حیاتیاتی ایندھن کے حصول اور وائرس سے بچاؤ کے جدید طریقے سائنس و تحقیق

پروفیسرعطاء الرحمٰن

مستقبل میں ایند ھن کا حصول آسان بنانے، وائرس سے بچائو کے لیے ادویات کی تیاری اور طویل عمر کے جنین دریافت کرنے کے لیے سائنس داں کوشاں ہے، اس ضمن میں اب تک کیا تحقیقات کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے ذیل میں چند تحقیقات اور دریافتوں کے بارے میں بتایا جارہا ہے۔
مائیکروب سےایندھن کا حصول :
فوسل فیول یا معدنی تیل کی محدود مقدار کی وجہ سے سائنس دانوں نے حیاتیاتی ایندھن ( بایو فیول ) کی تیاری کی طرف توجہ مرکوز کی ہے جو آپ کی کاریں یا جنریٹر چلانے کے کام آسکے۔ ان بایو فیول کے لئے پودوں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ پودے قابل کاشت زمین اور تازہ پانی کے استعمال کے محتاج ہوتے ہیں چنانچہ ان کو دوسری نقدآور فصلوں سے مقابلہ کا سامنا ہوتا ہے دوسرا بایو فیول الجی سے تیار کیا جا تا ہے۔
الجی سادہ نامیاتی اجسام ہوتے ہیں جو کہ ایک خلوی یاکثیر خلوی ہو سکتے ہیں ۔ (مثلاً:سمندری جھاڑیاں ) زیادہ تیل کی حامل الجی کوبرتن میں اُگایا جا سکتا ہے اور پھر ان سے بایو فیول جزونکالا جا سکتا ہے ۔ شعائی تالیف کے عمل میں الجی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سورج کی روشنی اپنے اندر جذب کرکے بایو ماس اور آکسیجن خارج کرتی ہے۔ الجی سے حاصل ہونے والا بایو فیول معدنی تیل کے مقابلے میں کافی مہنگا ہے۔
اس کی لاگت کو کم کرنے کے لئے تیزی سے نموپا نے اور زیادہ مقدار میں پیداوار کے لئے مسلسل تحقیق کی جا رہی ہے۔ بایوفیول کے حصول میں آنے والی لاگت میں اہم حصہ قیمتی تیل کے نکالنے کے عمل میں آنے والی لاگت ہے۔ ایری زونا اسٹیٹ میں کام کرنے والے سائنس دانوں نے ایک سبزنیلگوں الجی تیار کرکے اس مسئلے کاحل نکالنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جینیاتی طور پر ترمیم شدہ الجی ہے ،جس میں اس طرح ترمیم کی گئی ہے کہ ایک خلوی نامیا تی اجسام خود تخریب کا شکار ہوجاتے ہیں اور تیل خارج کردیتے ہیں، ماہرین اس پر مزید کام کر رہے ہیں کہ اس نامیاتی جسم (آرگنیزم) کو خودتخریبی کی ضرورت نہ پڑے جیسے ہی اس میں تیل پیدا ہو ان کے خلیات سے خود بخود باہر نچڑکر آنا شروع کردے اور تیل جمع کرلیا جائے۔
حیاتیاتی ایندھن پر جیٹ مکھی :
حیاتیاتی ایندھن وہ ایندھن ہے، جس کو مائیکرو آرگینزم (خوردنی اجسام) سے بنایا جا سکتا ہے یا پھر ان کو غذائی یا نا میاتی فضلہ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ٹھوس بایو ماس، مایع، بایو فیول یا بایو گیس کی شکل میں ہوسکتے ہیں اگرچہ کہ جس مواد سے یہ بنتے ہیں عام طور پر شعاعی تالیف کے عمل سے اخذ کیا جا تا ہے۔ لہٰذا ان کوشمسی توانائی کے ماخذ سے حاصل کردہ کہا جاسکتا ہے۔ مارچ 2011 ء میں ہوا بازی کے میدان میں ایک اہم انقلابی پیش رفت عمل میں آئی ۔ ایک لڑا کا جیٹ ہوائی جہاز کو روایتی جیٹ کے ایندھن اور حیاتیاتی ایندھن کے 1.1کی شرح سے بنائے گئے آمیزے سے اڑایا گیا۔ یہ حیاتیاتی ایندھن سرسوں کے خاندا ن Camelina .sativa جس کو عام طور پر صرف Camelina کہا جا تا ہے۔ اس سے نکالا گیا تھا اس لڑاکا جہاز نے آواز کی رفتار سے50 فی صد زیادہ رفتار سے پرواز کی اور کامیابی سے آزمائشی پروازمکمل کی۔ جاپان ائرلائن میں سفر کرنے والے فضائی جہاز پہلے ہی بایو فیول یا حیاتیاتی ایندھن اور روایتی ایندھن کے آمیزے سے تیار کردہ ایندھن سے چلنے والے جہاز پر سفر کر رہے ہیں۔
ان جہازوں میں استعمال ہونے والا حیاتیاتی ایندھن Camelinaسے حاصل کیا جاتا ہے، مگر پہلی دفعہ اس کو کامیابی سےفائیٹر جیٹ کو اڑانے کے لئے استعمال کیا گیا ۔Camelinaامریکا میں بڑے پیمانے پر پیدا ہوتی ہے اور یہ گندم کی فصل کے ساتھ متبادل فصل کے طور پر کاشت کی جاتی ہے۔ Camelinaسے حاصل کیا جانے والا حیاتیاتی ایندھن قیمتوں کے لحاظ سے بھی بالکل مناسب ہے جو کہ روایتی ایندھن کے مقابلے میں سستا ہے۔
سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والا بایو فیول اور گرین ہاؤس گیس :
پیٹرولیم اور دوسرے معدنی ایندھن کے چلنے سے مختلف گرین ہاؤس گیس مثلاً کاربن ڈائی آکسائڈ بنتی ہے۔ یہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ کا سبب ہے۔ کیا ہم اس عمل کو الٹا کرسکتے ہیں یعنی کاربن ڈائی آکساءڈ کو بایو فیولز تیار کرنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے ؟ اس طرح فضاء سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی کمی کا عمل واقع ہوگا جوکہ ایک اچھی چیز ہے۔یہ مقصد ایسی فصلوں کی افزائش سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ جو حیاتیاتی ایندھن (بایوفیول )بناتی ہیں۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے سائنس دان پروفیسر ویکٹ اور ان کے ساتھیوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ کام دو بیکٹیریا کو استعمال کرکے کیا جا سکتا ہے۔ پہلا بیکٹیریم Staphilococci کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سورج کی روشنی کی موجودگی میں استعمال کرتے ہوئے شکر میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ شکر دوسرے بیکٹیریا Shewanella کی مدد سے ایسے مرکبات میں تبدیل ہوجاتی ہے ،جس کو حیاتیاتی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس پروڈکٹ کو Renewable Petrolium کا نام دیا گیا ہے۔
حیاتیاتی بیٹری : ۔
حیاتیاتی ایندھن سے بنائے گئے خلیے تقریباً ایک صدی سے تحقیق کا موضوع ہیں۔ یہ جراثیمی(بیکٹیریائی) عمل کی نقل کرتے ہیں اور اس عمل کو بجلی پیدا کرنے میں استعمال کرنے کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں۔ بیکٹیریا سے بجلی پیدا کرنے والا پہلا فرد یونیورسٹی آ ف درھم، برطانیہ کے نباتیات کے پروفیسر تھے۔ جنہوں نے ایک جراثیمی اسٹرین سے ایک صدی قبل کامیابی سے بجلی بنائی تھی۔اس کے بعد1970ء میں جاپانی سائنس دان سوزوکی نے اس کام کوآگے بڑھایا۔ اس حوالے سے نئی اہم پیش رفت 2011ء میں عمل میں آئی جب یونیورسٹی آف ایسٹ انیگلیا ، برطانیہ کےسائنس دانوں کی ایک ٹیم نے جراثیمی پروٹین کی درست ساخت معلوم کرلی جوکہ برقی کرنٹ پیدا کرتی ہے ۔ قدرت نے یہ ساخت اس طرح بنائی ہے کہ یہ الیکٹرون کو جراثیمی سیل کے اندرونی حصے سے بیرونی حصے میں جانے کے لئے سہولت فراہم کرتی ہے اور الیکٹرون کی اس حرکت کی وجہ سے برقی کرنٹ پیدا ہوتا ہے۔ توقع ہے کہ یہ حیاتیاتی بیٹری جلد ہی اہم مقام حاصل کرلے گی، مگر اچھی بات یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ قدرت جراثیمی (بیکٹیریائی) سیل کے اندر اس قسم کا فعل کس طرح انجام دیتی ہے۔ (جاری )