خطہ پیر پنچال کا طبی نظام اپنی خرابیوں کی وجہ سے ہمیشہ سے ہی سرخیوں میں رہتاہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ سی ٹی سکین اور ڈیجیٹل ایکسرے کروانے کیلئے بھی مریضوں کو جموں آناجاناپڑتاہے ۔طبی و نیم طبی عملے کی قلت ،مشینری کی غیر فعالیت اور طبی مراکز میں ادویات کی عدم دستیابی اور ڈاکٹروںکی غیر حاضری ایسے مسائل ہیں جنہوں نے اور اس سرحدی اور پہاڑی خطے کے عوام کو زبردست پریشان کررکھاہے ۔نتیجہ کے طور پر روزانہ سینکڑوں کی تعدادمیں مریض اور زخمی بہتر علاج کی تگ ودو میں کبھی جموں توکبھی سرینگر اور کبھی اس سے بھی دور چندی گڑھ،امرتسر و دلی کے ہسپتالوں میں جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جو ایک غریب کے بس سے باہر کی بات ہے ۔حکومت کی طرف سے دور درا ز اور پہاڑی علاقوں میں طبی خدمات اور بنیادی ڈھانچے کی فراہمی کے دعوے کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جاتی مگر صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آرہی ۔ اگرچہ چند ماہ قبل حکومت نے ضلع ہسپتال راجوری کادرجہ بڑھاکر اسے گورنمنٹ میڈیکل کالج سے منسلک کیاہے لیکن اس کے باوجود اس کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا اور یہ درجہ علامتی نوعیت کا ثابت ہواہے ۔حقیقت یہ ہے کہ گورنمنٹ میڈیکل کالج سے منسلک اس ہسپتال میں نہ ہی سی ٹی سکین مشین دستیاب ہے اور نہ ہی ڈیجیٹل ایکسرے مشین کام کررہی ہے ۔ جہاں سی ٹی سکین مشین پچھلے چھ ماہ سے ناکارہ پڑی ہوئی ہے وہیں ڈیجیٹل ایکسرے مشین تین ماہ سے غیر فعال ہے اور انہیں ٹھیک کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی جارہی ۔اگر خطے کے سب سے بڑے ہسپتال کا یہ حال ہے تو پھر دیگر ہسپتالوں کی حالت کیا ہوگی؟، اسکا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ راجوری ہسپتال پر نہ صرف ضلع راجوری بلکہ پونچھ اور ریاسی کے مہور و دیگر کچھ علاقوں کا بوجھ بھی رہتاہے اور بڑی تعداد میں مریضوں کو مضافاتی طبی مراکز سے اس ہسپتال میں منتقل کیاجاتاہے لیکن جب انہیں وہاں علاج کی سہولت نہیں ملتی تو پھر ڈاکٹروں کی جانب سے جموں کی طرف مزید آگے کاراستہ دکھایاجاتاہے ۔واضح رہے کہ راجوری کو صحت کے شعبے میں ایک مرکز بنانے کے خواب دکھلائے جارہے ہیں اور ضلع میں میڈیکل کالج کی تعمیر بھی چل رہی ہے جبکہ اسی سال اس کالج کے طلباء کی کلاسیں بھی شروع ہونے جارہی ہیں ۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک خطہ پیر پنچال کے لوگ بہتر علاج کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے اور انہیں مقامی سطح پر علاج سے محروم رکھاجائے گا۔چونکہ اب ضلع ہسپتا ل راجوری کا درجہ بڑھادیاگیاہے لہٰذا مریضوں اور زخمیوں کی بڑے ہسپتالوں میں منتقلی کے سلسلے پر روک لگنی چاہئے اور اسی طبی ادارے کو موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جانا چاہیئے۔ اگر خطہ پیر پنچال کے لوگوں کوخطے کے اندر ہی علاج کی سہولت ملے گی تو اس سے نہ صرف جموں کے بڑے ہسپتالوں میں رش کم ہوگابلکہ اس سے غریب عوام کو وہ خرچہ بھی برداشت نہیں کرنا پڑیگا،جو انہیں گاڑیوں اور جموں میںہوٹلوں کے کرایہ اور پھر نجی کلینکوں پر بھاری فیس کی صورت میں ادا کرناپڑتاہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں ضرورت کے مطابق طبی عملے کو تعینات رکھاجائے وہیں راجوری اور پونچھ کے تمام ضلع اور سب ضلع ہسپتالوں میں کم از کم روزانہ ضرورت آنے والی مشینری تو فعال رکھی جائے ۔اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ سی ٹی سکین اور ڈیجیٹل ایکسرے و ایسی دیگر خدمات کیلئے مریضوں کو خطے سے باہر نہ جاناپڑے بلکہ یہ خدمات مقامی سطح پر ہی میسر ہوں ۔
خطہ پیر پنچال کا طبی نظام ۔۔۔ لاپرواہی کی انتہا
