بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتخابی منشور میں اس بار بھی دفعہ 370اور35-Aکا خاتمہ سرفہرست ہے ۔اس جماعت نے پچھلے انتخاب میں ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرکے رہے گی لیکن پوری ٹر م مکمل ہوجانے تک وہ ایسا نہیں کرسکی ۔ اب جب کہ وہ دوسری بار یہی وعدہ لیکر ووٹروں کے پاس جارہی ہے تو اسے اس بات کا کوئی خوف نہیں کہ اس کے وہ ووٹر جنہوں نے اس وعدے پر اسے اپنے ووٹ دئیے تھے اس سے یہ نہ پوچھیں کہ پانچ سال میںاگر وہ اپنا یہ وعدہ پورا نہیں کرسکی تو اب کیسے کرے گی۔یہ سوال بھی کوئی نہیں کرے گا کہ ان سے وعدہ کرنے کے بعد ہی اس نے ریاست کی مقامی سیاسی جماعت پی ڈی پی کے ساتھ ’’ ایجنڈا آف الائنس‘‘ کے نام سے ایک سمجھوتہ کیا جس میں اس بات کے ساتھ اتفاق کیا کہ موجودہ آئینی پوزیشن کو جوں کا توں رکھا جائے گا۔حالانکہ اس ایجنڈا کا تحریری مسودہ کہیں موجودنہیں ہے لیکن میڈیا میں اس کی تفصیل جاری کی گئی جس میں یہ بات شامل تھی کہ بی جے پی نے موجودہ آئینی پوزیشن کو برقرار رکھنے کا اقرار کیا ہے ۔یہ بے خوفی اس لئے ہے کہ بی جے پی نے سوچ سمجھ کر سارے دائو کھیلے ہیں اورپوری منصوبہ بندی کے ساتھ وہ ووٹروں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئی ہے کہ اس کی راہ میں کونسی رکاوٹیں حائل تھیں اور انہیں دور کرنے کے کونسے راستے اس نے ڈھونڈ نکالے ہیں ۔بہت ہی زیرک ذہن ہوگا جس نے یہ سٹریٹجی بنائی کہ کشمیر کے ملک میں مکمل انضمام کی راہ میں بڑی رکاوٹ عسکریت اور علیحدگی پسندی سے زیادہ کشمیر کی مرکزیت والی سیاسی جماعتیں ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں ہمیشہ اقتدار رہتا ہے ۔ ان کے اقتدار کے راستے مسدود کئے جائیں تو جموں کو مرکزیت حاصل ہوسکے گی جس کے نتیجے میں وہ تمام رکاوٹیں خود بخود ختم ہوجائیں گی جو مکمل انضمام کی راہ کا روڑا بن رہی ہیں ۔حالانکہ یہ جماعتیں بھی ہمیشہ اقتدار کیلئے نئی دہلی کے ہی آشیرواد کی مرہون منت رہی ہیں لیکن عوامی جذبات کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا بھی ان کی مجبوری رہتی ہے ۔اُدھر یہ سوچ تھی اوراِدھر ایک نئی سیاسی جماعت پی ڈی پی مفتی محمد سعید کی قیادت میں یہ سوچ رہی تھی کہ ایک طاقتور منڈیٹ حاصل کرنے والی بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملا کر ایک نئی تاریخ مرتب کی جاسکتی ہے ۔ راستے کھولے جاسکتے ہیں ۔ آر پار آمد و رفت کی آسانیاں پیدا کی جاسکتی ہیں ۔ تجارت ہوسکتی ہے ۔ بات چیت ہوسکتی ہے اور عوامی جذبات کی تشفی کرکے پی ڈی پی کو معجزاتی کرشموں کی جماعت بنایا جاسکتا ہے ۔ارادے اور عزائم اپنی جگہ رہے اور جو ہوا وہ آج سامنے ہے ۔
بھاجپا کو2014ء کے ریاستی انتخابات کے بعد حکومت میں شامل ہونے کی ضرورت تھی کیونکہ جموں میں اسے حمایت حاصل ہوئی تھی اور حکومت سے محرومی اس حمایت سے محرومی کا باعث ہوتی اس لئے اس نے کشمیر میں ایک دوست کوڈھونڈا جو اسے مفتی محمد سعید کی صورت میں حاصل ہوا ۔ مفتی محمد سعیدکی پی ڈی پی ایک نئی سیاسی جماعت تھی اور اسے بھی حکومت کی اشد ضرورت تھی ۔ حالانکہ مفتی محمد سعید نظریاتی طور پر کانگریسی تھے اور کانگریس کے ساتھ عمر کا ایک طویل حصہ گزارا تھا ۔ وہ جتنا پارٹی کے دور میں ہندوستان کے وزیر داخلہ بھی رہے تھے ۔ لیکن نہ بی جے پی کو اس سے کوئی سروکار تھا نہ پی ڈی پی کو، دونوں کو اقتدار کی ضرورت تھی اور اقتدار کی ضرورت نے اس اتحاد کو جنم دیا جسے خود مفتی صاحب نے قطبین کا اتحاد قرار دیا ۔حکومت کا حصہ بننے کے ساتھ بی جے پی کو ایک تجربہ بھی کرنا تھا اور ایک بڑا مقصد بھی حاصل کرنا تھا جس کی پی ڈی پی کو کوئی بھنک بھی نہیں تھی ۔اس اتحاد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے کشمیر میں ایسے حالات میں داخلے کے دروازہ کھول دئیے جن میں خود کشمیری مرکزیت والی قومی دھارے کی جماعتوں کا قافیہ تنگ ہوگیا تھا ۔ پہلی بار کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے جھنڈے اس سرزمین پرلہراتے نظر آئے ۔ جماعت کا تنظیمی ڈھانچہ تیار ہونے لگا اور لوگوں کی اچھی خاصی تعداد اس سے وابستہ ہوگئی ۔یہ وہ وقت تھا جب کشمیر میں مذہبی انتہا پسندانہ سوچ کو اس قدر عروج حاصل ہوا تھا کہ چھوٹے بچے بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بندوق اٹھا کر فوج کے ساتھ نبرد آزما ہورہے تھے ۔خاموشی کے ساتھ بی جے پی نے اپنا مقصد پورا کیا اور پھر اچانک پی ڈی پی سے الگ ہونے کا اعلان کیا اور مخلوط حکومت کا خاتمہ ہوا ۔پی ڈی پی کو چند سال کا اقتدار ملا اور بی جے پی کا تجربہ بھی کامیاب ہوا اور مقصد بھی حاصل ہوا ۔اس کے فوراً بعد سے ہی بی جے پی ہندوستان کے عوام کو یہ باور کرانے میں مصروف ہوئی کہ پی ڈی پی کشمیر میں امن قائم کرنے اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی بلکہ یہ جماعت حالات کو ابتر بنانے میں معاون و مددگار تھی صرف پی ڈی پی نہیں بلکہ کشمیری مرکزیت والی دوسری جماعتیں بھی اصل میں کشمیر میں تشدد پھیلانے کی ذمہ دار ہیں ۔یہ دعویٰ ثابت کرنے کے لئے گورنر راج میں بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات کا اعلان کردیا گیا اور کامیابی کے ساتھ یہ انتخاب مکمل کئے گئے چاہے اس میں ووٹروں کی شمولیت نفی کے برابر تھی لیکن بی جے پی کے پنچ بھی کامیاب ہوئے اور میونسپل ارکان بھی ۔یہ بات اس طرح سے بھی ثابت کی گئی کہ مخلوط حکومت جس کی سربراہی محبوبہ مفتی کررہی تھی کے دور میں اننت ناگ کی پالیمانی نشست پر انتخاب ممکن نہیں ہوا تھا ۔حکومت گرنے کے غیر متوقع جھٹکے سے پی ڈی پی بڑی مشکل سے خود کو مکمل ٹوٹ پھوٹ سے بچاسکی ۔اب اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں تھا کہ بی جے پی پر پوری قوت سے وار کرے ۔ آج جب وہ بی جے پی کیخلاف بولتی ہے تو کوئی اس سے نہیں پوچھتا کہ اگر آج یہ جماعت فرقہ پرست اور کشمیر دشمن ہے تو اس وقت کیا تھی جب اس کے ساتھ اتحاد کیا گیا ۔ اُس وقت کیسے یہ اتحاد کشمیری عوام کے مفاد میں تھا جبکہ بی جے پی کے انتخابی منشور میں اس وقت بھی ریاست کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ تھا اور آج بھی ہے ۔ ایجنڈا آف الائنس کا زبانی مسودہ کیسے اس منشور کو بدل سکتا تھا ۔ اور آج کیسے آپ گلا پھاڑ پھاڑ کر چلارہے ہیں کہ دفعہ 370ہٹایا گیا تو کشمیر میں بھارت کا جھنڈا اٹھانے والا بھی کوئی نہیں ہوگا آپ نے تو بی جے پی کو کشمیرمیں اس کا اپنا جھنڈا لہرانے کیلئے بھی جگہ مہیا کردی اور اس وقت بی جے پی کا تنظیمی ڈھانچہ ہی کشمیر میںسرگرم نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کی شاخائیں بھی کام کررہی ہیں ۔اتنا ہی نہیں ہوا بلکہ اس حکومت نے مرکزی حکومت کو وہ تمام جارحانہ اقدامات کرنے کا موقع فراہم کیا جن کا آج آپ سڑکوں پر لوگوں کے سامنے رونا رورہے ہیں ۔ آپ پاکستان کے ساتھ بات کرنے کی وکالت کرتے رہے لیکن آپ کی اس وکالت کے دوران کشمیر میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں جسے آپ اس وکالت کی آڑ میں چھپارہے تھے ۔ آپ نے نہ نوجوانوں کو تشدد کی راہ پر جانے سے روکنے کے لئے کوئی خاطر خواہ پہل کی اور نہ ہی ہندوستان کو ایسے اقدامات کرنے پر آمادہ کیا جس سے کشمیر ی عوام کا کھویا ہوا اعتبار ہی بحال ہوتا ۔نیشنل کانفرنس آج اس وقت وزیر اعظم اور صدر ریاست کے عہدے بحال کرنے کے دعوے کررہی ہے جب اس کے ورکروں کی سکیورٹی بھی گورنر صاحب بحال نہیں کررہے ہیں ۔ وقتی مفادات کی بے مقصد اور بے ہودہ سیاست سے ہی ان دوبڑی جماعتوں نے اپنی حیثیت بھی کھودی اور اعتبار پوری طرح سے کھودیا ۔ ہندوستان میں انہیں چناو میں حصہ لینے سے روکنے کیلئے عدلیہ میں عرضیاں داخل ہورہی ہیں اور کشمیر میں انہیں ہر مصیبت اور ہر جرم کا ذمہ دار قرار دیا جارہا ہے ۔ اپنی اس تباہی کی ذمہ دار تو یہ جماعتیں خودہیں لیکن اس طرح سے ریاست جموں وکشمیر میں کشمیر کی سیاسی مرکزیت ختم کرنے کے منصوبے کامیابی سے ہمکنار ہورہے ہیں۔ابھی تک عام خیال یہ تھا کہ مین سٹریم کا بے اعتبار ہونا ہندوستان کے لئے سب سے بڑا نقصان ہے لیکن اب ثابت ہورہا ہے کہ یہ کشمیر کے لئیاس سے کہیں بڑا نقصان ہے ۔اس وقت کشمیریوں پر جو عتاب نازل ہورہے ہیں ان کے پیش نظر خود عوام چاہتے ہیں کہ انتخاب ہو اور حکومت بنے لیکن اب جو حکومت بنے گی اس میں کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی کیا حیثیت ہوگی یہ سمجھنا مشکل نہیں ۔شاید ان دونوں جماعتوں کو اندازہ نہیں کہ حالات کس خوفناک تباہی کی طرف جارہے ہیں ۔ بی جے پی کی حکومت رہے یا نہ رہے اس بات کے بہت کم امکانات ہیں کہ کشمیر سے متعلق نئی دہلی کی جو نئی سوچ اور نیا اپروچ ہے اس میں ذرا بھی تبدیلی ہو ۔
اس طرح سے یہ کشمیر کی تاریخ کا سب سے نازک اور حساس دور ہے ۔آج کشمیر اور کشمیریوں کا وجود دونوں دائو پر ہیں اس لئے آج سب کچھ بالائے طاق رکھ کر یہ سوچنا ضروری ہے کہ اس طوفان سے کیسے گزرا جاسکے ۔مین سٹریم جماعتوں کے لئے اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ نئے سرے سے اپنے سیاسی سٹینڈ کا جائزہ لیں ۔ عوامی جذبات اور مقبول رحجانوں کا فایدہ اٹھاکر اقتدار تک پہنچنے کی کوششیں کرنے کے بجائے خود کو اور عوام کو موجودہ بحران سے نکالنے کی تدبیروں پر غور کریں ۔ مزاحمتی قیادت کیخلاف کریک ڈائون اور عسکری تحریک پر شدید دبائوکے بعد پیدا ہونے والے حالات پر گہرائی سے غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عوام مایوسی کی کس حالت کا سامنا کررہے ہیں ۔ اس پر قومی شاہراہ پر پابندی جیسے اقدامات سے عوامی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔خصوصی حیثیت کا کاغذی پیرہن اپنی جگہ رہے گا اور کشمیر کی حیثیت ریاست جموں وکشمیرمیں ہر اعتبار سے ختم ہوکر رہ جائے گی اور ہم اپنی خوش فہمیوںزمین میں دھنس جائیں گے ۔
ہفت روزہ ’’نوائے جہلم‘‘ سری نگر