خودکشی عالمی سطح پر انسانی سماج کیلئے ایک بہت سنگین مسئلہ بن چکاہے۔ عالمی ادارئہ صحت کے اعدادو شمار کے مطابق دنیا میں سالانہ سات لاکھ سے زائد لوگ خود کشی کرتے ہیںجس کا مطلب ہر چالیس سکینڈ میں ایک شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے ۔دورحاضر میں ہونے والی بہت سی تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ نوجوان نسل میں خود کشی کے رحجانات گزشتہ کئی دہائیوں کی نسبت بہت بڑھ چکے ہیں بلکہ نوجوان طبقے میں خود کشی کرنے والوں میں ایک بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی)کے 2019 کے اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت میںروزانہ اوسطا ً381 افرادخودکشی کرتے ہیں۔
انسان اپنی نفسانی خواہشات کا غلام بن چکا ہے۔ بچہ، نوجوان اور بوڑھا ہر بندہ کسی نہ کسی طرح اپنی خواہشات کے حصار میں قید ہے۔ انسان جسے اشرف المخلو قات کا درجہ عطا کیا گیا ہے، تمام دوسری مخلوقات پر اسے اپنے طرز زندگی، سوچ و افکار کے وسیع و مختلف انداز کی بدولت فو قیت حاصل ہے۔ اسکا دماغ اور ذہن بہت وسیع ہے اسکی یہی خاصیت اسکو باقی تمام مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔انسان اپنے اچھے، برے ،صحیح اور غلط میں تمیز کر سکتا ہے۔ لیکن اسکے باوجود اسکی عقل و شعور کے تمام دروازے بند ہو چکے ہیں اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمت ِ زندگی سے چھٹکارا پانے کے لئے خودکشی جیسے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے۔
طلبہ اور نوجوانوں میں منفی خیالات ا و رجحانات کا پانا اس بات کی دلیل ہے کہ یقینا ہمارے تعلیمی اور سماجی نظام میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔کوئی ایسی بات یا فکر ہے جو ہماری نوجوان نسل کو خودکشی جیسے انتہائی ا قدام پر مجبور کر رہی ہے۔خودکشی کی خبریں خاص طور پر نوجوان نسل کی جانوں کے اتلاف کی خبریں آئے روز سماج کے ذی حس طبقے کو پریشان کررہی ہیں۔نوجوان نسل ہمارابیش قیمتی اثاثہ ہے اورقوم کی تعمیر و ترقی میں ان کے کردار کو ہر گز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
خودکشیوں کے جن بڑے بڑے وجوہات کی دنیا بھر کے ماہرین نے نشاندہی کی ہے وہ کم و بیش ایک جیسے ہیں۔ مگر پھر بھی یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ دنیا بھر میں ہونے والی خود کشیوں کی وجوہات ایک جیسی ہوتی ہیں کیونکہ ہر خودکشی کے واقعے کی اپنی ایک کہانی اور ایک وجہ ہوتی ہے۔عالمی سطح پر خود کشی کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن قرار دیا گیا ہے لیکن اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں ۔مالی پریشانیاں ، گھریلو جھگڑے، بے روزگاری ، امتحان میں ناکامی اور پسند کی شادی نہ ہوناوغیرہ کے باعث انسان کی قوت برداشت ختم ہونے کے سبب اس رحجان میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ دیکھا جائے تو ہر طبقہ اقدام خودکشی کا حریص نظر آتا ہے۔ماہرین کے مطابق اگر مریض کی بروقت نشاندہی کی جائے تو اسے علاج یا کونسلنگ سے بچایا جاسکتا ہے۔
اقدامِ خود کشی کو پوری دنیا میں قانونی جرم تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن اب عالمی سطح پر اس با ت کی کو شش کی جا رہی ہے کہ اقدامِ خودکشی کو جرم کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ ہندوستان سمیت کئی ممالک نے اس ضمن میں پیش رفت دکھائی ہے۔انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 309 کے تحت اقدمِ خود کشی کرنے والے شخص کو ایک سال تک جیل میں رکھنے کا قانون تھا لیکن 8اگست 2016 کو حکومت ہند نے مینٹل ہیلتھ کئیر بِل کی منظوری دی لہٰذا اب اقدمِ خود کشی کرنے والے شخص کو مجرم سمجھنے کی بجائے علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ نے 1990 میں خودکشی سے بچائو کیلئے بین الاقوامی پالیسی کی منظوری دی اور 10 ستمبر2003 کو پہلی مرتبہ خودکشی سے بچائو کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ اس کے بعد اس دن کو دنیا بھر میں لوگ یہ دن مناتے ہیں، بچھڑنے والوں کو یاد اور بچ جانے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہیں۔ساتھ ہی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس سماجی مسئلہ سے متعلق رائے عامہ کو ہموار کیا جائے اور خودکشی کی روک تھام کے لئے مختلف سرگرمیاں، پالیسیاں اور منصوبے بنا کر سماج سے اس لعنت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔
اسلام خودکشی تو درکنار مایوسی ، جو خود کشی کی طرف بڑھنے والا پہلا قدم ہے، کو بھی حرام قرار دیتا ہے۔ اسلا م خود کشی کی کسی تو جیہ کو قبول نہیں کرتا حتی کہ شدید بیماری اور معذوری کی حالت میں بھی نہیں۔قرآن میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’ور نہ ہم ضرورتمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور گھاٹے میں مبتلا کر کے آزمائیں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے اور مصیبت میں صرف اللہ پر ہی تو کل کریں گے کہ ہماری جان و مال سب خدا کی امانت ہے، اسی طرف لوٹ کر جانا ہے تو انہیں خوشخبری دے دو کہ ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہو ں گی۔(البقرہ)‘‘ اس آیت میں صبر کو خود کشی کے سد باب کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ خود کشی کے متبادل کے طور پر صبر کی بہترین مثال ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کی پاک زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔حضرت ایوب ؑ نے کئی برس بیماری کی حالت میں گزارے لیکن صبر کا دامن اس یقین کے ساتھ ہاتھ سے جانے نہیںدیا کہ جس خدا نے اس آزمائش میں ڈالا ہے وہ ضرور اس میں سرخرو بھی کرے گا اور ان کے اس یقین کی بدولت اللہ نے انہیں شفا ئے کاملہ عطا فرمایا۔
خودکشی کرنے والے کے ساتھ نہ صرف خدا کا معاملہ دردناک ہوگا بلکہ دنیا میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس کے برے نتائج سے اس کے گھروالے اور عزیز واقارب دوچار ہوتے ہیں اور ان کے گھر والوں کے ساتھ طعن و تشنیع کا معاملہ کرتے ہیں اور معاشرہ کی ہمدردی سے بھی وہ محروم ہوجاتا ہے۔ خودکشی کرنے والا تو چلا گیا مگر اس کے اس غلط عمل سے ان کے احباب کو کتنا نقصان پہنچتا ہے اس کا اندازہ اگراسے ہوجائے تو کوئی شخص اس فعل حرام کا مرتکب نہیں ہوگا۔
یادرکھیے کہ زندگی ایک دفعہ ملتی ہے، اسے اپنے ہاتھوں سے ضائع نہ کریں۔ اس مسئلے کے حل کیلئے خاندان ، اسکول اور مقامی معالجین کی سطح پر شعور اور آگاہی کے نظام کو بہتر بنا نا ہوگا۔ ذہنی صحت سے متعلق غلط فہمیوں کو دورکرنا ہوگا۔ خودکشی پر آمادہ لوگوں کی کونسلنگ کرنا ہوگی۔ میڈیا کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مختلف سرگرمیوں کے ذریعے مثبت پیغامات دینے ہوںگے۔کیسے ہی حالات کیوں نہ ہوں، صبر اور شکر کا دامن کبھی بھی نہ چھوڑئے۔ ہر انسانی زندگی عروج اور زوال کی داستان ہے اور یہ دونوں کسی کی زندگی میں زیادہ دیر نہیں ٹکتے۔ ان میں سے کس کا دورانیہ زیادہ ہوگا، یہ سراسر خود انسان پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کیسے ڈیل کرتا ہے۔قرآن مجید میںواضح کیا گیا ہے کہ ’’بے شک ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے‘‘۔ تو بس اللہ پر یقین رکھئے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔
منفی رجحانات سے نبردآزمائی کے لئے نئی نسل کی کم عمری سے ذہنی تربیت کی اشد ضرور ت ہے۔ذہنی طور پر نوجوان نسل کو مضبوط بنانے کے لئے والدین اور اساتذہ آگے آئیں۔بچوں کو زندگی کے نشیب و فراز،سرد و گرم، تلخ و شیرین حالات کا علم فراہم کریں۔ بچوں کو مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور انہیں حل کرنے کا ہنر سکھائیں۔بچوں پر کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے کے بجائے ان میں امید،حوصلہ اور ہمت کو جاگزیں کریں۔والدین اور اساتذہ بچوں کے مسائل اور ان کی ذہنی حالت کا صحیح ادراک کریں۔ان کے ذہنوں میں محنت اور جستجو کی اہمیت کو اجاگر کریں۔انہیںبتائیں کہ مسلسل محنت و جستجو سے مشکل اور ناممکن کام کو آسان ا ور ممکن بنایا جاسکتا ہے۔موت کبھی مسائل کا حل نہیں ہوسکتی۔یہ ایک بزدلانہ فعل ہے۔بچوں میں ہمت و حوصلہ پیدا کریں کہ وہ مشکلات اور مسائل سے راہ فرار اختیار کرنے کے بجائے ان کا سامنا کریں۔مشکلات و مسائل سے فرار اختیار کرنا اور اپنی جان گنوا بیٹھنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ اپنی زندگی سے مسائل و مشکلات کو فرار ہونے پر مجبور کردینا بڑی بات ہے۔ معاشرے میں کبھی خاموشی مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل میں اضافے کا سبب بنی ہے۔ شعوری بیداری اور ذہن سازی نوجوان نسل میں پائی جارہی ناامیدی ،حرماں نصیبی اور اضطرابی کیفیت کو ختم کرتے ہوئے انہیں ترقیوں کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔