ظفر اقبال ظفر رائیونڈ
زمین کے وجود کو اوپر سے دیکھو تو لگتا ہے یہ ایک جیل ہے اوراس میں انسان قیدی کی طرح رہ رہا ہے، اس کی حیات پہ گزرنے والی ناخوشگوارکیفیات بتاتی ہیںکہ یہ خلاف مزاج زندگی کاٹ رہا ہے، صاف پتہ چلتا ہے کہ انسان اس دنیا کے مزاج کا تخلیق ہی نہیں ہوا۔نہ یہ دنیا اس کے مزاج کو معافق آ رہی ہے۔ یہ اشرف المخلوقات کی طرح کسی اشرف المقام کا مقیم لگتاہے، اس کے ساتھ ہونے والے معاملات باقی ساری مخلوقات سے مختلف ہیں۔مثلاً جانوروں کو کبھی کمر درد سر درد دیگر امراض نہیں ہوتے ،انسانوں کو سب ہوتے ہیں۔ اگر ہم انسان اس زمین کے ہوتے تو اس کے حساب سے تخلیق ہوئے ہوتے، اب دیکھئے ناں! موسمی تبدلیاں کسی جانور پر اثر انداز نہیں ہوتیں، انسانوں پر ہوتی ہیں ۔میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انسان کوکسی شاندار ماحول سے نکال پر زمین پر پھینکا گیا ہے، یہ عادی نہیں ہے زمینی کی سختیوں کا۔اس کو تو رزق کے لیے اتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے حالانکہ باقی تمام جانوروں کے لیے اُن کی خوراک قدرتی پیدا وار براہ راست قابل استعمال ہے، وہ جہاں سے بھی لیں سیدھا کھانے لگتے ہیں، انسانوں کو کاشت کرنی پڑتی ہے، دھونی ،پسوانی، گوندھنی، پکانی، اُبالنی، سیکنی، تلنی سمیت کیا کیا لوازمات منسلک کرنا پڑتے ہیں تب جا کر یہ اُسے کھا سکتے ہیں۔جانوروں کو ایسی کوئی مشقت نہیں کرنا پڑتی ۔یہ ہو نہیں سکتا کہ کسی انسان کو ایسا غم نہ لگے جس کی وجہ اُسے معلوم نہیں یہ انسان اچانک اُداس ہو جاتا ہے، تھوڑا سا ناخوشگوار حالات آئے یہ غمگین ہو جاتا ہے، یہ اپنی تکلیف کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے انسانوں پر ظلم و درد کے حادثات دیکھ کر اداس ہو جاتا ہے، ایسے لگتا ہے اُداسی اس کی میراث ہے، اس کی روح کا مزاج غمزدہ ہے، یہ اس دنیا کی پیداکردہ علامات نہیں ہیں اس کی فطرت میں جذب طبیعت سے نمودار ہوتے آثار بتاتے ہیں کہ آدم ذات اپنے حقیقی گھر سے نکالے جانے پر اداس ہے۔
اگر ہم دنیا میں اداس ہیں تو ہمارا ربّ جس کا ہم پیار ہیں وہ بھی تو صبر وانتظار میں ہے ،وہ کہتا ہے اے میرے بندوں میں تمہاری آرزو کرتا ہوں تم میری آرزو کرو، میں تمہیں یاد کرتا ہوں تم مجھے یاد کرو۔دیکھئےناں! خدا سات آسمان اور سات زمینیںاور اس کے درمیان لاتعداد نظارے پیدا کرکے اپنے آسمانوں کے فرشتے اور زمین کی باقی تمام مخلوقات کے ہوتے ہوئے انسان پر توجہ مرکوز رکھتا ہے، یہ اس کی محبوبیت نہیں تو اور کیا ہے۔ سوچیں ناں جب اُس کا بندہ اُس کی طرف سے رُخ پھیر کر بیٹھا ہوتو اُس کو کیسا لگتا ہوگا۔ہم دنیا میں کسی سے نفس کی محبت کر بیٹھیں تو اس کا نظر انداز کرنا طبیعت بھاری کر دیتا ہے جیسے جینے کے رنگ ہی کھو گئے ہوں اور وہ جو محبت حقیقی کرتا ہے ،اُس کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو اُس کے مزاج محبت پر کیسا اثر پڑتا ہوگا، اُسے اپنے بندے کتنے عزیز ہیں تم اس کو اپنے وہم وگمان میں بھی نہیں لاسکتے۔حضرت آدم ؑ کے جنت سے نکالے جانے کے بعد اسے اپنی پہلی غلطی کا احساس و شرمندگی ستاتا رہتا تو ہر وقت روتے رہتے، دو سو برس تک ان کی آنکھوں سے آنسو خشک نہیں ہوئے ،اللہ کو منانے کا طریقہ ہی نہیں معلوم تھا،اپنی کم علمی و بے بسی میں جنت سے جینا شروع کرنے والے آدم ؑ زمین پر تنہا خدا کی رضا کے طلبگار غمزادہ روتے ہوئے آسمان کی جانب دیکھتے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ منائوں کیسے اپنے رب کو بس روتے رہتے ۔اللہ نے جب اتنا بے چار بے بس دیکھا تواپنی محبت کے پیش نظر چھپکے سے سینہ آدم ؑ پر توبہ ووسیلہ کے کلمات القاء کر دئیے کہ اے میرے دوست آدم ؑ اس طرح اپنے محبوب رب کو منا لو۔سبحان اللہ میرے رب دکھ بھی آپ دیں دوا بھی آپ دیں ۔خدا کی محبت کی ادائیں دیکھ کر تولگتا ہے خدا نے اپنا جی لگانے کو انسان پیدا کیا ہے ۔خدا کے سامنے غلطی ہوئی سزا لازم تھی جو آدم ؑ پر اتری اور قربان جائوں محبت خدا پر جس نے اولاد آدم ؑ کی غلطیوں پر پردہ پوشی بھی کی درگزر بھی کیا فوری گرفت سے بھی پیچھے ہٹ گیا توبہ کاسلیقہ و موقع دے کر معاف بھی کر دیتا ہے اپنی رضا کا انداز و کلمات بھی آدم ؑا ور اولاد آدم ؑکو سونپ دیتاہے یہ محبت خدا نہیں تو اور کیا ہے۔پھر خدا نے آدم ؑ کے سینہ پر القا ء کیے لفظ زبان سے یوں ادا کروائے کہ آدم ؑ بولے اے میرے رب میں اپنی جان پر ظلم کر بیٹھا ہوں اگر تم نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں خسارے میں چلا جائوں گا ۔اپنی غلطی تسلیم کرو توبہ کے ہاتھ جوڑو پھر دیکھوتمہارے دعا والے ہاتھوں کے پیالے میں ہی اپنی رضا کی رحمت و کریمی ڈال دیتا ہوں۔وہ جانتا ہے میں نے انسان کو جاہل اوراپنی جان پر ظلم کرنے والا کہا ہے پھرانصاف و شعور کا حساب سختی سے کیسے لے سکتا ہے خدا کا خوف نہیں محبت معتبر ہے خوف تو ان کاموں سے آنا چاہیے جن سے محبت خدا متاثر ہوتی ہے خدا سے ہنسی کھیل پیار لاڈ کا رویعہ رکھنے والے چلتے پھرتے خدا کے دھیان میں رہتے ہیں شیخ علی عثمان ہجویری ؒسے پوچھا گیا خدا نظر کیوں نہیں آتا جواب دیا اگر خدا نظر آ جاتا تو ایمان جبر ہو جاتا وہ تو تمہارے یقین و پیار سے تمہارا ہونا چاہتا ہے نظر آتا تو فوری گناہ پر سزا ملنے لگتی اب تو نظر نہیں آتا اور گناہ کے بعد توبہ کرنے والے پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اپنی بے قرار رحمتوں کے خزانے لُوٹا دیتا ہے ۔جب اس کے سامنے دو بڑی جماعتوں کے لیڈر حضرت آدم ؑ اور ابلیس نے خدا کے سامنے غلطی کی تو خدا نے ان کو سزا دینے کے بعد خود کو پوشیدہ کر لیا آج بھی اولاد آدم ؑ کے کئی گنہگار سزا سے پہلے توبہ واصلاح کرکے بچ جاتے ہیںیہی خدا چاہتا ہے وہ تو فرماتا ہے اے انسان تجھے سزا دے کر مجھے کیا ملے گا۔خدا تو ہماری ہی بھلائی و کامیابی کے لیے حکمتوں کا جہان بسائے بیٹھا ہے خدا سراپا محبت ہے ساری کائنات بنا کر خود پوشیدہ ہو گیا اب جو اس سے محبت کرتے ہیں وہ خود کو پوشیدہ رکھ کر خدا کو ظاہر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
خدا بھی انسانوں کی طرح محبت کرتا ہے مگر وہ ہمارے جیسا نہیں بلکہ ہمیں اپنے جیسا بنانا چاہتا ہے یعنی خیر خواہی بھلائی مدد صلہ رحمی حسن سلوک اخلاق جیسی اپنی سنتوں پر لانا چاہتا ہے تاکہ خداکی محبت بننے والا یہ انسان اعلی اوصاف کا مالک ہو ۔یار محبت ہوتی ہی خاصیت کی بنیاد پر ہے ۔انسان صورت دیکھتے ہیں اور خدا صرف سیرت دیکھتا ہے سیرت خدا کا پسندیدہ وہ عمل ہے جو خدا کی محبت کو کھینچ کر ہمارے سینے میں سما دیتا ہے یہی چاہت خدا ہے کہ میں اپنے بندے کی پہلی ترجیح بن جائے۔
ایک لاکھ چالیس ہزار حجابات انوارمیں چھپی وہ محبوب ہستی جیسے ہم دیکھ نہیں سکتے بھلا اپنی سوچ و وجود کی تنگ گلیوں میں قید انسانوں کو کیوں محسوس ہوگا۔سچ پوچھیں تو میں کبھی کبھی محبت خدا کی گہرائیوں میں ڈوبا تڑپ کے ہاتھوں مجبور ہو کر خدا سے کہتا ہوں کہ کاش جس طرح کتے کو شیاطین اور مرغے کو فرشتے دیکھنے کی خاصیت پر مبنی آنکھ دی ہے مجھے بھی کوئی نظر خاص عطا کر دیتا میں تیری چاہت کی طرح تجھے چاہنے کے بعد تبسم خدا دیکھ پاتا ۔مانتا ہوں تیرے جلوے کی برداشت کی طاقت سے محروم ہوں مگر دل کا پیالہ احساس محبت سے لبریز رہتا ہے اگر میں خدا کو نہیں دیکھ پا رہا تو کیا ہوا وہ خدا کی اک تجلی جس نے کوہ طور کو جلا دیاتھا ہم پورے خدا کواپنی شاہ رگ میں بسائے پھرتے ہیں ۔