جمیل احمد محسن ۔پونچھ
قدیم زمانے میں لوگ پیدل چل کر میلوں سفر کرتے تھے۔ اسی دوران مختلف معاشی سرگرمیاں اور دیگر امور بھی سر انجام دیتے تھے۔جوں جوں ترقی ہوتی گئی،سب چیزیں بدلتی گئیں۔ آج کل سب کچھ بری ،بحری اور ہوائی راستوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔لیکن کسی بھی چیز کو اور کسی بھی روزمرہ سرگرمیوں کو انجام دینے کے لیے آج کل جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ٹرانسپورٹ نیٹورک ہے۔قدیم زمانہ میں ضروریات بھی کم تھیں اور راستے بھی ویسے ہی مشکل اور کٹھنائیوں پر محیط تھے۔ لیکن آج کل سب کچھ مختلف ہو چکا ہے۔ آج کل سب سے زیادہ خدمات سڑکوں سے لی جا رہی ہیں۔ سڑک وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے گاؤں، محلہ اور گلی گلی بھی ایک دوسرے سے متصل اور ملی ہوئی ہیں۔گھنٹوں کی مسافت اب منٹوں میں طے ہوتی ہے۔سڑکوں کے ہونے کی وجہ سے کئی بنجر علاقوں کی کایا ایسی پلٹی کہ وہاں کی مٹی زرخیز بن گئی اور وہاں پر زمین ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہندوستان میں بھی ہر جگہ سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے۔یوٹی جموں کشمیر میں بھی تقریبا ہر جگہ سڑکیں پہنچی ہیں۔ لیکن کچھ سڑکیں نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں کیونکہ بڑے بڑے شہروں اور قصبوں کو آپس میں ملاتی ہیں۔ جس کے ذریعے ہر قسم کی ترقی فلاح و بہبودی ممکن ہو سکتی ہے۔لیکن کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پر سڑکوں کی اتنی خستہ حالی ہے کہ وہاں پر چلنے سے پہلے لوگ کئی بار سوچتے ہیں۔ایسی ہی ایک سڑک پونچھ کے علاقے منڈی سے لورن میں جاتی ہے۔یہ سڑک دفاعی اعتبار سے بھی کافی اہمیت کی حامل ہے اور تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ ضلع کی آبادی کا بڑا حصہ ان علاقوں میں قیام پذیر ہے۔
سڑک کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے کہ بڑے بڑے گڑھے پڑے ہوئے ہیں۔ انہیں گھڈوں میں دھوپ وغیرہ کے دوران اتنی دھول اور آلودگی ہوتی ہے کہ دم گھٹنے لگتا ہے۔بارشوں کے دوران بڑے بڑے گھڈوں میں پانی جمع ہو جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ سڑکیں نہیں بلکہ کوئی تالاب ہے۔سڑک چوڑائی کے اعتبار سے اتنی محیط ہے کہ شاذو نادر اگر جام لگ جائے تو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ لورن کے علاقے سیاحتی اعتبار سے نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے لوگ وہاں نہیں جاتے ہیں جس کی وجہ سے سیاحت کو بھی بڑھاوا نہیں مل سکتا۔لورن منڈی میں ایسے ایسے خوبصورت علاقے جیسے نندی چھول، سلطان پتھری،گلی میدان، تھان پیر وغیرہ ہیں جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔لیکن لوگ وہاں تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ لاکھوں کی گاڑیاں ایسی خستہ حال سڑک پر لے جاکر کیا کریں گے؟اس ضمن میں منڈی لورن کے ایک سماجی کارکن چوہدری ذاکر حسین نے بتایا کہ پونچھ سے منڈی یقریبا 22کیلومیٹر ہے جبکہ منڈی سے لورن کی دوری تقریباً 13کیلومیٹر ہے۔ لیکن جتنا پیٹرول منڈی سے پونچھ آنے میں لگتا ہے اتنا ہی منڈی سے لورن تک خرچ ہو جاتا ہے کیونکہ سڑک کی حالت ایسی ہے کہ اس پر گاڑیوں کا چلنابہت ہی مشکل ہوتا ہے۔اس پر بڑے بڑے گھڈے پڑ ے ہوئے ہیں۔ایسے میں بارش اور خوشگوار دونوں موسموں میں یہاں چلنا دشوار ہوجاتا ہے۔ خوشگوار موسم میں تو یہاں پر دھول ہوتی ہے اور بارش میں سڑک تالاب کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔حالانکہ سیاحتی مقامات ایسے ہیں کہ اگر ان کی طرف توجہ دی جائے تو ایک پورا سیاحت کا باب کھل سکتا ہے، لیکن سرکار کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ سب ناممکن لگ رہا ہے۔ ایک اور سرکاری ملازم جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمیں ڈیوٹی پر جاتے ہوئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، موٹر سائیکل سے دفتر پہنچتے ہی ہماری وہ حالت ہوتی ہے جیسے قبرستان سے اٹھ کر آئے ہوں۔ سب کچھ دھول اور مٹی میں لت پت ہوتا ہے۔ اگر جام لگ جائے تو گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں ہم نہ ہی اپنے فرائض منصبی کے ساتھ انصاف کر سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کے ساتھ۔
ایک مقامی خاتون فاطمہ بانو کہتی ہیں کہ یہ سڑک ایک مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن خستہ حالی کا حال یہ ہے کہ لوگ تکلیف کے ساتھ اس سڑک پر سفر کرتے ہیں۔ بزرگوں، بچوں اور حاملہ خواتین کااس پر چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سڑک کی خستہ حالت کی وجہ سے گاڑیوں کا برا حال ہو جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کو اگر لایا جائے تو اتنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم لفظوں میں بیان نہیں کر سکتے، درد زہ تو ہوتا ہی ہے، لیکن جب گاڑی میں بٹھایا جاتا ہے تووہ پہلے ہی ہاتھ جوڑنا شروع کردیتی ہیں کہ کہیں گاڑی کے جھٹکے ہی ان کی جان نہ لیں۔اس ضمن میں ڈی ڈی سی ممبر لورن چودھری ریاض نازکے مطابق دو تین سال قبل کافی جدو جہد کے بعد تارکول بچھانے کا کام کیا گیا تھا لیکن وہ صحیح طور پر نہیں کیا گیا اور سال بھرکے اندر ہی اکھڑ گیا۔اب ہم کوشش میں لگے ہیں کہ جلد ہی اسکا کام کیا جائے۔اب اتنی مرکزی حیثیت رکھنے والی سڑک کی خستہ حالی کا یہ عالم ہے تودوسری چھوٹی سڑکوں کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیا ہوگا؟ صنعت وحرفت تو شروع سے ہی نہیں ہے۔ حاملہ خواتین، بچوں، بزرگوں اور ملازمین کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ملازمین حضرات وقت پر دفترنہیں پہنچ سکتے کیونکہ ان کو سفر کے دوران کئی مشکلات آڑے آتی ہیں۔ علاقے حد درجہ تک خوبصورتی میں اپنا نمایاں مقام رکھتے ہیں لیکن سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے سب بے سود ہے۔ اب انتظامیہ اگر ان لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کرنے کی سعی کرے تو ممکن ہو سکتا ہے کہ علاقے کی ترقی بھی ہو سکے، کیونکہ سڑک ہی ہر چیز کے لئے واحد راستہ ہے جس کے ذریعے عوامی روابط تجارتی معاشی اور دیگر سرگرمیاں بحال ہوتی ہیں۔یہ سڑک علاقہ میں اپنی مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔لہٰذا اس کا کام جلد پوری ہونی چاہیے۔کیونکہ شہر کو یہی سڑک ملاتی ہے۔ وادی کشمیر کی جانب جانے والے سڑک کی بنیاد بھی یہی سڑک ہے۔لہٰذا س جانب محکمہ کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ (چرخہ فیچرس)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)