کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقے سے ہلاک کرنے کا عمل ’خودکشی‘ کہلاتا ہے۔انسا ن کئی ایسے مراحل سے گزرتاہے یا اس کی زندگی میں کئی ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیںجن سے یا تو وہ سنبھل کر زندگی کی طرف واپس چلا آتا ہے یا پھر وہ ان حالات ،مشکلات میں اس قدر پھنس جاتا ہے جن سے وہ کبھی باہر ہی نہیں نکل پاتا اور دھیرے دھیرے وہ انسان ذہنی مرض کا شکار ہو جاتا ہے جو کہ ایک بڑی علامت ہے خودکشی کے خیالات کا آنا۔خود کشی ایک ایسا فعل ہے جس کے بارے میں اکثر لوگ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر سوچتے ضرور ہیں۔
کبھی کبھی انسان اُداسی ،مایوسی،تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ فطری عمل ہے ۔ انسان ان سب کیفیات سے گزرتا تو ضرور ہے اور عموماً یہ سب کچھ ایک یا دو ہفتے میں ٹھیک ہو جاتی ہیں اور ان سب کا ہماری زندگی پہ زیادہ فرق نہیں پڑتا۔لیکن کبھی یہی اُداسی،مایوسی،تکلیف بہت دنوں تک یا اس سے زیادہ وقت تک رہے اور اداسی کی شدت اتنی زیادہ ہو کہ روز مرہ کے معمولات اس سے متاثر ہونے لگیں تو یہ ڈپریشن کی علامات ہوتی ہیں اور انسان ڈپریشن یا دماغی مرض کا شکار ہو جاتا ہے۔
طبی اصطلاح کے مطابق اگر ایک انسان میں مندرجہ ذیل میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ ڈپریشن کے مرض کا شکا ر ہے ۔
1۔ ہر وقت یا زیادہ تر وقت اُداس یا افسردہ رہنا۔
2۔جن چیزوں اور کاموں میں پہلے دلچسپی ہو، ان میں دل نہ لگنا۔
3۔جسمانی یا ذہنی کمزوری محسوس کرنا،بہت زیادہ تھکا ن محسوس کرنا۔
4۔روزمرہ کے کاموں یا باتوں پہ توجہ نہ دے پانا۔
5۔اپنے آپ کو اوروں سے کمتر سمجھنے لگنا،خود اعتمادی کم ہو جانا۔
6۔ماضی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے اپنے آپ کو الزام دیتے رہنا،اپنے آپکو فضول اور نا کارہ سمجھنا۔
7۔نیند نہ آنا۔
8۔بھوک نہ لگنا۔
9۔خودکشی کے خیالات آنا یا خود کشی کی کوشش کرنا۔
ڈپریشن یا دماغی مرض ،جو کہ ایک بڑی علامت ہے خود کشی کے خیالات کا آنا۔خود کشی کرنے والے افراد یا اس کی کوشش کرنے والے افراد اپنے آپ کو دوسروں سے کمتر سمجھتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتا ہیں کہ لوگ ان کی خوبیوں کو سراہنے کے بجائے اُن کی خامیوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔اور وہ اپنی شخصیت کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر چاہے وہ کتنے ہی مشکلات سے گزر رہے ہوں، اس بات سے کسی کو بھی آگاہ نہیں کرتے اور وہ مشکلات سالہا سال بڑھتی ہی جاتی ہیں ،یا انسان کسی حادثے کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ اس حادثے کو بھول نہیں پاتا اور آخر کا زندگی بے معنی نظر آنے لگتی ہے اور انسان اپنی زندگی ختم کرنے کے بارے میں سوچنے لگتا ہے۔ دوسرے لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جو آپ کو روز ہنستے،مسکراتے اور خوش باش نظر آئیں گے،لیکن وہ بھی کسی نہ کسی تکلیف کی وجہ سے ذہنی پریشانی کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔کیونکہ اس میں اکثر انسان اپنی پریشانی دوسروں کو نہیں بتاتا اور ایسے لوگ جب خود کشی کر بیٹھتے ہیں تو انسان کو یقین کر پانا مشکل ہوتا ہے۔ایسے لوگ جو اس طرح کے ڈپریشن کا شکار ہوچکے ہوتے ہیں جسے طبی اصطلاح میں ’’فنکشنگ ڈپریشن‘‘کا نام دیا جاتا ہے۔
آئے روز ہمیں یہ خبریں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ کسی نے زہر کھا کے خود کشی کر لی،کسی نے پنکھے سے لٹک کے خود کشی کر لی،کسی نے چلتی ہوئی گاڑی کے سامنے آکے اپنی جان دے دی۔کئی وفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم اپنی بات دوسروں کو بتا دیتے ہیں جو کہ اُس ڈپریشن میں مبتلا انسان کی تکلیف ،اس کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہوتی ہے ،آپ کوکچھ نہیں ہے ،زیادہ سوچ مت کہہ کے اُن باتوں پر دھیان نہیں دیتے کیونکہ ہم اس چیز کو اپنے نظرئے سے دیکھتے ہیں۔اگر واقعی ہم اُس کی طرف دھیان دیتے ،اسکی بات کو سمجھتے تو اس کے لئے بھی آسانی ہوتی۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان زیادہ تر ڈپریشن کا شکا ہو جاتے ہیں اور اپنی زندگی کو ختم کرنے کے رجحانات ان میں باقیوں سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔اس معاملے میں اگر دیکھا جائے تو والدین کا ایک اہم رول بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت دیں ۔اگر ان میں کوئی نئی علامت پائی جائے تو اس کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے بچے کو دماغی مرض کا شکار ہونے سے بچائیں۔خودکشی کے رجحانات رکھنے والے لوگ یا انتہائی قدم اٹھانے والے لوگ محبت،ہمدردی اور شفقت کے مستحق ہوتے ہیں۔ایسے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔وہ اپنی پریشانی کسی کو نہ بتا کر ،دوسروں کو تکلیف نہ دے کر اپنے مشکلات کا ازالہ اپنی جان دے کر کردیتے ہیںکیونکہ ان کی ذہنی کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ وہ یہ سوچیں کہ آخر وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
رابطہ۔صفاپورہ،مانسبل