دسمبر ۲۰۱۲ نئی دہلی جہاں ایک معصوم دوشیزہ 23 سالہ دامنی نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے داعی اجل کو لبیک کہا اور ہم سے سدا کے لیے دور موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں پڑوسی ممالک میں بھی زبردست احتجاج کیا گیا۔ مشرق سے مغرب ( آسام سے راجستھان تک) اور شمال سے جنوب ( کشمیر سے کنیا کماری تک) اس کا چرچا ہے۔ اس درد ناک موت پر تقریباً سبھی ہندوستانی خواتین کی آنکھیں نمدیدہ ہیں۔ اہل وطن نے اشکبارآنکھوں سے دامنی کو الوداع کہا، وہ شرمناک واقعہ جو ہندوستانی کی راجدھانی دہلی میں ہوا اس کی ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں کی جانب سے پر زور مذمت کی گئی۔ شدید عوامی احتجاج میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ جس نے پارلیمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا۔ دہلی جو ہندوستان کا دارالحکومت ہے۔ اس کے تعلق سے شاعر نے کہا تھا :
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو !
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلی جو ایک شہر تھا عال میں انتخاب
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
وہ شہر جس کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں کیا جاتا رہا ہے۔ جہاں ہرروز غیر ممالک سے مختلف مقاصد کے تحت لوگ دورہ کرتے ہیں۔ وہاں ہرروز کرپشن بڑھ رہی ہے۔ چوری، رشوت خوری، ڈاکہ زنی آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ کچھ برسوں قبل نوئیڈامیں بچوں کی چوری اور قتل کی خبر اخبارات کی شبہ سرخیوں میں تھی۔ جب ہندوستان 1947ء کو آزاد ہوا۔ تو اسی شہر دلی کے لال قلعے کی فصیل پر ترنگا لہرانے لگا۔ یونین جیک اتارلیا گیا اور آزادی ملی۔ جن کے دلوں میں برسوں سے یہ جذبات امڈ رہے تھے۔
وہ وقت آنے کو ہے آزاد جب ہندوستان ہوگا
مبارکباد اس کو دے رہا سارا جہاں ہوگا
علم لہرا رہا ہوگا ہماری رائے سینا پر
اور اونچا سب نشانوں سے ہمارا یہ نشاں ہوگا
15؍ اگست 1947 ء کو ہندوستان آزاد ہوا اور پنڈت جواہر لال نہرو جیسے روشن خیال لیڈر آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں سیکولرزم اور جمہوریت کی بنیاد پر 26؍ جنوری 1950 ء کو ہندوستانی دستور اساسی کا نیا قانون نافذہوا۔ آج آزاد ہندوستان میں دامنی کی موت نے سارے قوم کے ضمیرکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ المناک واقعہ جمہوریت کے ماتھے پر کلنک ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ حالیہ واقعے سے عام لوگ سہمے ہوئے ہیں۔ جہاں ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم دی جائے جب ہی معاشرے میں انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ وہاں دوسری جانب بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے خواب شرمندۂ تعبیر ہوتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ کہتے ہیں :"Proper environment & proper guidance are needed to arouse the talent"لیکن Talent ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے Talent کو بروئے کار نہیں لا سکتی ہیں۔ آج ہندوستان میں ایسے میڈیکل اور انجینئرنگ کالج کی ضرورت ہے جو صرف خواتین کے لیے مخصوص ہو۔ جہاں کی فیکلٹی خواتین پر مشتمل ہو۔ اور بلا تفریق مذہب و ملت لڑکیاںMedical education(طبی تعلیم) حاصل کر سکیں اور قوم و ملت کے کام آسکیں۔ حالیہ سروے رپورٹ سے عیاں ہے کہ ہندوستان میں ڈاکٹر کی کمی ہے۔ یہاں خواتین ڈاکٹروں کی ضرورت بہت زیادہ ہے۔ خواہ وہ Gynaecology, Medicine یا Surgery ہو ہر میڈیکل شعبے میں خواتین ڈاکٹرس کی نمائندگی ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظریہ امر قابل غور ہے کہ آنے والی نئی نسل کے لیے میڈیکل اور انجینئرنگ کالج برائے خواتین کا قیام عصر حاضر کی پکار ہے۔ اگر باریک بینی اور حقیقت پسندی سے غور کریں تو صاف شیشے کی طرح ہر پہلو سے عیاں ہے کہ موجودہ تعلیمی معیار میں اضافہ کرتے ہوئے بہت حد تک طالبات کے اخلاقی قدروں کو استوار کرنا ہے۔ ڈاکٹر ، انجینئر، پروفیسر کے ساتھ ایک شریف، مخلص، بااخلاق اور درد مند انسان بنانے کے لیے کلیدی رول ادا کرنا ملت اور معاشرے کے لیے لمحۂ فکر ہے۔ اور نئی نسل میں شعوری فکر بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ان کے اخلاق اطوار اور آداب کی آبیاری کرنا چاہیے۔
ہندوستان کی کثیر آبادی صحت سے متعلق پریشانیوں سے دو چار ہیں ۔ وزیر صحت انومنی رام دوس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ہندوستان میں تقریباً 7لاکھ ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ ویہی علاقون میں ڈاکٹرس کی بہت کمی ہے۔ یہ تمام حالات زبان حال سے پکار رہے ہیں کہ ہندوستان میں میڈیکل اور انجینئر کالج برائے خواتین کا قیام اشد ضروری ہے۔
بلاامتیاز مذہب و ملت ہماری بچیاں قوم کی خدمت کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتی ہیں۔ اعلیٰ تعلیم ( میڈیکل اور انجینئرنگ کی تعلیم) حاصل کرنا چاہتی ہیں لیکن مخلوط تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنا آج بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور بچیوں کی صلاحیتوں کو پنپنے سے پہلے ہی ہم اس کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ علم و فن کا گہوارہ شہر نشاط میں اہل خیر حضرات کی کمی نہیں۔ اگر مخیر حضرات کا مالی تعاون ہو تو شاید بہت جلد میڈیکل اور انجینئر نگ کالج برائے خواتین کا قیام ممکن ہے۔ ہندوستان کا شمارعظیم جمہوری ملک کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اور صوبہ بنگال وہ ریاست ہے جہاں سے اٹھنے والا ہر ذرہ نیر اعظم ہوتا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ عزت مآب ممتا بنرجی خواتین کے مسائل بخوبی سمجھتی ہیں۔ہمیں ان پر فخر ہے۔ محترمہ ممتا بنرجی کی شخصیت عظیم شخصیت ہے۔ وہ ایکتا اور اکھنڈتا کی علمبردار ہیں۔ انشاء اﷲ ہم اگر مل کر کوشش کریں تو مسئلے کا حل ممکن ہے۔ اس ضمن میں سیاست دانوں ، سماجی قائدین اور دانشوروں کو یکساں طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انشاء اﷲ بہت جلد اس کاحل ممکن ہے۔
اگر کوشش کرے گا تو خدا اس کا ثمر دے گا
تیرا دامن وہی امید کے پھولوں سے بھر دے گا
مختلف مذہب، زبان، تہذیب کے ہوتے ہوئے بھی ہندوستان میں کثرت میں وحدت ہے۔ ہمارے دیش ہندوستان میں جمہوریت کا پرچم کبھی سرنگوں نہیں ہوا۔ اور پڑوسی ملک کی طرح وطن عزیز پر آمریت کا سایہ دیکھائی نہیں پڑا۔ ہندوستانی جمہوریت کی شان ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب کو اور اپنی ثقافت کو سنبھال کر رکھنا ہے۔ خواتین اور اطفال کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ورنہ مغربی تہذیب، عریانیت ، فحاشیت ہمیں تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرے گی۔
تمہاری تہذیب خود اپنے ہاتھوں آپ ہی خود کشی کرے گی
جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
خدائے پاک رب العزت ہمیں نیک کام کرنے کی توفیق عطا کرے۔ ہمیں دل درد مند اور حساس ذہنیت عطا کرے تا کہ ملت کے تئیں ہم اپنے فرائض پورے کریں۔
موبائل،واٹس اَپ۔9088470916
کب بنیں گے آشیانے غربیوں کے؟
فکرو ادراک
ریحانہ کوثر ریشی
کویڈ۔19کی پہلی لہر کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے ریاست مدھیہ پردیش میں ایک ورچول کانفرنسنگ کے ذریعہ پی ایم اے وائی اسکیم کے تحت ایک لاکھ 75ہزار نئے تعمیرکردہ مکانوں کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پہلے غریب حکومت کے پیچھے بھاگتےتھے، اب حکومت عوام کے پاس جارہی ہے‘‘ ۔ مسٹر مودی نے مزید کہا کہ کسی کی مرضی کے مطابق فہرست میں کوئی نام شامل یا چھوڑا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ مکانات کی تعمیر کے لیے ان کے سنگ بنیاد رکھنے سے لے کر اس کے افتتاح تک انتہائی شفاف اور سائنسی طریقہ اپنایا گیا ہے۔ا میں کوئی دورائےنہیں کہ اس میں سرکار کی نیت صاف نظر آرہی ہے۔لیکن زمینی سطح پر حقیقت کیا ہے اس سلسلہ میں،میں قارئین کو مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں کشمیر کے سرحدی ضلع پونچھ کی روئیداد بتائوںگی جو کہ تینوں اطراف سے لائین آف کنٹرول سے گھیرا ہوا ہے، سرحدی ٹینشن کی وجہ سے یہ علاقہ ہر وقت سرخیوں میں رہتا ہے، یہاں کی زیادہ تر آبادی سرحدی علاقہ جات کے قریب رہتی ہے، جس کی وجہ سے بے روزگاری، غربت اور پسماندگی ان کا مقد ربن گئی ہے۔ بہر کیف مرکزی اسکیم پی ایم اے وائی نے ان لوگوں میں بھی پکا گھر بن جانے کی امید تو پیدا کی لیکن تا ہنوز ان کا یہ خواب ادھورا ہی ہے، جبکہ اس میں بھی کوئی شک کی بات نہیں کہ اس سمت کچھ کام ہوا ہے۔ لیکن آٹے میں نمک برابر والی کہاوت یہاں سو فیصد درست بیٹھتی ہے۔ خیر جن لوگوں کو اس ا سکیم میں سے فائدہ ملا ہے ان میں بھی اثر رسوخ اور سیاسی گٹھ جوڑ کی بو آرہی ہے۔ جبکہ وزیر اعظم کے وہ الفاظ جو انہوں نے مدھیہ پردیش میں تعمیر کئے گئے مکانوں کی افتتاحی تقریب میں کہے تھے ،جن کا ذکر میں نے مضمون کی شروعات میں کیا ہے، ان پر زمینی سطح پر عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ہے۔ جس کی مثال کیلئے پونچھ کی منڈی تحصیل کے گاوں فتح پور کا ایک غریب خاندان ہے جن کو ابھی تک اس اسکیم کے بارے میں کسی نے جانکاری نہیں دی اور نہ ہی ان کا نام کسی فہرست میں شامل ہے ۔سال 2011 سے لیکر آج تک 6 پلان بنیں لیکن ان کا نام کسی فہرست میں نہیں شامل کیا گیا۔ جبکہ مقامی لوگوں کے مطابق سیکرٹری نے نئے 30سے زائد خاندانوں سے چھ،چھ ہزار یہ کہہ کر وصول کئےہیں کہ آپ لوگوں کو آوس یوجنا اسکیم کے تحت مکان بنانے کیلئے پیسے فراہم کیے جائیں گے تا ہم ابھی تک انہیں کسی قسم ک کوئی بھی سہولت نہیں ملی ہے۔
محمد رفیق نامی شخص ،جو ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیںان کا چھوٹا سا خستہ حال آشیانہ ہے۔ اس میںایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ اسی کو بطور رسوئی بھی استعمال کی جاتی ہے اور اسی میں سونے و آرام کرنے کا اہتمام اور گھر کا سارا سازو سامان بھی رکھا ہواہے۔ محمد رفیق کی چار بیٹیاں ہیں۔ آئے دن ان کے اسکولی اخراجات اور کھانے پینے کا خرچ بڑھ رہا ہے،وہیں مکان نہ ہو نے کی وجہ سے وہ کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، اس کنبہ کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے،کوئی بھی ان کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔اس ضمن میں گاؤں کے سرپنچ اختر کرمانی کا کہناہے کہ سابقہ سرپنچ نے پرانی فہرست میں ان کا نام نہیں لکھا تھا۔ اسی وجہ سے آج تک اس شخص کو پی ایم اے وائی اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ وارڈ نمبر1 کے پنچ صدام احمد پسوال کابھی یہی کہنا ہے کہ سابقہ سرپنچ اور پنچوں کی کوئی خامی رہی ہے۔جس کی وجہ سے ان کا آشیانہ اسکیم کے تحت نہیں بن پایا ہے۔محمد رفیق خود کی محنت مزدوری کر کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں لگے ہیں۔ ان کے مکان کی خستہ حالت کو دیکھ کر پرانے زمانے یعنی زمانہ قدیم کی تصویر آنکھوں کے سامنے گھومتی ہے۔افسوس !آج بھی اس کنبہ کو پی ایم اے وائی کی فہر ست میں نہیں رکھا جا رہا ہے؟ اسی ضمن میں ایک شخص محمد اکرم کا کہنا ہے’’ہماری تحصیل منڈی میں جب سے پردھان منتری آواس یوجنا کی اسکیم آئی ہے، ہمیں اس کی کسی طرح سے کوئی روشنی کی کرن نظر نہیں آئی، کیونکہ کچھ خاندانوں کو ابھی تک اس اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں ملاہے۔ بہت سارے پلان بن گئےمگر کئی غریب خاندانوں کو اُن کی خبر تک نہ دی گئی،نہ ہی کسی اسکیم کی کوئی جانکاری دی گئی۔ وہ مزید کہتے ہیں، میں تمام افسران سے کہنا چاہتا ہوں کہ غر یب خاندانوں کی طرف بھی ایک نظر دوڑائی جائے تا کہ غریب لوگ آپ کی دی ہوئی اسکیموں کا فائدہ اٹھا سکیں‘‘۔
اس حوالے سے رفیق احمد کی بیوی حفیظہ بیگم نے بتایاکہ’’ہمیں آشیانہ نہ ہونے کی وجہ سے زبردست دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب تیز رفتار کی بارش ہوتی ہے ،سارا پانی میرے خستہ حال مکان کے اندر آ جاتا ہے ،اپنے بچوں کو پڑوسیوں کے گھر لے کر جانا پڑتا ہے‘‘۔ وہ اپنا درد بیان کرتے ہوئے مزید کہتی ہیں کہ ’’میں اپنی دکھ بھری کہانی کس کو کہوں،کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہم بیت الخلا سے بھی محروم ہیں۔مختلف حکومتیں آئیں،طرح طرح کی اسکیمیں بنیں،مگر ہمارا گھر نہیں بدلا۔ اس لئے میں حکومت سے مدد چاہتی ہوں اور گزارش کرتی ہوںکہ پکے آشیانے کیلئے ہمارا نام بھی پی ایم اے وائی کی فہرست میں رکھا جائے۔یہ درد صرف کسی ایک محمد رفیق یامحمد اکرم کا نہیں ہے بلکہ ایسے کئی ضرورت مند ہیں، جو پی ایم اے وائی کے اصل حقدار ہیں لیکن آج تک انہیں اس کا فائدہ نہیں ملا ہے۔ ایسے میں مقامی انتظامیہ اور متعالقہ محکمہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ضرورت مندوں کو ان کے حقوق دلایں تاکہ غریب عوام کا حکومت اور انتظامہ پر اعتماد مضبوط ہو سکے۔
(فتح پور، پونچھ) [email protected]
سیاسی جماعتیں اندیشوں میں مبتلا !
حال و احوال
جبیں نازاں
یوں تو پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کادوسرا دور بھی مکمل ہوچکا ہے۔ پانچ ریاستوں میں سب سے زیادہ اتر پردیش ریاست موضوع سخن بنی ہوئی ہے ۔ اس کی وجہ بالکل صاف ہے ہر بھارتی جانتا ہے کہ مرکز میں حکومت کا راستہ اُتر پردیش سے ہی گزرتا ہے، یعنی کہ جس پارٹی نے اتر پردیش میں اپنا پرچم لہرا دیا، مرکز میں حکومت بنانے کے لیے 60 فیصد امکانات اسی کے نظر آتے ہیں ۔
اس بار اتر پردیش کا انتخاب پچھلے انتخاب کی مانند یک طرفہ ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ کوئی ایک پارٹی 'کلین سوئیپ 'کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ ہر پارٹی کے دل میں خوش گمانیوں سے زیادہ فکر و تشویش، خدشات نے انہیں سیاہ حصار میں لے رکھا ہے۔میں کانگریس تو پہلے ہی کہہ چکی ہے" ہر انتخابات صرف جیتنے کے لیے نہیں لڑا جاتا " لیکن ہاں!سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگار البتہ یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ پرینکا گاندھی نے جس طرح کمان سنبھال رکھی ہے۔ عوام کے درمیان میں گھر گھر جاکر سب سے ملتی رہی، ان کے مسائل میں دل چسپی لیتی رہی،ان کی بنیادی ضرورتوں کی بات کرتی رہی اور پھر خواتین کی سیاست میں 60 فیصد حصے داری کی صرف بات ہی نہیں کہ بلکہ خواتین کے درمیان ٹکٹیں بھی تقسیم کیں اور پھر یہ نعرہ ’’ لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں‘‘ جیسے پر کشش نعرےکے تحت عوام کو اپنی طرف متوجہ کرتی رہیں،اُس سے لگتا ہےکہ کانگریس سابقہ انتخابات کی بہ نسبت اس بار اُتر پردیش میں کچھ بہتر مظاہرہ کرنے والی ہے۔ مطلب کہ اس کی چند سیٹوں میں اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔
برسر اقتدار پارٹی اس بار بری طرح بدحواس اور الجھن کا شکار نظر آرہی ہے۔ ان کے بڑے رہنماوؤں کے جس نوعیت کے غیر ذمے دار اور سطحی قسم کے بیانات ایک کے بعد ایک آ تےرہے ہیں۔ جس طرح کی زباں استعمال وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر اعظم نریندر مودی ، وزیراعلی یوگی جیسے اہم اور بڑے رہنما کررہے ہیں۔ ان کی بے اطمینانی ، پریشانیوں کا واضح اظہار عوام با آسانی محسوس کررہے ہیں۔حال ہی میں وزیر اعظم نے راہل گاندھی اور کانگریس پارٹی کے متعلق ایوان میں جو لہجہ اور زباں استعمال کی۔ اُسے سن کر ہر کوئی انگشت بدنداں ہے ۔ یہ زباںاستعمال کرنے سے پہلے سیاسی رہنما ضرور سوچتے ہیں کہ ہم کیا کہنے جارہے ہیں ۔ملک کے وزیر اعظم کی تقاریر یا خطاب صرف ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک بھی سنا جاتاہے۔ انھیں اس بات کا بھی لحظ رکھنا پڑتا ہے۔
ظاہر ہے کہ پریشانیاں چھپانے سے پریشانیاں مزیدبڑھ جاتی ہیں جو چھپائے نہیں چھپ سکتی۔ جس طرح سماج وادی بشمول اتحادی جماعت میں عوام کا جم غفیر امڈتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں بیشتر مقامات میںبی جے پی کو اس سردی کےموسم میں پسینہ بہتا دکھائی دے رہا ہے۔میں اس کے اسباب و علل کی بات کرنا نہیں چاہتی ،کیونکہ پچھلے ایک ماہ میں کافی کچھ کہا اور لکھا جاچکا ہے اس لئےان باتوں کا اعادہ کارعبث سمجھتی ہوں۔یہ سب دیکھتے ہوئے ہمیں جہاں ماضی قریب میں ہوئے بنگال اسمبلی انتخاب کے نتائج یاد آرہے ہیں، جہاں بر سر اقتدار رہتے ہوئے ممتا بنرجی نے فتح حاصل کی۔ اس کے بعد تو بی جے پی کے عروج کا گراف ملک کی میں گرتا چلاآرہاہے۔ حتی کہ جہاں وہ فتح یاب بھی ہوئی بی تو اس کی نشستیں پہلے کے مقابلے میںکم ہونگی اور ووٹ فیصد میں بھی کافی کمی پائی جائے گی ،خواہ وہ ریاست ہریانہ ہو یا کوئی اور ریاست ۔لیکن مجھے نہ جانے کیوں شدت سے ریاستِ بہار کی یاد آرہی ہے، جہاں ہر کوئی(ہر کوئی سے مراد سیاسی مبصرین ، اور غیر سرکاری اکزٹ پول یعنی کہ گودی میڈیا کے اکزٹ پول نہیں ) یہ کہتا نظر آیا تھا کہ اس بار تیجسوی یادو بازی مار لیں گے، لیکن جب نتیجہ آیا سب بھونچکا رہ گئے اور پھر 'تیجسوی کی حکمت عملی اور جارحانہ انداز میں رطب اللسان رہنے والے سارے مبصرین بادل ناخواستہ ہی سہی لیکن جو جیتا وہی سکندر کی مدح سرائی پہ مجبور ہوئے ۔
حالاں کہ آف ریکارڈ یہ کہتے ہوئے یہی مبصرین پائے گئے کہ 'ای وی ایم ' کے کھیل نے حکمراں جماعت سے حکومت چھیننے میں ناکام رہی۔ مینجمینٹ 'نے پانسہ پلٹ دیا۔اور یہ الزام پہلی بار عائد نہیں کیا گیا، ازیں قبل ہر انتخاب میں لگتا رہا ہے۔ یاد کریں 2019ء کے لوک سبھا کے انتخابات ۔جب اتر پردیش میں سماج وادی کےایک جیتے ہوئے مسلم امیدوار نے کس طرح نامہ نگار سے آن لائن ساری تفصیلات بیان کی تھی ۔اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اکھلیش یادو کو صرف امنڈتی بھیڑ پر خوش ہوکر خواب خرگوش میں نہیں رہنا چاہئے ۔کیوں کہ ہر حکمراں جماعت ہمیشہ انتخابات میں دام سام دنڈ ' کا استعمال کرتی رہی ہے۔جب ای وی ایم مشین نہیں ہوا کرتی تھی اُس وقت بھی ووٹ بکس لوٹنے کے قصے ہم سنا کرتے ہیں ۔
بہر حال ! اس بار یوپی انتخاب نہایت ہی دلچسپ اور مشکل نظر آرہا ہے۔ راہ کسی کے لیے بھی آسان نہیں ، ہر گزرتے لمحوں کے ساتھ دل کی دھڑکن تیز تر ہوتی جارہی ہے۔ یہ انتخاب گویا کرکٹ کا وہ میچ بن کر رہ گیا ہے کہ آخری بال پر 4 یا 6 کی ضرورت ہے ،جسے ضعیف الاعتقاد 'کرشمہ یاکرامت سے تعبیر کرتے ہیں اورکرکٹ کمنٹری کرتے ہوئے اکثر یہ کہتے ہوئے پائے گئے کہ دونوں ٹیم کی حالت" کرو یا مرو" جیسی ہے۔ ناظرین کی دھڑکن تھمی ہوئی۔ گھٹن جیسا ماحول "آر ہوجا یا پار ہو جا"۔تو ایسی ہے صورت حال سےدوچار ملک کا ہر باشندہ 9؍مارچ تک منتظر دم سادھے بیٹھا ہے ۔
Jabeennazan [email protected]
دوردراز علاقوں کی طالبات اور نیٹ ورک
روئیداد
ہیما،راولیانہ
پہاڑی ریاست اتراکھنڈ بھی ملک کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جن میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں۔ جہاں 14 فروری کو ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ ایسے میں تمام پارٹیاں نےووٹروں کواپنے حق میں کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ پچھلے انتخابات کی طرح اس بار بھی تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ترقی ایک بڑا مدعا رہا، کیونکہ اپنے قیام کے 21 سال بعد بھی اتراکھنڈ دیگر ریاستوں کے مقابلے ترقی کے کئی معاملوں میں پیچھے ہے۔ خاص طور پر اس کے دور دراز دیہی علاقے ابھی تک ترقی کی روشنی سے محروم ہیں۔
میں ذکر کر رہی ہوں رولیانہ گاؤں کی، جو اتراکھنڈ کے باگیشور ضلع میں واقع گروڈ بلاک سے 20 کلومیٹر دور ہے۔ جہاں ابھی تک نیٹ ورک کا مسئلہ سب سے بڑا چیلنج ہے۔اگرچہ گاؤں کے بیشتر افراد کے پاس نئی ٹیکنالوجی سے لیس موبائل فون دستیاب ہیں لیکن نیٹ ورک کی عدم دستیابی سے یہ صرف ایک آرائشی شے رہ گیا ہے۔ جہاں گاؤں کے لوگ نیٹ ورک کی کمی سے پریشان ہیں وہیں طلبہ کو بھی پچھلے دو سالوں سے سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا رہاہے۔ کورونا کے دور میں جب اسکول، کالج اور ہر قسم کے تعلیمی ادارے بند تھے اور تعلیم کا واحد ذریعہ آن لائن کلاسز تھیں۔ ایسے وقت میں گاؤں میں نیٹ ورک کی کمی نے سب سے زیادہ نقصان طلبہ کو پہنچایا ہے۔جس کی وجہ سے نہ صرف دیہات کی سطح پر تعلیمی نظام مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے بلکہ پرائمری اور مڈل سکولوں میں پڑھنے والے طلباء تعلیم سے تقریباً دور ہو چکے ہیں۔ ہائی اسکول کے طلباء نے نیٹ ورک ایریا میں پہنچ کر کسی طرح اپنی کلاسوں میں شرکت کی کوشش کی، لیکن چھوٹے بچوں کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ آن لائن کلاسز اور نیٹ ورک کی کمی نے طالبات کی تعلیم کو بھی سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ جہاں آن لائن کلاسز کے لیے لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کو ترجیح دی گئی۔
زیادہ تر گھروں میں کمزور مالی حالت کی وجہ سے صرف ایک فون کی سہولت ہے، جو سب سے پہلے لڑکوں کو فراہم کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ لڑکی سینئر کلاس میں ہونے کے باوجود کئی گھروں میں جونیئر کلاس میں پڑھنے والے لڑکے کو موبائل فراہم کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے لڑکیوں سے گھر کا کام لیا جاتا ہے۔ کام ختم ہونے کے بعد انہیں وقت ملتا ہے تو اسی وقت فون دیا جاتا ہے ،جب بھائی کی کلاس مکمل ہو چکی ہو گی۔ گھر میں لڑکوں کی کلاس میں نیٹ ورک کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے، لیکن لڑکی کو درپیش اس مسئلے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی ہے۔یہ مسئلہ آج بھی موجود ہے۔ اس حوالے سے گاؤں کی ایک لڑکی ممتا کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز کے لیے فون دستیاب ہونے پر بھی نیٹ ورک کا مسئلہ آ جاتا ہے۔ کبھی کبھی گھر سے ایک کلومیٹر دور پہاڑ پر کسی خاص جگہ جانا پڑتا ہے جہاں کچھ وقت کے لیے نیٹ ورک دستیاب ہوتا ہے۔ بہت سی نوعمر لڑکیوں کے والدین انہیں اتنی دور تک آنے کی اجازت بھی نہیں دیتے ہیں۔ ایک اور طالبہ نے کہا کہ پچھلے دو سالوں میں نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے شاید ہی کوئی دن ایسا گزرا ہو جب ہم اپنی کلاسز مکمل کر پائے ہوں۔ نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے نہ تو ہم استاد سے سوالات کر پاتے ہیں اور نہ ہی گوگل پر سرچ کر پاتے ہیں۔سائنس اورحالات حاضرہ میں دلچسپی کے باوجود ہم ملک و دنیا کی خبریں جاننے سے محروم رہ جاتے ہیں۔
بورڈ کے امتحان کی تیاری کرنے والی طالبہ سروجنی کا کہنا ہے کہ اتراکھنڈ میں کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر دوبارہ لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا اور آن لائن کلاسز کی جا رہی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ کسی بھی طالب علم کے لیے بورڈ کا پرچہ کتنا اہم ہوتا ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ہمارے اساتذہ بھی آن لائن دستیاب ہیں لیکن نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے میں ان سے رابطہ کرنے اور کسی بھی سوال کا حل جاننے سے محروم ہوں۔ جس کی وجہ سے میری پڑھائی بہت خراب ہو رہی ہے۔ اگر محکمہ ٹیلی کمیونیکیشن اور نیٹ ورک کمپنیوں نے ان دور دراز دیہی علاقوں میں بھی نیٹ ورک کی بہتری پر توجہ دی ہوتی تو مجھ جیسے بہت سے طلبہ کو نقصان نہ پہنچا ہوتا۔طلباء کو ہونے والے اس نقصان سے اساتذہ بھی پریشان ہیں۔ استاد نیرج پنت کے مطابق بورڈ کا امتحان کسی بھی طالب علم کی زندگی میں ایک اہم موڑ ہوتا ہے۔ جسے ا سکول انتظامیہ بخوبی سمجھتی ہے۔ اسی لیے لاک ڈاؤن میں بھی آن لائن کلاسز کے ذریعے ان کی رہنمائی کی جاتی ہے۔ لیکن رولیانہ گاؤں میں نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے وہاں کے طلباء کو آن لائن کلاسز کے ذریعے رہنمائی کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جو کہ اسکول اور محکمہ تعلیم کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔
نیٹ ورک کی پریشانی کی وجہ سے طلباء کے ساتھ ساتھ گاؤں کے عام لوگوں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنی پڑتی ہے۔اس سلسلہ میں ایک خاتون منجو دیوی کے مطابق گھر والوں سے رابطے کا واحد ذریعہ فون ہے جو روزگار کی تلاش میں شہر گئے ہیں لیکن نیٹ ورک کی کمی کی وجہ سے ان سے رابطہ کرنا جنگ جیتنے کے مترادف ہے۔ آج کل ہر چیز ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے بہت سے کام آسانی سے اور وقت پر ہو جاتے ہیں لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب نیٹ ورک کا کوئی مسئلہ نہ ہو۔ جبکہ یہ اس گاؤں کا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈیجیٹل انڈیا کے اس دور میں جب انتخابی مہم بھی ڈیجیٹل ہوتی جا رہی ہے، سیاسی پارٹیاں اس مسئلہ کو حل کرنے میں کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ کیونکہ نیٹ ورک کے بغیر کسی بھی گاؤں کی ترقی ادھوری ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نیٹ ورک جیسے انفراسٹرکچر کی کمی اتراکھنڈ کے الیکشن میںاہم رول ادا کرے گی؟
( باگیشور،اتراکھنڈ)