خوشحالی کا ہندسہ ہی اصلی ہندسہ ہے ! | غلط ہندسوں کی رَو میں بہہ جانا عقل مندی نہیں فہم و فراست

سید مصطفیٰ احمد ،بڈگام

ہماری زندگیاں اب مختلف ہندسوں کا دوسرا نام ہوکر رہ گئی ہیں۔ خوشحالی کے ہندسے سے لے کر ترقی کے ہندسوں کی ہر جگہ ریل پیل ہیں۔ ہر ملک اس دوڑ میں لگا ہوا ہے کہ کیسے دوسروں کو پچھاڑ کر ہندسوں کے معاملے میں دوسرے ممالک سے سبقت لے جائیں۔ جس ملک کا ہندسہ جتنا نمبرات کے پیمانوں میں اونچے پائیدان پر براجمان ہوتا ہے اتنی ترقی اور ذہنی ترقی کے طے کئے گئے منازل اس ملک کے ساتھ منسوب کئے جاتے ہیں۔ اگر ہم ہندوستان کی بات کریں تو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہونے اور دنیا کی تیسری بڑی معیشت بننے کی دوڑ میں ہونے کے باوجود ہندوستان فی کس آمدنی کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ Viksit Bharat کا خواب تب تک ادھورا ہے جب تک per capita income میں نمایاں تبدیلیاں رونما نہیں ہوتی ہے۔ ایک ملک کا GDP کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، ترقی فی کس آمدنی، expenditure اور savings کے پیمانوں سے تولا جاتا ہے۔ جب تک لوگوں کے پاس نوکریاں اور خرچ کرنے کے لیے پیسے نہ ہو، ان حالات میں حقیقی ترقی کرنا سراب ہے۔ بنیادی ڈھانچے کو مضبوط بنانے کے علاوہ نئے نئے پروجیکٹس کا افتتاح کرنا خوش آئند بات ہے، لیکن بات گھما پھرا کر بات اس نقطے پر مرکوز ہوجاتی ہے کہ جب تک ملک کے باشندے ترقی میں اپنا مثبت رول نہیں نبھاتے ہیں تب تک ہندسوں کے جھانسے میں آنا پاگل پن کی انتہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ملکی خزانے کا حجم کم ہونے کے باوجود انسانی ترقی کی مثالیں چارسو ہیں۔ سنگاپور، فن لینڈ اور یورپ کے کچھ ممالک اپنے باشندوں کی خاطر ایسے innovative اقدامات اٹھاتے ہیں کہ عقل دھنگ رہ جاتی ہیں۔ Regressive taxes کی کاٹ سے بچا کر وہ اپنے باشندوں کی خاطر progressive taxes کو ہی پسند کرتے ہیں۔ ملک کا خزانہ اگر عام لوگوں سے حاصل کئے گئے ٹیکسز پر منحصر ہے تو اس ملک میں خوشحالی کا ہونا لگ بھگ محال ہے۔ Tax structure کی بجلی اگر صرف غریب کے آشیانے پر ہی گرتی ہو، تو اس ملک میں اقتصادیات کی جڑیں کمزور ہونے کے علاوہ کارآمد وسائل کا ضائع ہونا عام بات ہے۔

جیسے کہ اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ملک کی حتمی ترقی پر قدغن لگ جاتی ہے جب خوشحالی کو نظرانداز کرکے زندگی کی دیگر فروعی ضروریات کو مقدم کرتے ہوئے ملک کی ریڑھ کی ہڈی پر کاری ضربیں لگائی جاتی ہیں۔ اس طرح انسانی وسائل کا سب سے زیادہ نقصان ہوجاتا ہے اور دھیرے دھیرے اس ملک کے ترقی کے خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتے ہیں۔ کرپشن، غبن، جھوٹ، قتل، چوری، وغیرہ اس ملک کی عام سی باتیں ہوجاتی ہیں۔ جب بڑی بڑی عمارتیں ہونے کے باوجود عام انسانوں کی زندگی میں کوئی اونچائی نصیب نہ ہوں، تب شاہراہوں اور چمچماتی ہوئی دیگر چیزوں کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے، سوائے ان کے لئے جن کی زندگیوں میں ٹھوس اور پائیدار انکم ہوتی ہیں۔ جب ایک ملک کا سارا دھیان پُرفریب ہندسوں پر مرکوز ہوجاتا ہے تو ترقی کے منازل طے کرنا آہنی چنے چبانے کے مترادف ہے۔ جب دنیا میں تسلیم شدہ پائیدانوں کو ہی اول اور آخر سمجھا جاتاہے تب بےروزگاری اور اعلیٰ اذہان کا مختلف اندھیروں میں گرجانا فطری بات ہے۔ اس کا ایک اور نتیجہ اس شکل میں نکلتا ہے کہ لوگ اس ملک سے ہجرت کرکے دوسرے خوشحال ممالک میں رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ معیشت کی خرابیاں سیاسی خرابیوں کی جڑوں کی آبیاری بھی کرتی رہتی ہیں۔ اس کو ہم brain drain کے معنوں میں بھی سمجھ سکتے ہیں۔ غموں کے بادل اس ملک کی قسمت بن جاتی ہے جہاں پر ہر آن چکاچوند کرنے والی عارضی مسرت کو ہی کل مسرت سمجھا جاتا ہے۔ دن کی روشنی بھی گھٹا ٹوپ اندھیروں میں تبدیل ہوجاتی ہے جب جھوٹی ترقی کی فکر دامن گیر ہوجاتی ہے۔

ضروریات زندگی کا پورا ہونا ایک معیشت کے لیے grease کا کام کرتی ہے۔ اس سے معیشت میں رفتار برقرار رہتی ہے۔ اس سے خودبخود خوشحالی کے پیمانے میں سدھار آنا شروع ہوجاتا ہے اور دھیرے دھیرے ملک کی comprehensive ترقی کا خواب پورا ہوجاتا ہے۔ جب بیشتر لوگ خوشحالی کی فضا میں سانس لے رہے ہوں تب معیشت میں بھی اچھال دکھائی پڑتا ہے، جس سے آگے کی راہیں کھلتی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ ملک ہمہ گیر ترقی سے لیس GDP, HDI, Per Capita Income, World Freedom Index, وغیرہ ہندسوں کے سب سے اونچے پائیدان پر براجمان ہوکے اپنےلئےاور دوسرے ممالک کے لئے بھی خوبصورت راہیںمتعین کرتےہیں۔یہ ساری باتیںایک ہمہ گیر سوچ اور implementation کے متقاضی ہیں۔ جامع پروگرام بنانے کے بعد اس کو عملی جامہ پہنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر ہم سب کو اپنے ملک کی حقیقی ترقی کی طرف دوڑنا چاہیے۔یہ راستہ مشکل ہی سہی مگر امید برقرار ہے جس سے دل میں ایک خوشی کی لہر دوڑتی ہے کہ ہاں! آنے والا کل اپنے ساتھ خوشحالی اور پائیداری کے بیج ساتھ لائے گا۔ دنیا کے بڑی ماہر اقتصادیات جیسے Thomas Pikkety, Arvind Panagariya, Raghuram Rajan, Dr Manmohan Singh, Urjit Patel, Abhijit Bannerjee, وغیرہ حضرات کی رائے لے کر ملک کی معیشت کو صحیح ڈگر پر لایا جاسکتا ہے۔ نئے نئے ماڈلز کو کیسے عملایا جاتاہے، اس کی بھی جانکاری باہمی تعاون اور مشوروں سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ سارا کھیل اپنے ہاتھوں میں ہے۔ تو آئیے خوشحالی کو بنیادی مقصد بنا کر مصنوعی اور غلط ہندسوں کی رو میں بہنے سے اجتناب کرتے ہوئے ملک کی کل ترقی میں تن اور من کے ساتھ جڑ جائیں، یہی وقت کی بھی ضرورت ہے۔
(رابطہ۔7006031540)