مسعود محبوب خان
’’علم اور حکمت کے سلسلے میں حکم دیا کہ ’’حکمت مومن کا کھویا ہوا مال ہے، جہاں بھی ملے اسے لے لے۔‘‘ (سنن ترمذی) علم حاصل کرنے کی اہمیّت پر فرمان نبویؐ ہے۔ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) علم کی تلاش میں سفر کرنے کے متعلق فرمایا ’’جو شخص علم کی جستجو میں گھر سے نکلتا ہے، وہ اللہ کی راہ میں ہوتا ہے یہاں تک کہ واپس آ جائے۔‘‘(سنن ترمذی) زمین و آسمان کی نشانیوں پر غور و فکر پر ابھارنے کے لئے نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’آسمانوں اور زمین میں غور و فکر کرو۔‘‘(صحیح بخاری)۔ یہ احادیث علم کی تلاش اور تحقیق کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی، بشمول خلائی ریسرچ اور کالونائزیشن، کی بنیاد فراہم کرتی ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں علم کا حصول اور اس کا صحیح استعمال بہت اہمیت رکھتا ہے اور یہ اصول جدید دور کی سائنسی تحقیقات پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
عصرِ حاضر کے مسلم سائنسدانوں کے تاثرات:
عمومی طور پر عصرِ حاضر کے کئی مسلم سائنسدان اور دانشور اس شعبے میں علم و تحقیق کی اہمیت اور انسانیت کی بہتری کے لیے اس کے ممکنہ فوائد کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں کچھ مسلم سائنسدانوں کے تاثرات اور خیالات پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔
ڈاکٹر صالح المزرعی ایک مشہور سعودی خلائی سائنسدان ہیں جو سعودی عرب کے پہلے مواصلاتی سیٹلائٹ کے پروجیکٹ میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا: ’’خلائی تحقیق نہ صرف تکنیکی ترقی کے لیے اہم ہے بلکہ یہ ہمارے مذہبی اور ثقافتی فریم ورک کے اندر رہتے ہوئے علم کی جستجو کا ایک ذریعہ بھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر فریدی عبد الرحمن ایک معروف پاکستانی ماہر فلکیات ہیں۔ انہوں نے اسلامی اور سائنسی تعلیمات کے درمیان ہم آہنگی پر زور دیتے ہوئے کہا: ’’اسلام میں علم کی جستجو ایک مذہبی فریضہ ہے اور خلائی تحقیق اس کا حصّہ ہے۔ اس تحقیق کے ذریعے ہم اللّٰہ کی تخلیق کی عظمت کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں اور اسے انسانیت کی بھلائی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر عزیز سینگار ایک نوبل انعام یافتہ ترک نژاد امریکی سائنسدان ہیں۔ انہوں نے کہا:’’خلائی تحقیق ایک بین الاقوامی کوشش ہے اور مسلمان سائنسدانوں کو بھی اس میں اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔ اس کے ذریعے ہم نہ صرف اپنی سائنسی سمجھ بوجھ کو بڑھا سکتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی مثبت شبیہ بھی پیش کر سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر باسط بیگ ایک مشہور پاکستانی خلائی سائنسدان نے خلائی تحقیق کے بارے میں کہا: ’’خلائی تحقیق میں حصّہ لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ یہ ہمیں نئی ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے، موسمیاتی تبدیلیوں کو سمجھنے اور قدرت کے رازوں کو کھوجنے میں مدد دیتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر مشعل الثانی قطر کی پہلی خلائی سائنسدان ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ: ’’مسلمان خواتین کو بھی خلائی تحقیق میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ نہ صرف ہمارے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہے بلکہ ہماری اجتماعی ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔‘‘
مسلم سائنسدانوں کے تاثرات میں عمومی طور پر خلائی تحقیق کی اہمیت اور اس کی حمایت نظر آتی ہے، بشرطیکہ یہ تحقیق انسانیت کی فلاح، علم کے ارتقاء اور اسلامی اقدار کے مطابق ہو۔ ان کے مطابق، خلائی تحقیق میں حصّہ لینا مسلمانوں کے لیے نہ صرف مذہبی فریضہ ہے بلکہ جدید دنیا میں ان کی شراکت اور مثبت کردار کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
ریسرچ، کالونائزیشن اور مسلم ممالک:۔
خلائی ریسرچ اور کالونائزیشن مسلم ممالک کے لیے اہم موضوعات ہیں، اور کئی مسلم ممالک ان میدانوں میں مختلف طریقوں سے مشغول ہیں۔ مسلم ممالک کس طرح خلائی ریسرچ اور کالونائزیشن میں حصّہ لے رہے ہیں:مصر نے خلائی تحقیق کی جانب بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس نے مختلف خلائی مشروعات (projects) کا آغاز کیا ہے جیسے کہ فضائی تصاویری کاروں کی تیاری اور خلائی مواصلات وغیرہ۔ پاکستان بھی خلائی تحقیق کے شعبہ میں محنت کر رہا ہے۔ اس نے خلائی مواصلات، سائنسی تحقیقات، نظام فضائیات اور اسٹالائٹ لانچنگ کے میدانوں میں کافی محنت کی ہے۔ ترکی نے بھی اپنے خلائی مشروعات کو بڑھانے کے لیے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ اس نے خودکار طیاروں کی تخلیق کے علاؤہ، فضائی محطوں (stations) اور فضائی سیاحت کے لیے بھی منصوبے شروع کئے ہیں۔ ملیشیا نے سپیس ٹورز کی تشکیل اور سائنسی تحقیقات کے لیے فضائی میچرز کا آغاز کیا ہے۔سعودی عربیہ بھی اخیر میں خلائی ریسرچ اور کالونائزیشن میں دلچسپی دکھا رہا ہے۔ سعودی نے 2018ء میں سپیس کمیشن قائم کیا تاکہ خلائی تحقیق اور ترقی کو فروغ دیا جا سکے۔ اِسپیس ٹیکنالوجی کے ساتھ سعودی عرب مختلف خلائی سیٹلائٹس اور مواصلاتی سیٹلائٹس میں شراکت دار رہا ہے۔ اس نے فضائی میسورمینٹ اور تجارتی فضائی میچروں کا انتظام کیا۔متحدہ عرب امارات نے 2020ء میں اپنا پہلا مریخ مشن ’’امارات مریخ مشن‘‘ (ہوپ پروب)بھیجا جو کہ عرب دنیا کا پہلا بین الکواخمی مشن تھا۔ ’’خلیفہ سیٹ‘‘ یہ یو اے ای کا پہلا خودمختار طور پر تیار کردہ مصنوعی سیارہ ہے۔ ایران نے کئی چھوٹے سیٹلائٹس کامیابی سے لانچ کیے ہیں اور اپنے مقامی راکٹوں کے ذریعے خلائی تحقیق میں حصّہ لیا ہے۔ ایران کا اسپیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ جو کہ ملکی خلائی تحقیق اور ترقی کو آگے بڑھا رہا ہے۔
مسلم ممالک خلائی ریسرچ اور کالونائزیشن کی دنیا کے موازنہ میں اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ممالک اب خودکار طیاروں کی تخلیق، سائنسی تحقیقات، فضائی محطوں کا انشاء اور فضائی سیاحت کے میدان میں بھی قدم رکھ رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل علاقائی اور عالمی معیار پر اثر انداز ہو سکتا ہے اور ان کی فضائی تحقیقات اور کالونائزیشن میں کامیابی انسانیت کے فائدے کے لیے اہم ہوسکتی ہے۔
مسلم دنیا کی خلائی تحقیق میں موجودہ حصّہ داری نے امید افزا نتائج دیے ہیں اور مستقبل کے امکانات بھی روشن نظر آتے ہیں۔ تعلیمی اور تحقیقی اداروں، بین الاقوامی تعاون اور تجارتی مواقع کی نشاندہی کرتے ہوئے مسلم ممالک خلا کے میدان میں مزید پیش رفت کر سکتے ہیں۔ تاہم چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مسلسل کوشش اور تعاون کی ضرورت ہوگی۔
اسلامی تاریخ میں فلکیات اور جدید خلائی تحقیق:
اسلامی تاریخ میں فلکیات ایک اہم علمی شعبہ رہا ہے جس میں مسلم علماء اور سائنسدانوں نے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ علم جدید خلائی تحقیق کے بنیادی اصولوں کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اس موضوع کا مطالعہ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ کس طرح اسلامی دنیا نے فلکیات کے شعبے میں پیشرفت کی اور یہ علم آج کے دور میں کس طرح استعمال ہو رہا ہے۔
اسلامی مقدس کتابوں میں فلکیات کے بارے میں کئی اشارات موجود ہیں جو مسلم علماء کو کائنات کے مطالعے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مسلمانوں کے پانچ وقت کی نمازیں سورج کی حرکت کے مطابق ہوتی ہیں، جس نے فلکیات کے علم کو مذہبی ضرورت بنا دیا۔
الخوارزمی (780-850) کا تیار کردہ فلکیاتی جدول ’’زیج السند ہند‘‘ جو صدیوں تک یورپی فلکیات دانوں کی بنیاد بنا۔ البیرونی (973-1048) نے زمین کی محیط کا حساب لگایا اور فلکیات میں کئی اہم کتابیں لکھیں۔ ابن الہیثم (965-1040) نے بصریات اور فلکیات میں تحقیق کی اور ’’کتاب المناظر‘‘ لکھی۔ الفرغانی (9 ویں صدی) نے فلکیاتی پیمائشیں اور مشاہدات کی بنیاد پر فلکیات کی کتابیں لکھیں جو بعد میں یورپ میں بھی مقبول ہوئیں۔ فلکیات میں مسلمان سائنسدانوں کے کردار اور حصّے پر اپنے مطالعہ وسعت پیدا کریں۔
بیت الحکمت (بغداد) عباسی خلافت کے دور میں بغداد میں قائم کردہ علمی ادارہ جہاں مختلف علوم بشمول فلکیات پر تحقیق کی جاتی تھی۔ مختلف اسلامی شہروں میں رصدگاہیں (Observatories) قائم کی گئیں۔ جس میں مراغہ رصدگاہ (1259ء)، سمرقند رصدگاہ (15 ویں صدی)، القاہرہ رصدگاہ (فاطمی دور) وغیرہ نمایاں رصدگاہیں تھیں۔ جہاں فلکیاتی مشاہدات اور تحقیق کا کام انجام دیا جاتا تھا۔ یہ رصدگاہیں جدید فلکیاتی تحقیق کی بنیاد فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
اسلامی دور کی فلکیاتی جدولیں (Zij) یورپی نشاۃ ثانیہ کے دوران اور بعد میں جدید فلکیات کے مطالعے کا ذریعہ بنیں۔ مسلم علماء نے ریاضی میں بے شمار اصول و قوانین متعارف کروائے جنہیں جدید فلکیات اور خلائی تحقیق میں استعمال کیا جاتا ہے۔ آلہ جات جیسے اسطرلاب (Astrolabe) اور سیکسٹنٹ (Sextant) کی ایجاد اور ترقی میں مسلم علماء نے اہم کردار ادا کیا، جو آج بھی بنیادی اصولوں کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
اسلامی تاریخ میں فلکیات کی اہمیت نہ صرف دینی و شرعی مقاصد کے لیے تھی بلکہ اس نے جدید فلکیات اور خلائی تحقیق کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ مسلم علماء کی تحقیقات اور دریافتیں آج بھی جدید سائنسدانوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ اس طرح، اسلامی تاریخ اور جدید خلائی تحقیق کے درمیان ایک گہرا تعلق موجود ہے۔
عالم اسلام کی علمی و تحقیقی وراثت اور موجودہ دور میں خلائی تحقیق میں دلچسپی دونوں ہی مل کر خلاء کی کالونائزیشن میں نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور اخلاقی اصولوں کی روشنی میں مسلم ممالک مستقبل میں خلائی تحقیق اور کالونائزیشن کے میدان میں نہ صرف اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں بلکہ اس عمل میں ایک مثالی کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ اس طرح عالم اسلام خلاء کی تحقیق اور کالونائزیشن کے مستقبل کی تشکیل میں ایک اہم حصّہ دار بن سکتا ہے۔(ختم شد)
رابطہ۔09422724040
[email protected]