قرآن کے ’’من جانب اللہ‘‘ہونے کی دو حیثیتیں ہیں۔ایک یہ کہ قرآن ’’کتاب اللہ ‘‘ہے یعنی اللہ کی کتاب ‘اور دوسرے یہ کہ قرآن ’’کلام اللہ‘‘ہے یعنی اللہ کا کلام۔آپ قراان کو کلام اللہ کی حیثیت سے پڑھتے ہیں تو گویا اللہ تعالیٰ سے ہمکلام ہوجاتے ہیں۔آپ پر معر فتِ الٰہی کے حصول کی راہیں کھل جاتی ہیں۔آپ پر اُن حقیقتوں کا انکشافات ہوجاتاہے ‘جن سے عام لوگ کبھی واقف نہیں ہو پاتے۔اور پھر آپ قرآن کو کبھی رسمی زاوِیہ نگاہ (Traditional belief)سے نہیں پڑھتے ‘بلکہ آپ کے دل میں قرآن کے حقیقتِ متعلقہ ہونے کا راسخ یقین بیٹھ جاتاہے اور آپ ہر شعبہ ہائے زندگی میں قرآن کو رہنما بناتے ہیں۔گویا کہ یہ قرآن آپ کے وجود میں سرایت کرجاتا ہے اور قرآن کے متعلق آپ کے محسوسات یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔بقول شاعر’’ایں کتابے نیست ‘چیزے دیگر است ‘‘ یعنی یہ قرآن کوئی (عام )کتاب نہیں بلکہ کچھ اور ہی شئے ہے۔عبداللہ ابنِ مبارک ؒ سے کسی نے پوچھا تھا کہ حضور !آپ تنہائی پسند ہوگئے ہیں‘لوگوں سے ملتے جلتے نہیں۔کیا آپ گھر میں اکیلے اْکتا نہیں جاتے؟۔عبداللہ ابنِ مبارک ؒنے جواب دیا کہ کیا آپ کو لگتا ہے وہ شخص جو اپنے ربّ سے کلام کرتا ہوعاجز آئے گا؟بات یہ ہے کہ میں تلاوتِ قرآن میں مصروف رہتا ہوں۔
قرآن کے کتاب اللہ ہونے کے ضمن میںسورۃالبقرہ کے ابتدائی کلمات کا مطالعہ قدرے اہم ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’یہ کتاب اس میں کوئی شک نہیں ‘بچنے والوں کے لئے ہدایت ہے‘‘۔مذکورہ آیت میں ’’الکتاب‘‘سے قبل ’ذالکَ‘‘کا لفظ آیا ہے۔عربی زبان میں اسمائے اشارہ کے دو گروپ قائم کئے گئے ہیں۔اول وہ گروپ جسے ’’اسمائے اشارہ للقریب‘‘کا نام دیا گیا ہے۔یعنی وہ اسمائے اشارہ جن سے قریب کی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔جیسے ’’ھٰذا‘‘ معنی ہونگے ’یہ ‘یا’’ھٰذَانِ‘‘معنی ہونگے ’یہ دو‘وغیرہ۔دوم وہ گروپ جسے ’’اسمائے اشارہ للبعید‘‘کا نام دیا گیا ہے۔ یعنی وہ اسمائے اشارہ جن سے دور کی چیز کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔جیسے’’ذٰلِکَ‘‘معنی ہونگے’ وہ‘اور ’’ذٰنِکَ‘‘معنی ہونگے ’وہ دو‘وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوا کہ’’ ذٰلِکَ‘‘کا ترجمہ ہوگا’ وہ‘۔لیکن مذکورہ آیت کے ذیل میں قریب قریب ہر مفسر اور ترجمہ نگار نے ’’ ذٰلِکَ‘‘ کا ترجمہ یہ سے کیا ہے۔جس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان میں جب کسی چیز کو عزت دینا مقصود ہوتو دور کے اسمِ اشارہ کو قریب کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے۔اور قرآن کا از اول تا آخر ہر حرف بلا کسی شک قابلِ عزت اور تکریم ہے۔بلکہ حق تو یہ ہے کہ قرآن کی تعظیم ایمان کا جْزو لا ینفک ہے ‘ جس کے بغیر انسان کا ایمان خالص ہوسکتا ہے اور نہ مکمل۔
لَا رَیبَ فِیہِ :۔قرآن چونکہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کے کلام میں قطعاً کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔لیکن انسان کی فطری کمزوری اور ذہنی کج روی کے پیشِ نظر اللہ تعالیٰ نے خود اپنی طرف سے اعلان کردیا’’ اس میں کسی بھی طرح کا کوئی شک نہیں ہے‘ہدایت ہے بچنے والوں کے لئے‘‘۔ ’’لَا‘‘عربی زبان میںنفی کے لئے مستعمل ہے اور ’’لائے نفئی جنس ‘‘ کہلاتاہے۔یعنی جس چیز سے قبل مستعمل ملے ،اُس چیز کی ہر جنس کی نفی کرتا ہے۔گویا شک کی جتنی بھی قسمیں ہیں ‘عقلی ہو ںیاقلبی قرآن ان سے ْمبرا اوربلند کتاب ہے۔چنانچہ قرآن ہر طرح کے اختلاف،تضاد ا ور شک وشبہ سے پاک ہے ،جو اس کی من جانب اللّہ ہونے کی ایک قوی دلیل ہے۔سورہ النساء میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’کیا وہ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور اگر وہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے‘‘(النساء ۔82)
شیخ محمد بن صالح العثیمینؒاس حوالے سے لکھتے ہیں ’’اگر کسی چیز کی وجہ سے آپ کے فہم میں تعارض کا تاثر پیدا ہوتا ہے تو یہ تعارض نص(آیات ِقرآنیہ) میں نہیں ہوتا بلکہ آپ کی اپنی معلومات کے اعتبار سے ہوتا ہے، جب آپ کو کتاب وسنت کی نصوص میں تعارض نظر آئے تو ایسایا تو کم علمی کی وجہ سے ہوگا یا قصورِ فہم کی وجہ سے ہوگا۔یا پھر بحث و تدبر کا حق ادا نہ کرسکنے کی وجہ سے۔اگر کماحقہ بحث و تمحیص اور تدبر سے کا م لیا جائے تو بظاہر نظر آنے والا تعارض لا اصل ثابت ہوگا۔کبھی کبھی اس کے پیچھے قصدوارادہ کی خرابی بھی کار فرماہوا کرتی ہے ‘ جس سے انسان توفیقِ ایزدی سے محروم ہوجاتاہے بالکل اُن باطل پرستوں کی طرح جو آیات ِ متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں‘‘(شرح عقیدۃ الواسطیہ 76)۔مزید برآں قرآن کو ’’ھْدًی لِّلمْتَّقِینَ‘‘کہا گیا ہے۔یعنی یہ بچنے وا لوں کے لئے ہدایت ہے۔اب ہدایت کس چیز کو کہا جائے؟اور یہ کیوں کر حاصل ہو ؟اس حوالے سے ابو نعمان سیف اللہ خالد حفظہ اللہ نے بہت ہی عمدہ بات کہی ہے۔وہ یہ کہ ہدایت کا ایک معنیٰ راستہ دکھانا ہے اور ایک معنیٰ منزل تک پہنچادینا۲ ؎۔اول الذکرمعنیٰ میں قرآن تمام بنی نوح انسان کے لئے سرچشمئہ ہدایت ہے یعنی یہ ہر اس شخص کو صراطِ مستقیم کا فہم عطا کرتا ہے جو اس کی آیات پر کما حقہ غور وفکر کرتا ہے ’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لئے ہدایت ہے‘‘(البقرہ۔185)، ’’یہ لوگوں کے لئے ایک وضاحت ہے اور بچنے والوں کے لئے ہدایت اور نصیحت ‘‘(آلِ عمران۔138)۔ دوسرے مفہوم میں قرآن صرف اْن لوگوں کے لئے ہدایت ہے جنہوں نے تقویٰ کی رَوش اختیار کی۔اور وہی لوگ ہیں جنہیں قرآن منزلِ مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔اْنہیں صراطِ مستقیم کا فہم بھی عطا ہوتا ہے اور وہ ہمہ تن اس پر گامزن بھی ہوتے ہیں۔اُن کے ضمیر پر گویا قرآن کا نزول ہوجاتاہے اور اُن کے ظاہر وباطن پر ’’صِبغَۃ َاللّٰہ ‘‘۳ ؎کے مصداق اللہ کا رنگ غالب آتا ہے۔اور اُن کا مزاج اور کی طبیعت کچھ ایسی بن جاتی ہے کہ قرآن کو اپنی زندگی کا حَکم بناتے ہیں۔
رجوع الی القرآن:۔اس میں دورائے نہیں کہ قرآن فہم ِ دین کا پہلا ماخذ(source) ہے۔لہٰذا ہر اختلاف اور تذبذب کے وقت قرآن کی طرف رجوع کرنا اور اسے تھامے رکھنا لازم ہے۔سلفِ صالحین میں سے ہر ایک کایہی طریقہ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں اسلام کے اساسی اور بنیادی عقائد میں کوئی تعارض تھا اور نہ کوئی اختلاف۔اصول میں وہ سب قرآن وسنت کے پابند تھے،فروع میں اگر چہ اُن کا زاوِ نگاہ مختلف رہا ہے۔اس بات کی وضاحت بھی کردوں کہ فہمِ دین کے بنیادی طور پر کْل دو ہی ماخذ ہیں۔اول تو ہے قرآنِ مجید جس کا ذکر قبل ازیں گزر چکا اور اُس کے بعد دوسرا ماخذ ہے سنتِ رسول اللہ ؐ۔یہ بات آپ کے علم میں ہوگی کہ قرآن کے لئے وحی متلو کی اصطلاح مستعمل ہے یعنی تلاوت کی جانے والی وحی اور احادیث نبویہؐکے لئے وحی غیر متلو کی اصطلاح۔یعنی ایسی وحی جس کی تلاوت نہ کی جاسکے۔وحی کا اطلاق البتہ اس پر بھی ہوگا۔وحی کا نزول ظاہر سی بات ہے اللہ کی جانب سے ہی ہوتا ہے ،لہٰذا احادیثِ نبویہ ؐ بھی اصل میں اللہ ہی کاکلام ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’رسولؐ اپنی خواہشِ نفسانی سے نہیں بولتا ‘دین کے بارے میں وہ جو کچھ بھی منہ سے نکالتے ہیں وہ سب اللہ کی وحی کی بنا پر نکالتے ہیں‘‘(النّجم۔3)۔گویا قرآن کے بعد سنت ِ رسولؐکوقرآن کے قائمِ مقا م سمجھاجائے گا۔
قرآن اور سنت ہی اصل میں مکمل دین ہے۔اُس کے بعد اگر چہ آثارِ صحابیٰؓ اور اقوالِ تابعین کو بھی کافی اہمیت حاصل ہے تاہم شریعت اور اصولِ دین میں قرآن وسنت کی پیروی کی جائے گی۔یہ بات البتہ ضرور ہے کہ قرآن وسنت کواسی فہم وادراک پر لیاجائے گاجس پر صحابیٰؓ ‘تابعین اور باقی سلفِ صالحین نے اس کو سمجھاہے۔ حق تو بلکہ یہ ہے کہ فہمِ صحابیٰ ؓکے بغیر قرآ ن وسنت کو سمجھنا ممکن ہی نہیں یا شائد جائز ہی نہیں۔کیوں کہ صحابیٰ ؓ کے یہاں قرآن وسنت کو سمجھنے کا معیار عقل ، تصوف یا علمِ کلام نہیں تھابلکہ یہ چیزیں تو کافی بعد کی اختراعات ہیں۔صحابیٰ ؓجب قرآن کی کسی آیت کو سمجھنے میں دقت محسوس کرتے تو وہ عقل کے گھوڑے دوڑانے کے بجائے رسول اللہ ؐ کی طرف دوڑتے۔مثال کے طور پر جس وقت یہ آیت نازل ہوئی ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایااْن ہی کے لئے امن ہے اور وہی لوگ ہیں راہ یافتہ‘‘ (الانعام۔82)توصحابیٰؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ!ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر ظلم نہ کیا ہو۔اس پر رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ یہاں ظلم سے مراد وہ نہیں ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہو،بلکہ یہاں ظلم سے مرادشرک ہے اور پھر آپؐ نے سورہ لقمان کی آیت پڑھی‘جب لقمان ؑ نے کہا’’اے میرے بیٹے!اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ‘یقیناًشرک بہت بڑا ظلم ہے‘ ‘(البخاری۔4629) ۔صحابیٰؓ ’’ظلم‘‘کوعام معنی میں لیکر اسے ہر گناہ پر قیاس کررہے تھے۔جبکہ رسول اللہ ؐکی وضاحت سے معلوم ہوا کہ یہاں ظلم کا لفظ عام معنیٰ میں استعمال نہیں ہوا ہے ‘بلکہ یہاں اس کا معنیٰ شرک کے لئے مختص ہے۴ ؎۔
فہمِ قرآن کا یہ اصول بعد میں مفقود ہوگیا اور قرآن کو سمجھنے کے لئے تصوف ،علمِ کلام اور منطق جیسے پیمانے تراشے گئے ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ قرآن کی اصل روح اور بنیاد سے کٹ کر تنکوں کی طرح ادھر اُدھربکھر گئے۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
خواراز مہجورے قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
یعنی قرآن سے دور ہوکر تم خوار ہوگئے مگر افسوس کہ تم اس کا الزام زمانے پر ڈال رہے ہو۔
رابطہ :سیر جاگیر سوپور،کشمیر،موبائل نمبر: 8825090545