فکر و فہم
سید مصطفیٰ احمد ، بڈگام
اللہ نے انسان کو بےشمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ چھوٹے خلیوں سے لے کر بڑے بڑے سیاروں تک۔ اللہ نے انسان پر لا تعداد احسانات کئے ہیں۔ اس لئے انسان کے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی زندگی صرف اللہ کے لئے وقف کرے۔ اُس کے احکامات کی تعمیل کرے اور اُس کے منشا پر سرِخم رہے۔ظاہر ہے کہ انسان کی منزل اللہ کی چُنی ہوئی ہے۔اس لئے غور و فکر کی بات ہے کہ ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر آخر کہاں جانا ہے؟ اس لئےاللہ کو چھوڑ کر دوسرے لوگوں یا چیزوں کو خدا بنا کر اُن کی پیروی کرنا کہاں کی دانائی ہے؟بالآخر ایک دن تو اللہ کے سامنے ہی کھڑا ہونا ہے۔اُس دن خدا اپنی دی ہوئی بے حساب ساری نعمتوں کے بارے میں اپنے بندوں کی پرسش توکرے گا ہی، تب جا کر انسان کو احساس ہوگا کہ واقعی میں تو احسان فراموش ہوں۔ پوری زندگی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوا،مگر حاکمیت کسی اور کی مانی۔ دل میں کسی اور خدا کو بٹھایا، تعریفیں کسی اور کی کیں۔ دنیا کی رنگینیوں میں اتنا کھوگیا کہ جوابدہی کا خیال ہی نہیں رہا۔
اس ذلت سے بچنے کے لئے ایک فانی انسان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے۔وہ راستہ اللہ کی حاکمیت کو ماننا ہے ۔ بالفاظ دیگر اللہ کے احکامات پر ہر حال میں عمل پیرا رہنا ہے،اور اسی میں اصل زندگی کا مقصد اورآخرت کی کامیابی کی کنجی ہے۔ آخرت کی رُسوائی کے مقابلے میںدنیا کی مشکلیں،مصائب اور تکلیفیںکوئی ذلت نہیںہے۔ آخرت کی سرُخ روئی سب سے بڑی خوش نصیبی اور کامیابی ہے۔اگر دنیا کے لوگ ذلیل کرنے پر بضد ہوں اور بظاہر رُسوا کرنے پر بھی تُلے ہوں، آخرت کی رسوائی سے اللہ تعالیٰ بچانا چاہیے اور اس ذِلت ورُسوائی سے بچنے کا واحد ذریعہ اللہ کے لئے جینا ہے۔
انسان اس دنیا میں سالہا سال بِتانے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ اصل خیر خواہ صرف اللہ ہے۔ دنیا کے سارے رشتے عارضی ہیں اور بیشتر لالچ پر مبنی ہیں۔ مگر اللہ کی ذات ہی وہ واحد ذات ہے، جو اپنے بندے سے بے لوث اور بے لاگ محبت رکھتا ہے۔ مفت میں ہرنعمت مہیا رکھی ہے، معافی کے دروازے ہر وقت کھلے رکھے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا میں اگر انسان سے غلطی ہوجاتی ہے، تو اس غلطی کی بھرپائی کے لئے بہت سارے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ مگر اللہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اس کے حضور ندامت کے چند قطرےآنسو بہانے پر،کُلِ مغفرت ہوجاتی ہے۔ جب اس قسم کا معاملہ ہے،تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان صرف اور صرف اللہ کے لئے جئے۔
دنیا مصیبتوں کی آماجگاہ ہے، دُکھ درد یہاں ہر جگہ موجود ہے۔ انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ ساری مصیبتوں کا تن تنہا مقابلہ کرسکے۔ کچھ حادثات ایسے ہیں جو اس کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ایسی صورتحال میں اللہ کی ذات ہے جو انسان کو مصیبتوں اور حادثات کے مواقع پر تھام کے رکھتی ہے، اس کے دل کو مضبوط بناتی ہے، اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے۔ تو یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ انسان اپنی وفاداری کا ثبوت دے اور اللہ کے لئے جئے۔
مندرجہ بالا چندباتوں سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ اس فانی زندگی کا اصل مقصد اللہ کے لئے جینے میں ہے۔ اس دنیا کی ساری رعنائیوں کا لطف تب ہی ہے ،جب ان رعنائیوں کو اللہ کے دئے ہوئے طریقوں پر دیکھا جائے۔ یہ دنیا بھی پھر ایک جنت نما ہے جب اس زمین کو اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ دوسرے انسانوں سے انسانوں جیسا سلوک کرنے کو بھی ہم اللہ کے لئے جینے کے پیمانوں میں تول سکتے ہیں۔ وہ انسان کتنا عظیم ہے جو دوسرے انسانوں کے ساتھ انسانیت کے روپ پیش ِخدمت رہتا ہے۔ اس طرز عمل سے اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور یہی اصل زندگی ہے۔ اللہ ہم سب کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اور دنیا اور آخرت کو ہمارے لئے امن کا گہوارہ بنائے۔
(رابطہ نمبر۔7006031540)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)