طارق شبنم
بنگلے کی اچھے طریقے سے صفائی ستھرائی کرنے اور اُسے سجانے سنوارنے کے بعد اپنے مالک کے انتظار میں کرمو باغیچے میں بیٹھ کر خاموش نگر میں بنی اونچی اونچی خاموش عمارتوں کو دیکھتے ہوئے گہری سوچوں میں ڈوب گیا ۔۔۔۔۔۔
’’کرمو چا چا بڑے مالک کو اتنے سالوں کے بعد اپنے آبائی گھر آکر رہنے کی خواہش کیوں ہوئی ؟‘‘
دفعتاًباغیچے میں کام کر رہے مالی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی ۔
’’یہ اس کی خواہش نہیں بلکہ ضرورت ہے اور مجبوری بھی‘‘ ۔
کرمو نے مختصر سا جواب دیا ۔
’’کرمو چا چا ۔۔۔۔۔۔ میں کچھ سمجھا نہیں ‘‘۔
’’ اگر زندگی رہی تو وقت آنے پر سب سمجھ جائوگے ،فی الحال تم جلدی سے باغیچے کو سجائو ،بڑے مالک کے ساتھ اسکا بیٹا اورشاید بہو بھی ہوگی ‘‘۔
کرمو نے کہا تو مالی دلجمعی سے کام میں مصروف ہو گیا ۔
کرمو نوجوانی کے دنوں سے ہی سیٹھ مقبول کے یہاں گھریلو نوکر کی حیثیت سے کام کرتا تھا ،جو نہ صرف سیٹھ مقبول بلکہ پوری خاموش نگری کے ماحول سے اچھی طرح واقف تھا ۔شہر سے محض چند میل کی دوری پر واقع خاموش نگری کے لوگو ں ،جو بڑے بڑے تاجر اور سرمایہ دار تھے ،نے دولت کی ریل پیل کے چلتے عجیب شوق پال رکھے تھے۔پہلے پہل وہ خریداری ا ور علاج معالجہ کے لئے اپنے شہر کو چھوڑ کر دوسرے بڑے شہروں کا رخ کرتے تھے اور شادیاں اور دوسری سماجی تقریبات کے لئے شہر کے پانچ ستارہ ہوٹلوں کا انتخاب کرتے تھے ،لیکن آہستہ آہستہ نگری کے سارے لوگ اپنی آبائی بستی کو چھوڑ کر رہنے کے لئے بیرون مما لک چلے گئے ۔ سیٹھ مقبول بھی ایک بڑا تاجر تھا ،شہر میں اس کا بڑا کاروبار تھا اور سیٹھ ان دنوںاپنے اہل و عیا ل کے ساتھ شہر میں ہی رہتا تھا ۔اس کا بڑا بیٹا پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا اور عیش و عشرت زندگی گزارنے کے شوق سے امریکہ جاکر نوکری کرنے لگا جب کہ سیٹھ کے چھوٹے بیٹے نے بٍاپ کے کاروبار کو سنبھالا لیکن کچھ سالوں کے بعد ہی بڑا اور کامیاب تاجر بننے کے لئے اپنے شہر سے کاروبار سمیٹ کر وہ بھی بیرون ملک چلا گیا ۔دونوں نے بیرون ملک ہی شادیاں رچائیں ۔اپنے صاحب زادوں کی ا س کا میابی پر سیٹھ کے نفسیاتی زیر و بم میں عجیب سرور چھا گیا اور وہ ہوا سے باتیں کرنے لگا۔بیٹے اس کو ہر ماہ لاکھوں روپے بھیجتے تھے اور وہ عیش وعشرت کی زندگی گزارتا تھا۔اس دوران سیٹھ کی شریک حیات ،ٍجسے اپنے لخت جگروں کی جدائی سا نپ بن کر ڈس رہی تھی ،اچانک بیمار ہوگئی اور کچھ ہی دنوںبعد چل بسی ،جس کے بعد سیٹھ خود کو تنہا محسوس کرنے لگا اور اس کی صحت بھی گرنے لگی ۔ماں کی موت پر اس کے بیٹے تو نہیں آئے لیکن باپ کی حالت پر ترس کھا کر کچھ مہینوں کے بعد چھوٹے بیٹے نے سیٹھ کو جب اپنے پاس بلا لیا تو سیٹھ خوشی سے پھولے نہیںسمایا، اپنے دو بنگلے اور باقی پراپرٹی کرمو کے حوالے کرکے بیرون ملک چلا گیا اور آج پانچ سال کے عرصے کے بعد سیٹھ واپس اپنے گھر آرہا تھا ۔
دو پہر کے وقت خاموش نگر کی خاموشی کو چیرتی ہوئی ایک گاڑی آئی اور بنگلے کے سامنے رک گئی ۔کرمو دوڑ کے گیا اور صدر دروازہ کھول کر دیکھا تو سیٹھ لاٹھی کے سہارے گاڑی سے نیچے آرہا تھا اور اس کا بیٹا بھی ساتھ تھا۔ کرمو نے ان کی خوب آئو بھگت کی ، ان کا سامان اٹھایااور وہ گھر کے اندر داخل ہو گئے ۔کرمو ،جس نے ان کے لئے طرح طرح کے پکوان بنا رکھے تھے،نے ان کی خوب خاطر داری کی۔
’’کرمو ۔۔۔۔۔۔ابو جان کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی ہے ،اس کا اچھی طرح سے خیال رکھنا ‘‘۔
صبح ناشتہ کرنے کے بعد ہی سیٹھ کے بیٹے نے کرمو سے کہا اورجانے لگا ۔
’’چھوٹے مالک ۔۔۔۔۔۔ آپ لمبے عرصے کے بعد گھر آئے ہو ،کچھ دن تو رکو ،کم از کم اپنی ماں کی قبر پر جا کے فاتح تو پڑھ لو‘‘ ۔
’’نہیں کرمو ۔۔۔۔۔۔ میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے ،فلائیٹ مس ہو جائے گی‘‘۔
اس نے روکھے سے لہجے میں کہا اور چلا گیا ۔کرمو کو مرحومہ مالکن کی وہ بات یاد آگئی جو وہ آخری وقت میں بار بار کہتی تھی۔
’’میرے چکر کے ٹکڑے کہاں ہیں ،کوئی انہیں بلائو ۔۔۔۔۔ مرنے سے پہلے میں انہیں دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ ۔
اس نے ایک سرد آہ کھینچی اور دودھ لے کر سیٹھ کے کمرے میں گیا جو چارپائی پر گائو تکئے کے ساتھ ٹیک لگائے اونگ رہا تھا ۔
’’سیٹھ جی ۔۔۔۔۔۔دودھ پی لیجئے‘‘ ۔
کرمو نے آواز دیتے ہوئے کہا ۔
’’چلا گیا وہ ۔۔۔۔۔‘‘۔
سیٹھ نے آنکھیں کھولتے ہوئے تھکے سے لہجے میں کہا اور دودھ کا گلاس ہاتھ میں لے کر پینے لگا لیکن دو تین گھونٹ پی کر ہی گلاس کرمو کو تھمایا۔
’’سیٹھ جی ۔۔۔۔۔۔ پی لیجئے ،یہ خالص دودھ ہے‘‘ ۔
سیٹھ نے سر ہلاتے ہوئے نفی میں جواب دیا ۔
’’سیٹھ جی ۔۔۔۔۔۔ دو پہر کے لئے کیا بنائوں‘‘ ۔
کرمو نے پوچھا ۔
’’آج یخنی کھانے کو بہت جی کر رہا ہے ‘‘۔
’’جی مالک ۔۔۔۔‘‘۔
کرمو نے کہا اور چلا گیا ، بازار سے گوشت وغیرہ لے کر یخنی بنانے میں جُٹ گیا ،جب کہ سیٹھ لاٹھی کے سہارے اپنی بستی کا چکر لگانے نکلا اورکچھ دیر بعد واپس آکر کرمو سے پوچھا۔
’’ کرمو ۔۔۔۔۔۔ خواجہ رشید اب یہاں نہیں رہتا ہے کیا؟‘‘
’’ نہیں مالک ۔۔۔۔۔۔ وہ تو کب کا اپنے گھر والوں کو لے کر فارن چلا گیا‘‘ ۔
کرمو کی بات سن کر سیٹھ اداس اور فکر مند ہو گیا کیوں کہ خواجہ رشید اس کا جگری دوست تھا ۔ کرمو نے دوپہر کو سیٹھ کے سامنے کھانا رکھا تو اس نے بڑی بے دلی سے چند ہی لقمے اٹھائے اور ہاتھ کھینچ لیا ۔
’’ مالک ۔۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک سے کھا پی نہیں رہے ہیں ،آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟‘‘
’’ دراصل وہاں میری طبعیت کچھ خراب ہو گئی تھی ،لیکن اب بہت فرق ہے ۔ٹھیک ہوتے ہی واپس چلا جائوں گا‘‘ ۔
’’سیٹھ نے پر جوش لہجے میں کہا‘‘ ۔
کرمو روز اس کے لئے طرح طرح کی ضیافتیں بناتا تھا لیکن وہ کھانے سے قاصر تھا ،ہر بار چند لقمے ہی کھا پاتا تھا ۔اسے نیند بھی نہیں آتی تھی۔نیند کی گولیاں لے کر محض چند گھنٹے سوپاتا تھا ۔رات کو کئی بار کرمو کو جگا کر مختلف فرمائیشیں کرتا تھا اور غصے بھری نگاہوں سے دیکھنے کے ساتھ ساتھ اس پر چڑتا بھی تھا ،لیکن کرمو ایک وفادار ملازم کی طرح جی جان سے اس کی خدمت کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔
ایک رات کرمو برآمدے میں چٹائی پر سویا ہوا تھا تو رات کو وہ کمرے سے نکل گیا اور کرمو کو جگا کر چائے بنانے کے لئے کہا ۔
’’یہ لیجئے مالک ‘‘۔
کرمو نے چائے کی پیا لی اس کو تھماتے ہوئے کہا ۔
’’کرمو تمہیں اس چٹائی پر نیند کیسے آتی ہے؟‘‘
اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا ۔
’’عادت ہے مالک ‘‘۔
کرمو نے مختصر ساجواب دیا ۔
’’ تو مجھے اتنے اچھے بستر پر نیند کیوں نہیں آتی ؟ ،نہ بھوک لگتی ہے ،نہ ٹھیک سے کھا پی سکتا ہوں اور نہ سکون ہے۔ایک تم ہو کہ خوب کھاتے پیتے ہواور چٹائی پر شہزادے کی طرح سکون سے سوتے ہو‘‘ ۔
’’اوپر والے کی مرضی ہے مالک ۔۔۔۔۔۔دولت سے انسان قیمتی بستراور اچھی اچھی ضیافتیں ہی خرید سکتا ہے ،نیند ، بھوک ا ور سکون کی دولت نہیں ۔۔۔۔ ‘‘۔
کرمو کی باتیں سن کر سیٹھ کے چہرے پر پریشا نی کے آثار نمودار ہو گئے اور وہ تکئے کے ساتھ ٹیک لگائے نہ جانے کن سوچوں کی بھول بھلیوںمیں کھو گیا اور کرمو اس کی ٹانگیں دباتا رہا ۔
کچھ دن بعد سیٹھ زیادہ بیمار ہو گیا ،کرمو نے ڈاکٹر کو بلا کر اس کا علاج تو کروایا لیکن اس کی حالت دن بدن بگڑتی ہی رہی ۔کرمو نے فون کر کے اس کے دونوں بیٹوں کو اس کی نازک حالت آگاہ کیا لیکن انہوں نے کافی سرد مہری دکھائی ۔ایک شام اس کی حالت خراب ہو گئی جس سبب کرمو نے مالی کو بھی رات ان کے ہی یہاں ٹھہرنے کے لئے کہا ۔رات کو سیٹھ کی حالت زیادہ خراب ہوگئی اور وہ نیم مردہ حالت میں اپنے بیٹوں کو پکارنے لگا۔۔۔۔۔۔سیٹھ کی یہ حالت دیکھ کرمالی گویا ہوا ۔
’’ کرمو چا چا۔۔۔۔۔ اس کے دونوں بیٹوں کو فون کرکے بلانا چاہیے ‘‘۔
’’ وہ تو میں کر ہی لوں گا لیکن وہ ابھی نہیں آئیں گے،ویسے بھی اس نگر ی میں کرائے کے لوگوں کے ذریعے کفن دفن کرنے کا رواج ہے ‘‘ ۔
کرمو ،جو اس گھر کے ہر فرد کی رگ رگ اور نگری کے ماحول سے واقف تھا، نے نا امیدی کے انداز میں کہا ۔
’’وہ پھر کب آئیں گے ۔۔۔؟‘‘
’’مالی نے حیر ت زدہ لہجے میں پوچھا‘‘۔
’’ اپنے وقت پر‘‘ ۔
’’ کرمو چا چا۔۔۔۔۔۔ میں کچھ سمجھا نہیں‘‘ ۔
’’ اس بستی کے ان اونچے اونچے ویران بنگلوں سے پوچھو ۔۔۔۔۔ یہ اپنے مکینوں کو دیکھنے کے لئے ترستے ہیں ،تا وقتیکہ ان کا آخری وقت نہ آئے ‘‘۔
کرمو نے حسرت بھرے لہجے میں کہا ۔
���
اجس بانڈی پورہ ،کشمیر،ای میل [email protected]
موبائل نمبر؛9906526432