خرافات اور اسراف سے بیڑا غرق ہورہا ہے حال و احوال

عبدالصمد 
     اللہ تعالیٰ ان روحوں کو کروٹ کروٹ چین ،سکون اوراعلی درجات سےسرفرازکرے،جنہوں نےاپنی انتھک محنت اورکاوشوں،عرق ریزی کرکےاس ملت کےلیےخداکےدین کی مکمل تصویر اہل اسلام کےلیےاپنی بیش بہاتصانیف کےذریعہ ہم سب کےلیےرکھ چھوڑاہےاورخدائےبزرک وبرترنےجووعدہ کیا،اس کتاب ودین کامیں محافظ ہے’’انانحانہ لحو لحافظون‘‘توان جلیل القدرہستیوں نے پوری جانقشانی سےامت مسلمہ کےلیےخدائےواحدکےاس وعدے کے مطابق کماحقہ اپنےحصہ کاکردار اداکردیا۔انیسوی صدی کےاواخراوربیسویں صدی کےاوایل میں برصغیر میں ایسےجلیل القدر ہستیوں نےجنم لیااورجس عرق ریزی سےانہوں نےپہلےعربی میں پھرعربی سےفارسی اوراسکےبعداردومیں وہ تصانیف اجراء کیں کہ تاقیام قیامت اسکااعادہ ہونامحال اورناممکن ہے۔کیونکہ ان تصانیف کااعادہ تودورکی بات ،اسکافہم وادراک بھی ناممکن ہے۔عملی زندگی میںاسکاعشرعشیربھی ہماری زندگیوںمیںآگیاتوانکی تگ ودو،کاوشیںاورجانفشانی اورعرق ریزی بارآورثابت ہوگی۔ نہ بھی ہوتوخدائےبزرگ وبرترسےامیدہےکہ ان کوجواجرعظیم ملناہے،وہ تومل کررہیگا۔لیکن ہمارےاپنےحصہ میں کیاآئےگا، پڑھنےسےتوہم عاری ہیں، ہاں! ایک ہوسکتاہےاپنےموبایل پراَپلوڈکرنا،ڈاون لوڈکرنااورمیسیج فارورڈکرنایہی ہماری نیکیوں کاذریعہ اوروسیلہ رہ گیاہے۔رہ گئی بات ہمارےعملی زندگی کی تونمازوں کااداکرنا،روزےرکھنا،نصاب کےمطابق ذکات کااداکرنااورصاحبِ استطاعت ہےتوحج عمرہ کرنا۔
کیانبی اکرم آقائےدوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نےجوانقلاب جزیرہ عرب میںبرپاکیاتھا،کیاوہ صرف انہی اعمال کی ادائیگی کےلیےتھا۔حج کے ایام توزمانہ جاہلیت میں بھی تھے،طواف بھی ہوتاتھااورقربانی بھی کسی نہ کسی طریقہ پرہوتی تھی ،خداکاتصوربھی تھاعلماءیہود کی باقیات وصالحات کےتناظرمیں توحیدکاتصوربھی تھا،اگرچہ بعدکےزمانےمیں توحیدکاتصوردُھندلاگیا تھا، انکےاپنے نمازاورروزےکےبھی تصورات تھے،پھربعثت نبوی کامقصدکیاتھا،اس پرخلفاءراشیدین اورصحابہ کےزمانےکےبعد ائیمہ اربعہ بعدفقہائےاسلام ،علماءاسلام نےجسطرح اپنی محنت سےہمارےلیےمحفوظ کردیا ،یہ ہمارےلیےصرف جمعہ کےخطباط میں واعظ وبیان تک محدود ہوگیا،ماسوااس کےعملی زندگی میں کہیں بھی یہ عمل نداردہے۔صرف ایک مثال ہماری شادی بیاہ کولےلیجیے،ماسوااسکےکہ ایجاب و قبول ہو،کوئی اورشعار ہمارے عقدونکاح میں ہے۔تمام وہ تقریبات جنکازمانہ ٔجاہلیت میں بھی تصورنہیں کیاجاتاتھا،وہ آج ہمارے معاشرہ میں رائج ہے اورہمارےعلماء،قاضی صاحبان کےلیےیہ کوئی تشوشناک امرنہیں ہے۔یہ تصورعام ہے کہ ہونے دو جو ہورہا ہے،غنیمت ہے۔لاکھوں تصانیف ،کروڑوں واعظ وبیان ،لاکھوں علماءکی رات اوردن کی کاوشیں سب بیکار۔ اسلامی تہذیب دوردورتک بھی دیکھنےکونہیں ملتی ہے۔ہماری اپنی تہذیب دورِ جاہلیت کی شادی بیاہ کی رسمیں ،جاہل ہمہ اقسام کی رسمیں، لیکن اسلامی تہذیب ،اسراف ،غیراسلامی رواج سےاجتناب ،مردوزن کےآزادانہ اختلاط کاشائبہ بھی نہیں،دولت ،حیثیت کی بےجانمایش نہیں اورپھربھی زمانۂ جاہلیت کاعالموں،محدثین اورمفسرین کےواعظ وبیان نہیں،عقد عالیشان مسجدوں میں نہیں،اسلامی شعایرسےواقفیت نہیں پھربھی اسلامی تہذیب کی نمایاںجھلک ان تقاریب میں تھیں ،پھربھی ہم جیسوں کارجحان کےیہ غیراسلامی روش ترک کرناچاہیےاورآج عالیشان مسجدوں میں عقدگویاہم اسلام پرایک عظیم احسان کررہے ہیں، اسراف کاوہ عالم ،دعوتوں اوردیگرٹھاٹ شان وشوکت کاوہ عالم، وہ بھی ہزاروں جیدعلماء کی بیش بہارہنمائی کےزیراثرتوپھر کہنےکوجی چاہتاہےکہ پھر وہ دوربہت اچھاتھا،جسکو ہم جاہلیت کادورکہتےہیں۔ کم ازکم اسلامی تہذیب ،اسلامی شعار،حجاب ،شرم وحیا،اسراف سےاجتناب ،جھوٹی شان وشوکت کاکوئی رجحان نہیں۔ صرف ہوتا یہ تھاکہ عقد گھرکی چہاردیواری میں ہوتاتھا۔آج عالیشان مسجدوں میں ہوتاہے،لیکن رسمیں ساری غیراسلامی ان میںدیندارکیاغیردیندارکیا،جاہل کیااوراہل علم کیا،سب برابر کےشریک ہوتے ہیں۔ بہرحال آج کےعلم والوں کےدورسےوہ دوربہت اچھاتھا،جسکو جاہلیت کادورکہاجاتاتھا،کم ازکم لاعلمی کی بنیادپربخش دیےجانےکی توقع توکرسکتےتھے۔آج ہمارےاجتماع اورمحفلیں شادی بیاہ میں توکیا،حج و عمرہ میں بھی شرمسارکرنےوالی ہیں۔ خدامحفوظ رکھے پُرفتن دور کے آنے سے پہلے جوگذرگیا،وہ اپنےبدانجام سےبچ گیا،ورنہ آج ہم جنہیں نیکیاں اورکار خیر سمجھ رہےہیں، وہی ہمارےگلےکاطوق نہ بن جائے، خداخیر و آفیت کامعاملہ فرمائےاوراس امت کےانجام کوخیرسےآشناکرے۔ آمین
  abdulsamad12061955@gmail.