رٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔ اور اب وہ ایک انہی کے منشا کے تحت اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ شاہین باغ احتجاج کی مثال ہمارے سامنے ہیں کہ اصل شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دائر پٹیشن پر سنوائی کرنے بجائے شاہین باغ کے احتجاجات کو کس طرح سے اٹھائے جانے کے طریقے اپنائے گئےتھے۔تو جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے اور عوام کس پر اعتماد کریں وہ اپنے حق کے لئےکس سے انصاف کی اُمید لگائے بیٹھے رہیں۔ جس طرح بابری مسجد کے فیصلہ پر مسلمانوں نے سپریم کورٹ پر بھروسہ کیا اور اسکا نتیجہ کیا نکلااسی طرح شاہین باغ کا بھی نتجہ جلنے والا تھا مگر کرونا وائرس نے اس کا کام بخوبی تمام کردیا ۔اب جبکہ کرونا وائرس نے ساری دنیا میں تباہی مچادی ہے اور بغیر کسی سرحدی بندش کے اپنے پَر پھیلارہی ہے تو یہاں بھی اس کا نام اقلیت سے جوڑنا شروع کردیاگیااور ایک تبلیغی جماعت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ظاہر ہے کہ لاک ڈاون کے دوران نہ کوئی اس کے خلاف کوئی احتجا ج کرسکتا ہے اور نہ ہی میڈیا حقیقت بیان کررہی ہے اس لئے کرونا ک کی وبا میں جہاں ملک کاعام شہری لرزہ بر اندام ہے وہیں ملک کی اقلیت خوصاً مسلمان کے لئے اس وبائی فضا میںکھلی سانس لینا بھی محال بن گیا ہے۔