سرینگر //سنگھپورہ وائیلو ٹنل کی تعمیر کیلئے متعدد بار ڈی پی آر اور فزیبلٹی رپوٹ تیار کی گئی مگر 16برس بعد بھی خطہ چناب کو وادی کشمیر کیساتھ جوڑنے کیلئے ٹنل تعمیر نہیں ہو سکا ہے،گریز اور کرناہ کی طرح چناب خطہ کی آبادی بھی برسوں سے یہ مانگ کر رہی ہے کہ سنگھپورہ وائیلو ٹنل کی تعمیر کا کام ہاتھ میں لیکر اُن کا رابطہ آسان بنایا جائے لیکن یہ خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا ہے ۔ تین اضلاع پر مشتمل چناب خطہ کی 11لاکھ سے زائد آبادی کا کہنا ہے سنگھپورہ وائیلو کے درمیان ٹنل کی تعمیرسے اُن کی اقتصادی حالت میں بہتری آئے گی ۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے اس ٹنل کی تعمیرسے یہ شاہراہ نہ صرف کشمیروادی کے ساتھ جوڑنے والا ایک متبادل سڑک رابطہ بن جاتی بلکہ اس سے لوگوں کی مشکلات میں بھی کمی آتی کیونکہ موسم سرما میں جموں سرینگرشاہراہ پسیوں اور برفانی تودوں کی وجہ سے بندہوتی ہے جس دوران یہ راستہ متبادل کے طور پراستعمال کیاجاسکتاتھا،جبکہ یہ سڑک سالانہ امر ناتھ یاترا کیلئے بھی فائدے مند ثابت ہو سکتی تھی ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا سال2003میں مفتی محمد سعید کی سرکار کے دوران ایک منصوبے کا خاکہ تیار کیا گیا جس میں جموں وکشمیر بنک سے 5ہزار کروڑ اس کیلئے تیار رکھے گئے تھے تاکہ پی پی موڑ پر اس کی تعمیر ممکن بن سکے لیکن یہ کام بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر کھٹائی میں پڑ گیا ۔ٹنل کے حوالے سے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے خود بھی مرکزی وزیر نتن گٹگری سے ملاقات کی جبکہ وزیر اعظم کو ریاست کے ٹنلوں کے حوالے سے کہا گیا کہ مرکزی حکومت اُن کی تعمیر کیلئے فنڈس فراہم کرے ۔ذرائع نے بتایا کہ وائیلو ٹنل کی تعمیر کیلئے 7جنوری 2018کو سنگ بنیاد تقریب کا پروگرام بھی بن چکا تھا لیکن اُس کو آخری مرحلے میں مرکزی سرکار نے رد کیا ۔پی ڈی پی لیڈر اور ایم ایل سی فردوس ٹاک نے اس حوالے سے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ مفتی محمد سعید کی سرکار نے کشتوار سنتھن ٹاپ سڑک کی کشادگی اور اس پر میگڈم بچھانے کیلئے 9کروڑ روپے فراہم کئے تھے۔ اس کے بعد سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی 5کروڑ واگزار کئے جس کے بعد اس سڑک پر سنتھن ٹاپ سے آلو فارم تک میگڈم بچھا یا گیا۔دوسرے مرحلے کیلئے امسال18کلو میٹر کا حصہ رکھا گیا ہے، جس پر کام ہونے کی امید ہے۔فردوس ٹاک نے کہا ’’اس ٹنل کی تعمیر سے خطہ چناب کا سال بھر رابطہ کشمیر کے ساتھ ہوگا ، اس سے دو سے اڈھائی گھنٹے کا سفر کم ہو جاتا اور اس کو متبادل سڑک کے بطور بھی استعمال کیا جا سکتا تھا ۔انہوں نے کہا کہ اس سے کشتواڑکے مریضوں کو سرینگر کے ہسپتالوں تک پہنچنے میں کافی مدد ملتی ۔
انہوں نے کہا کہ ٹنل کی مانگ نہ صرف وائیلو کے لوگوں کی ہے بلکہ کشتواڑ کے لوگوں کوبھی اس سے فائدہ ملتا ۔سابق وزیر اور کانگریس لیڈر جی ایم سروڑی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پچھلے کئی برسوں سے اس ٹنل کیلئے ڈی پی آر اور فزی بیلٹی رپورٹ بنائی جا رہی ہے، بہت بار اس کی منظوری بھی مل چکی ہے، اس کے باوجود بھی تعمیر میں تاخیر اُن کی سمجھ سے باہر ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے جیالجی اینڈ مائنگ محکمہ نے بھی رپورٹ دی ہے ۔سروڑی نے کہا کہ جب میں محکمہ آر اینڈ بی کا وزیر تھا اُس وقت بھی اس پر کام ہوا لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر کام روک دیا گیا اور اس کے بعد جو بھی سرکاریں آئیں انہوں نے کوئی دھیان نہیں دیا ۔انہوں نے کہا کہ اس کی تعمیر سے چناب کا رابطہ کشمیر سے 12ماہ تک رہے گا، سیاح کشمیر جائیں گے ،لوگوں کا رشتہ جو کشمیر کے ساتھ پہلے سے ہے، وہ بحال ہو جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اس ٹنل بن جانے کے بعد خطہ چناب کا رابطہ کھنہ بل تک صرف 56کلو میٹر رہ جائے گا ۔معلوم رہے کہ کوکرناگ سنتھن ٹاپ کشتواڑ سڑک کو سال2013میں ریاستی سرکار نے بیکن سے واپس لیکر پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو دی تھی۔ تاہم محکمہ نے یہ اعتراض جتلایا تھاکہ یہ سڑک چونکہ قومی شاہراہ ہے لہٰذااس پر کام نہیں کیا جاسکتا۔ اسکے بعد مرکزی سرکار نے نیشنل ہائی وے ڈیولپمنٹ کارپوریشن بنائی اور یہ سڑک اُس کو الاٹ کی گئی۔ لیکن کارپوریشن کے پاس وسائل نہ ہونے کے سبب اس سڑک کی دیکھ ریکھ کا کام آر اینڈ بی محکمہ کو دیا گیا لیکن اس کی فنڈنگ کارپوریشن کے تحت ہی ہوتی رہی۔ پچھلی سرکار کے دورمیں 14کروڑ روپے سڑک کی کشادگی اور میگڈیمائزنگ کیلئے دئے گئے جس سے اس سڑک پر تارکول بچھایا گیا ۔