خاتون صحافی سے پولیس کی پوچھ تاچھ

سرینگر//کشمیری خاتون صحافی مسرت زہرا کو پولیس نے سماجی میڈیا پر مبینہ طور ملک مخالف پوسٹ کرنے پر پوچھ تاچھ کی۔ مسرت زہرہ کو پولیس کے سائبر تھانہ شیر گڑھی میں قریب ایک گھنٹے تک پوچھ تاچھ کی گئی۔پوچھ تاچھ کے بعد خاتون صحافی نے بتایا کہ انہوں نے معاملے کی تحقیقات کرنے والوں کے سوالات کے جواب دیئے۔ انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ٹیوٹر پر تحریر کیا’’ میں کیس کے متعلقہ پولیس افسران سے ملاقی ہوئی اور اور انکے سوالات کا جواب دیا،مجھے حراست میں نہیں لیا گیا اور تحقیقات جاری ہے،سب کے تعاون کی شکر گزار ہوں‘‘۔ پولیس کے سامنے پیش ہونے سے قبل مسرت زہرہ نے ایک ٹیوٹ میں کہا تھا کہ وہ صحافی ہونے کے حق سے حاصل حقوق کا دفاع کرنے جارہی ہے، ’’ میرے لئے نیک تمنائوں کی دعا کریں،کیونکہ یہی وقت ہے کہ میں بطور صحافی اپنے حقوق کا دفاع کرئوں،میں سائبر پولیس تھانے کے اندر جارہی ہوں‘‘۔ مسرت زہرہ  ان دو صحافیوں میں شامل ہے،جن کیخلاف مبینہ طور پر سماجی میڈیا پر  ’’ملک مخالف‘‘ مود ترسیل کرنے  اور جعلی خبرین شائع کرنے کی پاداش میں پولیس نے کیس درج کئے ہیں۔ مسرت زہرہ  کے خلاف حزب کمانڈر برہان وانی سے متعلق فیس بک پر پوسٹ کرنے کی پاداش میں کیس درج کیا گیا جبکہ انگریزی روزنامہ دی ہندوکے مقامی نامہ نگار پیرزادہ عاشق کو شوپیاں کی حالیہ جھڑپ،جس میں2جنگجو جاں بحق ہوئے تھے کے بارے میں خبر شائع کرنے کی پاداش میں کیس درج کیا گیا ہے۔اس دوران سی پی آئی (ایم) کے سینئر لیڈڑ محمد یوسف تاریگامی نے نوجوان خاتون صحافی اور ’دی ہند‘ اخبار کے سینئر نامہ نگار کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سخت الفاظ میں مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ میڈیا کی آزادی کو دبانے کے لئے یہ غیرضروری حرکات ہیں۔انہوں نے کہا جب ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو ، بہت ساری احتیاط کی ضرورت  ہوتی ہے۔انہوں نے دونوں کے خلاف درج کیسوں کو واپس لینے کا مطالبہ کیا  ۔ حریت کانفرنس (ع)نے ایک بیان میں دی ہندو کے نمائندے پیرزادہ عاشق حسین اور فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا کے خلاف دائر کی گئی ایف آئی آر کی مذمت کی اور اسے کشمیری صحافیوں کو ہراساں کرنے کی کارروائی قرار دیا۔ حریت نے جموںوکشمیر کے صحافیوں جو انتہائی مشکل حالات میں اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے رہے ہیں ،کیخلاف دبائو ڈالنے کی کارروائیاں حد درجہ افسوسناک قرار دیا۔کانگریس  کے سنیئر نائب صدر جی این مونگا نے حکام کی جانب سے ایک خاتون فوٹو جرنلسٹ کے خلاف ملک مخالف سرگرمیوں کی پاداش میں کیس درج کرنے پر مذمت کی۔ انہوں نے اس عمل کو اظہار رائے کو دبانے کے مترادف قرار دیا۔مونگا نے کہا کہ گزشتہ سال اگست سے رپورٹوں کے مطابق صحافیوں کو پولیس کی طرف سے طلب کیا جارہا ہے،جو بدقسمتی ہے۔
 

عالمگیر وباء سے ذرائع ابلاغ کی آزادی کوخطرہ

رپورٹربغیر سرحد کی رپورٹ میں انکشاف

پیرس//ذرائع ابلاغ کے نگران ادارے’ رپورٹر بغیر سرحد‘نے کوروناوائرس کی عالمگیر وباء کی وجہ سے دنیا بھرمیںمیڈیاکی آزادی کو درپیش خطرے کواُجاگرکیا ہے۔منگل کودنیا بھر میں ذرائع ابلاغ کی آزادی پرسالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے ادارے نے کہا کہ صحت معاملات کی بنیاد پرحکومتیں ایسے اقدامات کرسکتی ہیں جو معمول کے حالات میں ناممکن ہیں کیونکہ اس وقت سیاست بند ہے،لوگ خوف زدہ ہیں اوراحتجاجوں کا سوال ہی نہیں ہے۔ذرائع ابلاغ کی آزادی میں شمالی کوریا سب سے نچلے پائیدان پر ہے۔2019کی طرح 180ممالک کی فہرست میں ناروے ایک بار پھر سرفہرست ہے۔مجموعی طور پر رپورٹ میں امریکہ میں ذرائع ابلاغ کی آزادی کو’باعث اطمینان‘ قراردیا گیا ہے لیکن یہ بھی کہا گیا کہ گزشتہ برس صحافیوں کوہراساں اور خوف زدہ کرنا ایک تشویشناک مسئلہ رہا۔فہرست میں امریکہ45ویں پائیدان پر یورپ،افریقہ ،ایشیاء ،لاطینی امریکہ اورجزائرغرب الہندکے ممالک سے پیچھے رہا۔رپورٹ میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی کچھ صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروںکے ساتھ دشمنی کا بھی ذکرکیاگیااورکہا گیا کہ اُن کااکثر استعمال کیاجانے والا محاورہ’’جھوٹی خبر‘‘اب دنیابھر کے رہنمااستعمال کررہے ہیں تاکہ ذرائع ابلاغ کاگلاگھونٹ دیا جائے۔ادارے نے کہا کہ صحافیوں اور اداروں کے ساتھ دشمنی امریکہ میں وسیع اور تیز ہوتی جارہی ہے ۔صحافت کے مستقبل کے خطروں میں نوکریوں کی برخاستگی شامل ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈجٹل ٹیکنالوجی کے کمزورضوابط نے معلومات کابحران پیدا کیاہے جس سے حقیقت،پروپیگنڈااوراشتہارات میں فرق دھندلا ہواہے۔عالمگیر وباء نے افواہوں کے پھیلنے اورجھوٹی خبروں کوفروغ دیا ہے ۔
 
 
 

صحافیوں کو ہراساں کرنیکی کوشش: ایمنسٹی

نیوز ڈیسک
 
سرینگر// انسانی حقوق کی بین الاقومی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے حکومت ہند پر زور دیا کہ وہ جموں کشمیر میں فوری طور پر صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کریں۔ فوٹو جرنلسٹ مسرت زہرا پر غیر قانونی سرگرمیوں(انسداد) قانون کا اطلاق اور پیرزادہ عاشق کے خلاف مبینہ’’غلط اطلاعات‘‘ کی تشہیر کرنے کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کی خبروں کا نوٹس لیتے ہوئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے بھارت کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اوئناش کمار نے کہا’’ کشمیر میں صحافیوں کے خلاف 2کیس درج کرنے اور پولیس کی طرف سے تحقیقاتی عمل شروع کرنا اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ حکام اظہار رائے کی آزادی  پر قدغن لگانے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ صحافیوں کو ان کالے قوانین کے تحت خوف زدہ اور ہراساں کرنا کرونا وباء سے نپٹنے کی کوششوں میں خطرہ ہے اور اس سے خوف کا ماحول پیدا ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر میں مجموعی لاک ڈائون، انٹرنیٹ کی رفتار پر کافی عرصہ سے بندشوں اور صوابدیدی قید و بند اور وکلاء تک رسائی  ممکن نہیں ہے۔ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ صحافیوں کو پولیس تھانوں میں طلب کرکے ان سے وضاحت کرنے کیلئے کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پیرزادہ عاشق کو40کلو میٹر سفر کرکے متعلقہ افسر سے ملنے کیلئے کہا گیا،جبکہ انہوں نے ایمنسٹی کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ اگست2019کے بعد دوسری بار ان کے ساتھ ایسا ہوا،جب انہیں پولیس نے پوچھ تاچھ کیلئے طلب کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بار انکی دو خبروں کے بارے میں انہیں طلب کیا گیا،جس میں سے ایک کورونا کے ٹیسٹ کیٹوں کو وادی سے جموں کی طرف منتقل کرنے اور دوسری جنوبی کشمیر میں2جنگجوئوں کی ہلاکت سے متعلق تھی، جنہیں بارہمولہ میں سپرد خاک کیا گیا۔ایمنسٹی نے بتایا کہ میڈیا بشری حقوق کی پامالیوں کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔